رات کے نو بج رہے ہیں، ٹی وی پر خبریں نشر ہو رہی ہیں ،اِن میں ایک خبر افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے متعلق ہے۔ نیوز کاسٹر بتا رہی ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو دی جانیوالی ڈیڈ لائن میں ایک دن باقی رہ گیا ہے، پس منظر میں افغان مہاجرین کی فوٹیج دکھائی جا رہی ہے ، اِس فوٹیج میں غریب ،بے حال اور لُٹے پُٹے افراد اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور خاندان کی پردہ دار عورتوں کیساتھ پاکستان کی سرحد پار کرکے ’اپنے ملک‘ واپس جا رہے ہیں۔ بچوں کو کوئی اندازہ نہیں کہ اُن کے ماں باپ انہیں کیوں اور کہاں لے جا رہے، وہ بس حیرت سے کیمرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔میں نے چینل تبدیل کردیا ہے مگر وہاں بھی یہی خبر ہے، اسکرین پر ٹِکر چل رہے ہیں کہ افغان باشندے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرکے اپنے وطن واپس جا رہے ہیں،تاہم شکریہ ادا کرتا ہوا کوئی شخص خبر میں نہیں دکھایا گیا ہے۔ اب میں اپنا سوشل میڈیا دیکھ رہا ہوں ،کسی نے ایک اسکول کی ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں ایک افغان بچہ اپنے پاکستانی ہم جماعتوں سے بغلگیر ہوکر انہیں الوداع کہہ رہا ہے۔ یہ ایک اور فوٹیج ہے ، اِس میں کچھ پشتون بھائیوں کا انٹرویو دکھایا جا رہا ہے جو کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ، اسی کی گلیوں میں پلے بڑھے، یہی ہمارا ملک ہے ، اسی سے ہمارا روزگار وابستہ ہے، ہم یہ سب کچھ چھوڑ کر افغانستان نہیں جانا چاہتے۔ میں نے ٹی وی بند کر دیا ہے اور اپنا موبائل بھی خاموش کرکے پرے رکھ دیا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ ہم کس دنیا میں جی رہے ہیں، اِس دنیا میں تو اسی صورت میں مسرور رہا جا سکتا ہے اگر ہم پتھر دِل اور خود غرض ہوجائیں!
افغان مہاجرین کیخلاف ہمارا مقدمہ کیا ہے؟ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ افغان جنگ کے بعد یہ مہاجرین ہمارے ملک میں آئے، ہم نے انہیں پناہ دی، انہوں نے ہمارے وسائل استعمال کیے،اُس کے بعد اِنکی اکثریت یہیں کی ہو کر رہ گئی ،اِن مہاجرین کی تعداد اِس وقت سینتیس لاکھ کے قریب ہے۔ ہم ایک غریب ملک ہیں اِسلئے اب مزید اِن مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، ویسے بھی اِن کی وجہ سے ملک میں منشیات، اسمگلنگ اور اسلحے کے کلچر کو فروغ ملااوردہشت گردی کا عذاب ہم نے جھیلا۔ رہی سہی کسر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ نے پوری کردی جس کی وجہ سے ہماری معیشت کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ یہ لوگ ہمارا زر مبادلہ استعمال کرکے اشیا درآمد کرتے ہیں اور پھر اپنے ملک میں فروخت کرنے کی بجائے پاکستان میں بیچ دیتے ہیں، اِن میں سے بہت سے افرادجعلی سفری دستاویزات پر سفر کرتے ہیں، پاکستانی پاسپورٹ کو بدنام کرتے ہیں اور کسی سرکاری ادارے میں اپنا درست اندراج نہیں کرواتے۔
اِن کے کاروبار پورے ملک میں پھیلے ہیں مگر یہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے اور کچھ تو ایسے جرائم پیشہ ہیں جو پاکستانی شہریوں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔اِن حالات میں کیا غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک بدر نہیں کردینا چاہیے ؟ممکن ہے آپ کہیں کہ جنگ بند ہونے کے بعد کسی مہاجر کا غیر ملک میں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، یہ بات درست ہوگی مگر جو لوگ کئی دہائیوں سے ’غیر ملک‘ میں مقیم ہوں، اُنکے بچے بھی وہیں پیدا ہوئے ہوں، کیا اب بھی انہیں غیر قانونی ہی سمجھا جائیگا! ایسا تو ’کافر‘ ممالک بھی ہمارے ساتھ نہیں کرتے، کچھ برس کےبعد تو وہ بھی رو پیٹ کر شہریت دےدیتے ہیں۔اب رہا سوال اسلحے کی تجارت، منشیات، اسمگلنگ، دہشت گردی اور جعلی دستاویزات بنانے کا۔ سینتیس لاکھ مہاجرین میں سے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو اِن غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونگے؟ شاید چند ہزار۔ اور یہ تمام دھندے ہم پاکستانیوں کے ساتھ مل کر ہی کیے جا سکتے ہیں، بلوچستان یا خیبر پختونخوا کی سرحد پر اگر اسمگلنگ ہوتی ہے تو یہ کام پاکستانی اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی اور بھتہ وصولی کی وارداتیں کرنیوالے افغانستان فرار ہو جاتے ہیں اور یہ سب بارڈر سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ جن افغانیوں کو ٹی وی پر ملک چھوڑ کر جاتے ہوئے دکھایا جا رہا ہے اُن کی حالت قابل رحم ہے، یہ بیچارے کہاں سے جرائم پیشہ لگتے ہیں۔ ہاں، جو شخص غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے ، اسے ضرور قرار واقعی سزا دی جائے اور یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب شریک ِ جرم پاکستانیوں کے گرد بھی شکنجہ کسا جائے گا ۔
یہاں ریاست کے کچھ اقدامات کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی، سچ کہوں تو پہلی مرتبہ افغانستان کے معاملے میں چند بہترین فیصلے کیے گئے ہیں۔ مثلاً افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پُر تعیش اشیا پر پابندی لگا دی گئی ہے، اِن اشیا کی کھپت صرف پاکستان میں ہی تھی جس کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہو رہا تھا، اِس پابندی کی وجہ سے روپیہ مستحکم ہوا ہے، اِس تجارت پر دس فیصد فیس عائد کرکے بھی درست فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے بھی موثر اقدامات کیے گئے ہیں جس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ یہ وہ چند کام ہیں جنہیں کرنے کیلئے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اِن کاموں کے مثبت نتائج بھی آنا شروع ہوگئے ہیں ۔ آخری بات وسائل کی بھی ہوجائے، افغان مہاجرین اگر سینتیس لاکھ ہیں تو ہم پچیس کروڑ ہیں، ایسے میں یہ واویلا کرنا کہ افغان مہاجرین ہمارے وسائل پر بوجھ بن گئے ہیں بے سروپا بات ہے۔
اِس دنیا میں گھر سے بے گھر ہونے سے بڑی کوئی مصیبت نہیں، خدا کسی دشمن کو بھی مہاجر نہ بنائے، ہم جس بے دردی اور بے رحمی سے تمام سینتیس لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں دہشت گردی، اسلحہ فروشی اور بھتہ خوری کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں وہ قابل افسوس ہے۔ اِس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ملک میں کوئی شخص غیر قانونی طور پر مقیم نہ رہے ، تاہم اِس بات کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اِن مہاجرین کی مکمل ڈاکیومنٹیشن پاکستان میں ہی کی جائے اور اُس کے بعد اگر کوئی بغیر دستاویز ات کے پکڑا جائے یا کسی جرم کا مرتکب ہو تو اسے ویسے ہی ملک بدر کیا جائے جیسے ہمارے امارات والے بھائی کرتے ہیں۔ ہم غزہ میں محصور فلسطینیوں کیلئے تو کچھ کر نہیں سکتے،سو جو کام ہمارے بس میں ہے وہ تو کرنا چاہئے!