پت جھڑ کی رت ہے، بارش کا نشان نہیں۔ آلودہ دھند نے آسمان سے ابتدائی سرما کی روپہلی دھوپ چھین لی ہے۔ آنکھ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ایک نامعلوم پرچھائیں کی چادر تنی ہے۔ بصیرت کا دامن تو مدت ہوئی تار تار ہو چکا، بصارت کا دائرہ بھی چشم حسود کی طرح تنگ ہو رہا ہے۔ صحافت کے پر کٹے طیور کی زبانی خبر ہے کہ رواں سہ ماہی کے اختتام تک عام انتخابات کا امکان پایا جاتا ہے۔ جمہوری بندوبست میں انتخابات کا موسم امید کے امکانات لئے نمودار ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں، معیشت، معاشرت اور بندوبست حکومت کے متبادل نمونے پیش کرتی ہیں۔ ہمارا معاملہ مختلف ہے۔ سازش، افواہ اور بے یقینی کے طویل سفر نے ہمیں اعتماد کا لامتناہی بحران بخشا ہے۔ سیاسی قیادت اور عوام میں نامیاتی ربط ہی موجود نہیں۔ سات دہائیوں سے سیاسی رہنمائوں کو بدعنوان، نا اہل اور قومی مفاد کی راہ میں رکاوٹ قرار دینے کی ناشدنی روایت سے جنم لینے والی اجتماعی نفسیات کو سیاسی عمل پر یقین ہے اور نہ جمہوریت پر اعتماد۔ جس جوش سے اہل فلسطین کیلئے آنسو بہائے جا رہے ہیں اسی شدت سے ملکی حالات میں بہتری کیلئے مسیحا اور معجزے کا انتظار ہو رہا ہے۔
فلسطین کے آتش و آہن کی بارش میں محصور مظلوموں کو ہمارے بے معنی بیانات اور خوش عقیدہ دعائوں سے جو مدد مل سکتی ہے قریب ایسا ہی فائدہ ہماری سیاست کے دبیز پردوں میں مخفی پخت و پز سے پاکستانی عوام کے معیار زندگی کو پہنچ سکتا ہے۔ نان شبینہ، بنیادی ضروریات اور تعلیم سے محروم عوام تو ایک طرف، تعلیم یافتہ طبقے کا علمی معیار بھی ایسا بلند ہے کہ انکی اکثریت اسرائیل اور فلسطین کے جغرافیائی اور تاریخی حقائق جانتی ہے اور نہ اپنے ملک کی معیشت کے خدوخال۔ ہماری ایک نسل اتاترک کمال پاشا اور اسٹالن کے عشق میں مبتلا رہی، مسولینی، لینن اور ہٹلر کے قصیدے لکھے گئے۔ اگلی نسل جمال ناصر، مائوزے تنگ اور ہوچی منہ کی مدح کے لئے وقف رہی۔ اسلامی سربراہ کانفرنس نے ہمیں شاہ فیصل، یاسر عرفات اور قذافی کی سنگی بت عطا کیے۔ خمینی، صدام، مہاتیر محمد اور اسامہ تو ابھی کل کی بات ہیں۔ ہم عصر دنیا کو سمجھے بغیر صنم تراشی کی اسی بے معنی مشق سے مقامی شعبدہ باز برآمد ہوئے۔ جمہوریت کی دیوار گریہ پر عمران خانی گولے کا شگاف تو سب کو نظر آتا ہے، یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ کینیڈا والے طبیب حاذق نے 2014ء کے بعد اس ملک کی خبر کیوں نہیں لی۔ بنات امہ کو الہدیٰ کی راہ دکھانے والی فرحت ہاشمی بھی مدت سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ استاد دامن کے لفظوں میں جاگنے والوں نے سوئے ہوئو ں کو جی بھر کے لوٹا ہے۔ اہل سیاست کی لوٹ مار تو برفانی تودے کا بالائی حصہ ہے۔ قوم کیخلاف حقیقی، سیاسی اور معاشی جرائم کی ہمیں خبر تک نہیں۔
1947 ء میں پاکستان بنیادی طور پر زرعی معیشت تھا۔ مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ اور خواندگی کی شرح دس فیصد تھی۔ ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ 53فیصد تھا۔ صنعتی شعبہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ابتدائی برسوں میں درآمدات کی بجائے مقامی صنعتی بنیاد کو ترقی دینا حکومت کی معاشی پالیسی تھی۔ 1951ء میں کولمبو پلان کی آمد اور کوریا کی جنگ سے تجارتی منافع میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والی اقوام میں ہونے لگا۔ ایوب آمریت کے دوران درآمدات کے لائسنس اور برآمدات پر بونس وائوچر کے اجرا سے مخصوص طبقے کو معاشی اجارہ حاصل ہوا۔ بیج، کھاد اور مشینی زراعت کے باعث زرعی شعبے میں سالانہ 7.7 فیصد اضافہ ہو رہا تھا۔ تاہم ملک کے مشرقی اور مغربی حصے میں معاشی تفاوت بڑھ رہا تھا۔ 60ء کی دہائی میں امریکی امداد شروع ہوئی۔
معاشی ترقی کے پرفریب منظر کے پس پردہ مشرقی پاکستان کا معاشی استحصال، غیر ملکی امداد اور سبز انقلاب کے نتائج کارفرما تھے۔ اس عرصے میں مینو فیکچرنگ کا شعبہ 16فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی کر رہا تھا۔ ستمبر 1965ء کی سترہ روزہ جنگ نے معاشی ترقی کی رفتار پر کاری ضرب لگائی۔ ملک دولخت ہونے کے بعد صنعتیں قومیانے کی پالیسی نے رہی سہی کسر نکال دی۔ پٹ سن کی برآمد ہاتھ سے نکل گئی اور اس کی بجائے غریب مائوں کے بچے خلیجی ممالک کو برآمد کیے گئے۔ 80ء کی دہائی میں معاشی ترقی کا سراب دراصل افغان جنگ کے نتیجے میں ملنے والے ڈالروں سے عبارت تھا۔ ضیا آمریت کے دوران داخلی قرضوں کا حجم 58ارب روپے سے بڑھ کر 1988 میں 521 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ کل قومی پیداوار اور قرضوں میں تناسب 77 فیصد کی حد کو چھونے لگا۔ اس دوران قرضوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا چنانچہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اخراجات پر کٹوتی لگائی گئی۔ نتیجہ یہ کہ انسانی سرمائے کی ترقی کو شدید دھچکا پہنچا۔ 90ء کی دہائی کی عکسی جمہوریت قرضوں کے بحران، افراط زر، مالی خسارے، بیروزگاری اور غربت میں اضافے سے دوچار رہی۔
آمریت جوابدہ حکومت نہیں ہوتی۔ ایسے بندوبست میں نمائشی ترقی کے پس پشت حقیقی معاشی بنیادوں میں پھیلتی ہوئی دیمک نظر نہیں آتی۔ 2008ء میں ملکی معیشت کا کل حجم 191 ارب ڈالر تھا جو 2013ء میں 260ارب تک پہنچ گیا۔ نواز حکومت کے پانچ برس میں معیشت 356 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ 2019ء میں کووڈ سے متعلقہ بیرونی اعانت کے باوجود ملکی معیشت تیزی سے سکڑنے لگی اور آج 340 ارب ڈالر پر کھڑی ہے۔ گویا آج ملکی معیشت کا کل حجم 2018 ء سے بھی کم ہے۔ 2018ء میں فی کس آمدنی 1621 ڈالر تھی جو 2023 ء میں 1471ڈالر رہ گئی ہے۔ یہ قومی معیشت کے چند بنیادی خد و خال ہیں۔ کیا ہماری سیاست پروجیکٹ عمران کے پندرہ برسوں میں نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں پہنچنے والے معاشی اور تمدنی بحران پر قابو پا سکتی ہے؟ کسی سیاسی جماعت نے ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ ہم شخصی کرشموں کے اسیر اپنے حقیقی معاشی حقائق بھی نہیں جانتے اور آنے والے برسوں میں سیاست کی شاہراہ دھند آلود ہے۔
آسمان اپنا، زمیں اپنی، نہ سانس اپنی تو پھر
جانے کس بات پہ اترائے ہوئے لوگ ہیں ہم