غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن جاری، 7 ہزار سے زائد ملک بدر
پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تارکین وطن کی رضاکارانہ واپسی کی ڈیڈ لائن ختم ہوتے ہی اُن کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن شروع ہوگیا، گزشتہ روز طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے 100 قیدیوں سمیت 7 ہزار 300 سے زائد تارکین وطن کو ملک بدر کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ایک بیان میں وزارت داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے انہیں گرفتار کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ اکتوبر کے آغاز سے اب تک تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار 322 غیر ملکی تارکین وطن رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک واپس جاچکے ہیں۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ وطن واپسی کا سفر شروع کرنے والے 64 افغان شہریوں کو آج ہم نے الوداع کہا، یہ کارروائی کسی بھی غیر ملکی، جس کے پاس ضروری دستاویزات نہ ہوں، کو اپنے وطن واپس بھیجنے کے لیے پاکستان کے عزم کا اظہار ہے۔
Today, we said goodbye to 64 Afghan nationals as they began their journey back home. This action is a testament to Pakistan's determination to repatriate any individuals residing in the country without proper documentation. pic.twitter.com/2PB9BjFKTA
— Senator Sarfraz Bugti (@PakSarfrazbugti) November 1, 2023
ذرائع نے بتایا کہ بہت سے افغان شہری، جو معمولی جرائم کی وجہ سے جیل میں سزا کاٹ رہے تھے، انہیں ان کے آبائی ملک جانے کے لیے رہا کر دیا گیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ جیلوں سے رہائی پانے والے غیرملکی معمولی جرائم میں ملوث تھے اور انہیں افغانستان واپس جا کر اپنی بقیہ سزا کاٹنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
طورخم بارڈر پر افغان مہاجرین کی آمد کے سبب بارڈر مینجمنٹ پر دباؤ بڑھا، متعلقہ حکام کو تارکین وطن کی ملک بدری کے عمل میں پیچیدگیوں کا سامنا رہا۔
گزشتہ روز ملک بدر کیے گئے 7 ہزار 300 افغان شہریوں میں سے 51 وہ قیدی تھے، جنہیں پشاور کی سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا اور 64 کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا۔
ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ہے جو ملک بدر کیے جانے کا انتظار کر رہی ہے، صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی 22 ٹیمیں غیرقانونی تارکین وطن کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہیں لیکن بارڈر پر غیرقانونی تارکین کی تعداد ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کے کچھ حصوں میں متعدد ’ہولڈنگ سینٹرز‘ موجود ہیں لیکن وہ تقریباً خالی ہیں کیونکہ زیادہ تر غیرقانونی تارکین وطن کو بارڈر بھیجا جا رہا ہے، جس کے سبب وہاں پہلے سے ہی موجود ہجوم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
طورخم کے راستے افغانستان بھیجے جانے والے قیدیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریلیف) محمد عمران خان نے کہا کہ ان سب کو 3 برس سے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم ہونے کے الزام پر قید کیا گیا تھا، اب حکومت نے عدالتی احکامات کے بعد انہیں ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان افغان شہریوں کی تفصیلات کا ریکارڈ میں اندراج کیا جائے گا، ان کا ڈیٹا نادرا جمع کرے گا، جس کے بعد انہیں ملک بدر کرنے کے لیے طورخم میں پاک-افغان بارڈر کراسنگ پر منتقل کیا جائے گا۔
پشاور میں ایک ’ہولڈنگ سینٹر‘ میں تعینات ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ نادرا فنگر پرنٹس اور تصاویر سمیت تمام مطلوبہ تفصیلات حاصل کرے گا، ہمارے پاس وہاں انٹرنیشنل بارڈر مینجمنٹ سسٹم دستیاب نہیں ہے، اس لیے ان افغان شہریوں کو اس کے لیے ضلع خیبر لے جایا جائے گا اور پھر بعد میں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
مہاجرین کو نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے اپنی متعلقہ گاڑیوں کے اندر نادرا حکام کا انتظار کرنا پڑا جنہوں نے ملک بدری سے قبل ان کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔
بلوچستان میں 100 غیرقانونی افغان تارکین وطن گرفتار
بلوچستان میں پولیس نے ایف آئی اے اور دیگر حکام کے ساتھ مل کر کریک ڈاؤن شروع کیا اور کوئٹہ کے مضافات میں مقیم 100 سے زائد غیرقانونی افغان تارکین وطن کو گرفتار کیا۔
ان ’غیر قانونی تارکین وطن‘ کو کوئٹہ کے حاجی کیمپ میں قائم ’ہولڈنگ سینٹرز‘ میں منتقل کر دیا گیا جہاں سے انہیں چمن بارڈر کے ذریعے ملک بدر کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق رات گئے مزید سیکڑوں غیرقانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا جنہیں ’ہولڈنگ سینٹر‘ لے جایا گیا۔
نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی کہ سیکیورٹی حکام نے 100 سے زائد غیر دستاویزی افغان مہاجرین کو حراست میں لیا اور انہیں ’ہولڈنگ کیمپ‘ میں منتقل کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہزار غیرقانونی تارکین وطن کو ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے کراچی سے کوئٹہ پہنچایا جائے گا اور انہیں ملک بدری سے قبل ایک ہولڈنگ سینٹر میں منتقل کر دیا جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یکم نومبر کو ڈیڈ لائن ختم ہونے تک کم از کم 35 ہزار غیرقانونی تارکین وطن چمن کے راستے افغانستان جا چکے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ چمن میں 70 ہزار سے زائد ’جعلی قومی شناختی کارڈز‘ بلاک کیے گئے، متعلقہ حکام کی جانب سے جعلی شناختی کارڈز کے اجرا سے متعلق ڈیٹا مرتب کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چمن کے راستے 35 ہزار غیرقانونی تارکین وطن رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس چلے گئے جبکہ دیگر ’غیر قانونی تارکین وطن‘ تفتان اور چاغی سمیت دیگر کراسنگ پوائنٹس کے ذریعے پاکستان چھوڑ رہے ہیں۔
کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقت نے بتایا کہ کوئٹہ ڈویژن میں 6 ’ہولڈنگ سینٹرز‘ قائم کیے گئے ہیں۔
’غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی کا عمل سبوتاژ کرنے کا منصوبہ‘
دریں اثنا سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا کہ غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے ایک مذموم منصوبے کا سراغ لگایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اپنے ملک واپس جانے والے افغان شہریوں پر پاکستان میں کراسنگ پوائنٹس پہنچنے پر فائرنگ کیے جانے کا خطرہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد غیرقانونی تارکین وطن واپسی کے پرامن عمل کو سبوتاژ کرنا تھا، سرحدی علاقے میں بدامنی پھیلانے کے اس منصوبے کے تحت چمن اور اسپن بولدک میں پُرتشدد مظاہرے شروع ہونے کا بھی خدشہ تھا۔