امریکی ریاست مین کے شہر لیوسٹن میں فائرنگ کر کے 22 افراد کو قتل کرنے والا مشتبہ شخص 48 گھنٹوں کی تلاش کے بعد مردہ حالت میں پایا گیا ہے۔
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مین کے پبلک سیفٹی کمشنر مائیک سوسچک نے کہا کہ 40 سالہ آرمی ریزروسٹ رابرٹ کارڈ کی موت خود کو گولی لگنے سے ہوئی، اور اس کی لاش گزشتہ روز شام کے وقت ملی۔
گورنر جینیٹ ملز نے عجلت میں بلائی گئی ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ میں آج رات یہ جان کر سکون کی سانس لے رہی ہوں کہ رابرٹ کارڈ اب کسی کے لیے خطرہ نہیں رہا۔
جوبائیڈن نے کہا کہ فائرنگ کے اس واقعے کے بعد المناک 2 دن گزرے، نہ صرف لیوسٹن اور مین کے لیے، بلکہ ہمارے پورے ملک کے لیے۔
انہوں نے وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ میں بندوق کے زور پر ہونے والے اِن پُرتشدد واقعات کی وبا کو ختم کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرتا رہوں گا، لیوسٹن کمیونٹی اور تمام امریکی اس سب کے مستحق نہیں ہیں۔
حکام نے بتایا کہ رابرٹ کارڈ کی لاش لیوسٹن کے جنوب مشرق میں دریائے اینڈروسکوگن کے قریب لزبن فالز میں ملی۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس کی لاش ایک ری سائیکلنگ سینٹر کے قریب سے ملی جہاں وہ برطرف کیے جانے سے قبل ملازمت کرتا تھا۔
حکام نے کہا کہ وہ فوری طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ رابرٹ کارڈ نے خود کو کب گولی ماری، 2 روز قبل پیش آنے والے اس واقعے اور اس کے بعد رابرٹ کارڈ کے مفررو ہونے کے سبب علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔
رابرٹ کارڈ ایک آرمی ریزروسٹ تھا لیکن اسے کسی جنگی زون میں تعینات نہیں کیا گیا تھا، امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اس نے حال ہی میں کچھ آوازیں سنائی دینے لگی تھیں جس کے بعد اسے نفسیاتی علاج کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔
یہ حملہ 2017 کے بعد امریکا میں پیش آنے والا اب تک کا سب سے مہلک ترین واقعہ ہے، 2017 میں لاس ویگاس میں ایک پرہجوم میوزک فیسٹیول پر ایک بندوق بردار حملہ آور نے فائرنگ کر دی تھی جس میں 60 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔