دیکھیں جی مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے میں حلفیہ بیان دیتا ہوں اور یہ بھی کہ مجھ پر اس بیان کیلئے کسی قسم کا دبائو نہیں ہے ۔سومیرے بیان پر صدق دل سے ایمان لے آئیں کہ حافظ محمد ادریس سے میرے دیرینہ تعلقات ہیں اور یونیورسٹی کے زمانے سے ہیں ۔حافظ صاحب اسلامی جمعیت طلبا کے رہنما تھے اور میں اس امام کا مقتدی تھا دراصل جوانی میں ہر انسان خطا کا پتلا ہوتا ہے اور بے شک اللہ غفور الرحیم ہے ۔ایک حلفیہ بیان یہ بھی کہ مجھے یہ علم تھا کہ جماعت میں کچھ شاعر اور ادیب بھی ہیں مگر میں نے صرف نعیم صدیقی کی شاعری پڑھی تھی اور ان کا معترف تھا اور معترف ہوں ،میری بدقسمتی دیکھیں کہ ایک ہفتہ پہلے تک میں نے افسانہ نگار حافظ ادریس کا کوئی افسانہ نہیں پڑھا تھا اب مجھے ان کا افسانوی مجموعہ’ ناقۂ بے زمام ‘موصول ہوا تو مجھے اس وقوع کا علم ہوا ۔کتاب کا نام ہی بہت دل آویز ہے جو اقبال کے اس شعر سے لیا گیا ہے ۔
نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را
اور یوں حافظ صاحب نے اپنے قارئین کو کتاب کے نام ہی سے یہ پیغام دیا ہے کہ افسانہ نگاری کہاں اور اس کے رموزواسرار کہاں، میں تو بس ایک بے مہار قوم کو سیدھے رستے میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔اقبال نے نہ تو اپنے حوالے سے یہ بات بطور انکسار کہی تھی حافظ صاحب نے بھی ان کی پیروی کی مگر میں آخر میں بتائوں گا کہ حافظ ادریس کا بیان انکساری کی ذیل میں آتا بھی ہے کہ نہیں ؟
کتاب کے بارے میں ،میں نے اپنا فیصلہ ’’محفوظ‘‘ کر لیا ہے کہ مجھے کتاب سے پہلے ’صاحب کتاب ‘کے بارے میں بھی تو کچھ بتانا ہے جیسا کہ میں شروع میں عرض کر چکا ہوں کہ حافظ صاحب دوران تعلیم طلبا کے بہت جید قسم کے رہنما تھے اور میں ہمیشہ جمعیت کو ووٹ دیا کرتا تھا ایک مزے کی بات بتاتا چلوں کہ قیام امریکہ کے دوران نوائے وقت میں میرا ایک کالم شائع ہوا جو اس ملک کی آزاد فضا کی عکاسی تھی اور پاکستان میں ایک گھٹن کا ماحول جس کے نتیجے میں ہمارے ہاں جنسی کج روی میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اس پر حافظ صاحب نے مدیر نوائے وقت کو خط لکھا، جس میں اس کالم کے حوالے سےشدید احتجاج کیاگیا تھا اور مجید نظامی صاحب نے یہ خط من وعن شائع کر دیا اس سے بھی زیادہ وہ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے ابا جی غیظ وغضب کے عالم میں مجید نظامی صاحب کے پاس گئے اور ان سے شکایت کی کہ آپ نے عطاء الحق کی یہ خرافات کیوں شائع کی جس پر مجید صاحب نے کہا یہ ایک نوجوان کے خیالات تھے، میں نے سوچا تصویر کا یہ رخ بھی سامنے آنا چاہیے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی ، ابا جی نے میرے امریکہ کے ایڈریس پر خط لکھا اور کہا جب تک تم اپنے ان خیالات سے توبہ تائب نہیں کرتے مجھ سے کبھی کلام نہ کرنا۔ اس کے جواب میں، میں نے ابا جی کو ستائیس صفحات پر مشتمل خط لکھا۔ جس میں اسلامی حوالوں سے اپنے کالم کو ’’بے گناہ‘‘ ثابت کرنے کے ساتھ ان سے گڑگڑا کر معافی بھی مانگی اور آئندہ کیلئے راہ راست پر آنے کا وعدہ بھی کیا۔
چلیں یہ بات تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آگئی، میں آپ کو یہ بتانے چلا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد حافظ ادریس صاحب جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور پھر مرکزی رہنمائوں میں شمار ہونے لگے،مرکز میں نائب امیر رہے، ادارہ معارف اسلامی کے ڈائریکٹر اور نیروبی کے اسلامک سنٹر کے چیئرمین کے طور پر بھی بہت عرصہ خدمات انجام دیں، مگر ان تمام ذمہ داریوں اور دو مختلف راہوں پر گامزن ہونے کے باوجود میرے ان سے برادرانہ تعلقات رہے۔اب بھی گاہے گاہے ان سے فون پر گپ شپ ہوتی ہے اور میں لطفِ سخن لیتا ہوں۔ آمدم برسرمطلب جب حافظ صاحب نے ، سوری یہ بات میں بعد میں کرتا ہوں پہلے یہ تو بتاتا چلوں کہ حافظ صاحب واقعی حافظ قرآن ہیں، حافظ عذیر احمد کی طرح اپنے نام کے ساتھ شوقیہ حافظ نہیں لکھتے، یہاں حافظ شیرازی کا حوالہ سوئے ادب کی ذیل میں آتا ہے اور اس سے بھی زیادہ ملتان کے حافظ حلوہ کا ذکر مجبوراً کر رہا ہوں کہ اعلیٰ حافظ صرف حافظ ادریس ہی ہیں۔ بہرحال پریشان خیالی کے وجہ سے وہ بات درمیان میں ہی رہ گئی بلکہ حافظوں کے درمیان الجھ گئی ورنہ میں یہ بتانے چلا تھا کہ ان کے افسانوی مجموعے ’’ناقۂ بے زمام‘‘ کے کچھ افسانے پڑھنے کا موقع ملا تو ان کا مطالعہ کرنے سے میں اس خوف سے لرزاں و ترساں تھاکہ کہیں یہ ’’تبلیغی افسانے‘‘ نہ ہوں،
میں ادب برائے ادب کا نہیں، ادب برائے زندگی کا قائل ہوں، چنانچہ مجھے خوشی ہوئی کہ حافظ ادریس بھی اسی نظریئے کے قائل ہیں، وہ اپنے قارئین تک جو بات پہنچانا چاہتے ہیں، بآواز بلند اور کرختگی کے لہجے کی بجائے بین السطور وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں، جو وہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ مجھے علم نہیں حافظ ادریس کب سے یہ ’’کام‘‘ کررہے ہیں اور اگر ابھی شروع کیا ہے تو اب اسی میں لگے رہیں کہ وعظ سے ناقۂ بے زمام، سوئے قطارنہیں جایا کرتی۔ یہ کام صرف تخلیقی پیرائے ہی میں انجام دیا جا سکتا ہے۔ واہ برادرم اب آپ کی طرف ’’ٹریٹ‘‘ واجب ہوگئی ہے۔