سوشل میڈیا پر چھائی مختلف سیاسی رہ نماﺅں کی معتقد سپاہ ٹرول کی طرح ہمارے سیاسی منظر نامے تیار کرنے والے زمینی خدا بھی مجھے ایک ناکارہ بڈھا تصور کرتے ہیں۔ غالباً ان کی دانست میں میرے پاس کوئی نئی بات کہنے کو نہیں رہی۔ کئی دہائیاں قبل ذہن پر حاوی ہوئے نظریات ہی کو دہرائے چلاجارہا ہوں۔ اسی باعث مجھے ایسی بریفنگ یا ورکشاپ میں مدعو کرنے سے گریز کیا جاتا ہے جو صحافیوں کو عوام کی ’ذہن سازی‘ کے قابل بناتی ہیں۔ ایسی بریفنگ یاورکشاپس میں مدعو نہ کیے جانے کے باوجود میں دیانت دارانہ تجسس سے وہاں بلائے خوش نصیب صحافیوں سے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہمارے عوام کے ذہنوں میں کون سے تصورات بٹھانے کی کاوش ہورہی ہے۔ مسلسل کریدنے کے بعد دریافت کیا تو فقط اتنا کہ ’صحافیوں‘ سے یہ توقع باندھی جارہی ہے کہ وہ عوام کو مایوس نہ ہونے دیں۔ ان میں ’وقت اچھا بھی آئے گا ناصر‘ والا رویہ اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔
لوگوں کے دلوں میں امید کی لو جلانے اور اسے روشن رکھنے کی تمنا پر غور کیا تو میرے جھکی ذ ہن میں 1976ءکے اختتامی ایام یاد آنا شروع ہوگئے۔ ان دنوں’اخباری صحافت‘ کے بجائے میں پاکستان نیشنل آرٹس کونسل جسے اب ’ادارہ ثقافت پاکستان‘ پکارا جاتا ہے کا ملازم تھا۔ ایک سہ ماہی جریدے کا نائب مدیرجو پاکستانی ثقافت کی مختلف جہتیں تحقیقی مضامین کی بدولت دنیا کے روبرو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا۔ تحقیق کے بجائے لیکن مجھے زمانہ طالب علمی ہی سے ’تخلیق‘ کا جنون لاحق ہوچکا تھا۔مجھے گماں تھا کہ میرا ذہن جدید اور چونکا دینے والے ڈرامے لکھنے کے سوا کچھ اور کرنے کے قابل ہی نہیں۔
ڈرامہ مگر ہمارے ہاں ان دنوں فقط پاکستان ٹیلی وژن ہی کے لیے لکھا جاسکتا تھا۔اس کے علاوہ لاہور میں سٹیج ڈرامے بھی رش لینا شروع ہوگئے تھے۔ وہاں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مگر سٹیج کے لیے لکھے ڈرامے کو ’کہانی‘ یا ’پلاٹ‘ کہلاتی شے درکار نہیں تھی۔ مصنف فقط چند کرداروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی کہانی گھڑلیتا۔ اس ’کہانی‘ میں اصل ’رونق‘ مگر چند مزاحیہ اداکار فی البدیہہ اور برجستہ جگتوں کے ذریعے لگاتے تھے۔ مصنف اور ہدایت کار ان کے کامل محتاج تھے۔ سٹیج کے لیے لکھے ڈراموں کے ذریعے گویا آپ ’تخلیقی لکھاری‘ ہونے کے وہم میں مبتلا نہیں ہوسکتے تھے۔
سرکار کی کڑی نگرانی میں کام کرنے کے باوجود تاہم 1990ءکی دہائی تک پاکستان ٹیلی وژن تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانے میں مصروف رہا۔میں اس کا سب سے کم عمر لکھاری تھا۔اس پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلم اظہر اور آغا ناصر صاحب جیسے باوقار افراد مجھے ذاتی ملاقاتوں کے لیے اپنے گھر مدعو کرتے۔ چند کتابیں پڑھنے اور کچھ فلمیں بالخصوص دیکھنے کو اکساتے۔ ان کی شفقت کی بدولت میرا ذہن مختلف تخلیقی خیالات سے ابلنے کے قابل ہوگیا۔
پاکستان ٹی وی کا چکلالہ میں قائم سٹیشن ان دنوں ’راولپنڈی-اسلام آباد سنٹر‘ کہلاتا تھا۔ اپنے دفتر سے چھٹی کے بعد دوپہر کا کھانا کھاتے ہی میں وہاں چلاجاتا۔ وہاں غفران امتیازی صاحب کی بطور ڈرامہ پروڈیوسر بہت دہشت ہوا کرتی تھی۔ 1975-76ءمیں لیکن پروگرام مینیجر ہونے کی وجہ سے وہ ’انتظامی افسر‘ ٹائپ ہوگئے۔ انھیں مگر فکر لاحق تھی کہ راولپنڈی کے بجائے لاہور اور کراچی کے ٹی وی سنٹر ڈرامے کے شعبے پر اجارہ حاصل کررہے ہیں۔ ’قربتیں اور فاصلے‘ جیسا سلسلہ وار ڈرامہ تشکیل دینے والے امتیازی صاحب بضد تھے کہ راولپنڈی ٹی وی ڈرامے کے حوالے سے بھی اپنا مقام برقرار رکھے۔ فقط خبروں اور کرنٹ افیئرز کی نذر ہی نہ ہوجائے۔ بہرحال ان جیسے افراد کی ضد کی بدولت مجھ جیسے بے ہنر کو ڈرامے لکھنے کے بے تحاشا مواقع میسر رہے اور میں اس شعبے میں کچھ نام کمانے کے قابل ہوگیا۔
دریں اثناء1976ءکا وسط شروع ہوگیا۔ سرکاری حلقوں میں یہ افواہ پھیلنا شروع ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو جو آئینی اعتبار سے 1973ءمیں آئین منظور ہونے کے بعد وزیر اعظم کے منصب پر 1978ءتک براجمان رہنے کے حقدار تھے 1977ءکا آغاز ہوتے ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ بالآخر یہ افواہیں درست ثابت ہوئیں اور بھٹو صاحب نے مارچ 1977ءمیں نئے انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔
نئے انتخابات کا اعلان ہوا تو ایک دن مجھے پی ٹی وی کے چکلالہ سنٹر میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز دو صاحبان نے اپنے دفتر بلایا۔ وہاں مجھے ایک ’خفیہ‘ سرکاری خط فقط پڑھنے کو دکھادیا گیا۔ یہ خط ان دنوں تعینات ہوئے سیکرٹری اطلاعات کی جانب سے لکھاگیا تھا۔ مسعود نبی نور ان کا اسم گرامی تھا۔ وہ اپنے زمانے میں بہت دھانسو سرکاری افسر شمار ہوتے تھے۔ جو خط مجھے پڑھایا گیا وہ دوصفحات پر مشتمل تھا۔ اس میں نہایت تفصیل سے پاکستان ٹیلی وژن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایسے پروگرام تیار کیے جائیں جو لوگوں کے ذہنوں میں یہ ’حقیقت‘ روشناس کروائیں کہ سقوط ڈھاکہ کے باوجود اقتدار سنبھالنے کے بعد بھٹو حکومت نے ملک کی قسمت بدل دی ہے۔ یہ حکومت شملہ معاہدے کے ذریعے بھارت میں قید ہزاروں جنگی قیدیوں کو باوقارانداز میں واپس لانے میں کامیاب رہی۔ 1974ءمیں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد سے ’مسلم امہ‘ کو یکجاکیا۔ لوگوں کے ساتھ کیے ’روٹی،کپڑا اور مکان‘ کا وعدہ نہایت لگن سے نبھایا۔وہ خط سرکاری زبان کے استعمال کی وجہ سے مجھے تقریباً آدھا سمجھ آیا۔ اسے پڑھنے کے بعد میں نے افسران کو انکساری سے یاد دلایا کہ میں عموماً نوجوان نسل کی سوچ پر مبنی ڈرامے لکھتا ہوں اور اپنی سوچ میں ہرگز قنوطی نہیں ہوں۔ ویسے بھی ان دنوں مجھے ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ جیسی امید پرستی لاحق تھی۔ میرا ذہن مایوسی پھیلاتے ڈرامے لکھنے کے قابل ہی نہیں تھا۔
اس کے باوجود مگر ’حماقت‘سرزد ہوگئی۔ میرے وہم وگماں میں بھی نہیں تھا کہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے اور انتخابی مہم کا تقریباً آغاز بھی ہوچکا ہے۔ سیاسی حقائق سے قطعاً بے خبری کے عالم میں ایک ڈرامہ لکھ دیا۔ اس کا مرکزی خیال لاشعوری طورپر مشہور روسی ڈرامہ نگار چیخوف کے شہرئہ آفاق ڈرامے ’دی سی گل(The Seagull)‘ سے ذہن میں آیا تھا۔ میں نے ایک نوجوان لکھاری کو ذہن میں رکھا جو ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر لوگوں کو تفریح پہنچانے کے بجائے سوچ کو اکسانے والے ڈرامے تخلیق کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک ڈرامے کے لیے اسے ایک ہیروئین مل جاتی ہے جو کمرشل فلمیں اور ڈرامے بنانے والوں کی نگاہ میں آجاتی ہے۔ وہاں کامیابی اور شہرت کے حصول کے بعد وہ جلد ہی مگر ناکام بھی ہوجاتی ہے۔
ناکامی کے ان دنوں میں وہ میرے ڈرامے کے مرکزی کردار سے دوبارہ رابطہ کرتی ہے اور اس سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس کی خاطر کوئی نیا ڈرامہ تیار کرے۔ میرے ذہن میں آیاکردار مگر اس ’موقع پرست‘ کی مدد کو انکار کردیتا ہے۔ اپنے انکار کا اظہار کرتے ہوئے وہ ایک مکالمہ ادا کرتا ہے جس کے ذریعے وہ ہیروئین کو طعنہ دیتا ہے کہ کمرشل دنیا (یعنی عوام )کی توقعات پر پورا نہ اترنے کے بعد وہ مجھ سے یہ توقع باندھ رہی ہے کہ میں اس کے لیے کوئی نیا روپ سوچوں جو اسے لوگوں کے سامنے ’نیا‘اور ’مختلف‘ دکھائے۔
جو لائن مجھ سے روانی میں فطری طورپر لکھی گئی وہ مذکورہ ڈرامے کے تناظر میں قطعاً برجستہ تھی۔ ڈرامہ مگر چل گیا تو ’تھرتھلی‘ مچ گئی۔ الزام لگاکہ میں نے درحقیقت مذکورہ ڈرامے کے ذریعے لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو لوگوں کی توقعات پر حقیقی معنوں میںپورے نہیں اترے۔ اس کے باوجود ’نیا روپ‘ دھار کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے چکر میں ہیں۔ بخدا میں آج بھی مصر ہوں کہ مذکورہ ڈرامہ لکھتے وقت میرے ذہن میں بھٹو صاحب اور ان کی چلائی انتخابی مہم کسی بھی صورت موجود نہیں تھی۔ بہرحال وہ لائن لکھنے اور اس کے ٹی وی پر چل جانے کی وجہ سے ’انکوائری‘ ہوئی۔ کئی ہفتوں کی تفتیش کے بعد بالآخر بے گناہ قرار پایا۔ تفتیشی مراحل کے دوران ہی مگر طے کرلیا کہ وطن عزیز میں ڈرامے لکھنے کے قابل نہیں ہوں۔ رزق کے بندوبست کے لیے اخباری صحافت ہی پر انحصار کرنا ہوگا۔ اب مگر دورِ حاضر کی ’صحافت‘ کے لیے بھی خود کو ’ناقابل‘ ہوا محسوس کرنا شروع ہوگیا ہوں۔