باسی کڑی میں بہت عرصے بعد پھر اُبال آیا ہے۔ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔شکایت ہے کہ عمران حکومت کراچی کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہی۔ اس ضمن میں بار ہا کئے وعدوں پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔
صدیقی صاحب نے اعلان فرمایا تو ریگولر اور سوشل میڈیا میں ’’تھرتھلی‘‘ مچ گئی۔ لوگوں کو یاد آنا شروع ہوگیا کہ عمران خان صاحب کی تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں۔جولائی 2018کے انتخابات کے دوران واحد اکثریتی جماعت بن کر اُبھری تھی۔ چودھریوں کی ’’قاف‘‘ لیگ، لندن میں مقیم ’’قائد‘‘ سے باغی ہوئی ایم کیو ایم،اختر مینگل کی جماعت،اندرون سندھ کے وڈیروں پر مشتمل GDAاور بلوچستان کی BAPنے یکسو ہوکر اسے ’’دلبر‘‘ بنادیا۔خان صاحب وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ان کے اتحادی تتربتر ہوگئے تو وزارت عظمیٰ پر فائز نہ رہ پائیں گے۔صدیقی صاحب کی پریس کانفرنس نے ’’اب تک دل خوش فہم…‘‘ کے حامل مسلم لیگ (نون) کے پرستاروں کو شہباز شریف صاحب کی ’’فراست‘‘ بھی یاد دلادی۔ ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مارچ 2020کا انتظار ہونا شروع ہوگیا۔ ’’دیکھے ہیں بہت ہم نے…‘‘ والی بے اعتنائی کی وجہ سے میں میڈیا پر حاوی ہوئے ہیجان سے لطف اندوز نہ ہوپایا۔سیاست دانوں کی قلابازیوں سے کوئلہ ہوا میرا دل اگرچہ اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرپایا کہ عمران حکومت کے وزراء کی ایک مؤثرتعداد ایم کیو ایم کو ’’منانے‘‘ کے لئے متحرک ہوگئی۔ ان کے ’’کپتان‘‘ بہت مغرور تصور کئے جاتے ہیں۔تواتر سے اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومت بچانے کے لئے اتحادیوں کے منت ترلے کرنے کے عادی نہیں۔حکومت جاتی ہے تو جائے۔وہ کسی کی ’’بلیک میلنگ‘‘ میں نہیں آئیں گے۔ایم کیو ایم نے مگر ’’روٹھے یار‘‘ کا رویہ اختیار کیا تو مبینہ طورپر ان کے براہِ راست حکم کی تعمیل میں اس جماعت کو ’’منانے‘‘ کی کاوشیں شروع ہوگئیں۔ وہ بالآخر مان گئی توکوئی اور اتحادی جماعت ناراض ہوجائے گی اور آنے والے کئی دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔عمران حکومت کی ’’اتحادی‘‘ جماعتوں پر نگاہ رکھتے ہوئے اگرچہ ہم اس حقیقت کو نظرانداز کرچکے ہیں کہ ’’میں NRO نہیں دوں گا‘‘ کے دعوے دار کی حکومت نیب قوانین میں ایسی ترامیم کرنے پر رضا مند ہوگئی ہے جن کی بدولت ’’احتساب‘‘ کا عمل بہت تیزی سے سست ہوتا نظر آئے گا۔امریکی صدر سے ملاقات سے قبل گزشتہ برس جولائی میں واشنگٹن میں امریکہ میں قیام پذیر پاکستانیوں کے ایک ’’تاریخی‘‘ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے اعلان کیا تھا کہ احتساب بیوروکے ہاتھوں گرفتار ہوئے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو جیلوں میں VIPسہولتیں میسر نہیں ہوں گی۔ قانون سب کے لئے برابر ہوگا۔جیلوں میں فقط ’’سی‘‘ کلاس ہوگی۔ اس کلاس میں اے سی اور بستر دستیاب نہیں ہوتے۔ ’’سیاسیوں‘‘ کے لئے خصوصی بیرکیں نہیں ہوں گی۔ وہ ’’عادی مجرموں‘‘ کے ساتھ ذلت واذیت کا سامنا کریں گے۔وزیر اعظم کے اس عہد پر عملدرآمد کے لئے صدارتی حکم سے ایک آرڈیننس بھی جاری ہوا۔اس آرڈیننس کواب واپس لے لیا گیا ہے۔اس آرڈیننس کے ہوتے ہوئے بھی اگرچہ ’’عدالت سے سزا یافتہ‘‘ نواز شریف صاحب احتساب کی حوالات سے لاہور کے ایک ہسپتال پہنچائے گئے تھے۔ بعدازاںانہیں علاج کی خاطر لندن بھیجنا پڑا۔ آصف علی زرداری بھی ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ ’’منشیات فروشی‘‘ کے الزام میں دھرے راناثناء اللہ صاحب اب میڈیا اور قومی اسمبلی میں گج وج رہے ہیں۔امید ہے بقیہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی زندگیوں میں بھی راحتیں چند دنوں بعد لوٹ آئیں گی۔ اگست 2018سے ’’کڑے احتساب‘‘ کی جانب دھوم دھام سے جاری ہوا سفر اب پڑائو کی تلاش میں ہے۔ہماری سیاست ’’معمول‘‘ کی جانب لوٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ’’انقلاب‘‘ تھک گیا ہے۔مراد سعید صاحب کی تندوتیز تقاریر البتہ اب بھی جاری ہیں۔شہزاد اکبر صاحب ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘ کا سراغ لگانے میں اب بھی مصروف ہیں۔اپنے ’’کارناموں‘‘ کی مگرتشہیر سے گریز کرنا شروع ہوگئے ہیں۔’’مک مکا‘‘ والی دستاویزات کو کابینہ کی منظوری سے ’’خفیہ‘‘ بنادیتے ہیں۔مقامی سیاست میں محاذ آرائی کی شدت میں جو کمی آئی ہے وہ کسی بھی حوالے سے حیران کن نہیں۔اس کالم میں تواتر سے فریاد کرتا رہا ہوں کہ جولائی 2018میں ’’انتخاب‘‘ ہوئے تھے’’انقلاب فرانس یا ایران‘‘ جیسا کو ئی واقعہ رونمانہیں ہوا تھا۔تحریک انصاف بالآخر ’’سسٹم‘‘ کے ساتھ سمجھوتے کرنے کو مجبور ہوگی۔ ’’سسٹم‘‘ بالآخر جیت گیا ہے۔ اس کے مطابق ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کو اُس کے جثے کے مطابق حصہ ملتارہے گا۔دریں اثناء میرے اور آپ جیسے لاکھوں دیہاڑی دار اور تنخواہ دار بدنصیبوں کو دل تھامے آئندہ ماہ کے آغاز میں سوئی گیس کے بلوں کا انتظار کرنا ہوگا۔مہنگائی کی لہر توانا تر ہوتی رہے گی۔عمران صاحب کے ایک بہت ہی چہیتے مشیر جناب عبدالرزاق دائود صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس ضمن میں ہماری اذیتوں کا سبب انہوں نے ’’کاروباری طبقات‘‘ کو ٹھہرایا۔ ’’کاروباری‘‘ لوگوں کو دوش دیتے ہوئے اگرچہ وہ یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ وہ خود بھی کوئی درویش صفت بوائے سکائوٹس نہیں ہیں۔ان کا خاندان ان 20گھرانوں میں نمایاں ترین تھا جوایوب خان کے دور میں اپنائی پالیسیوں کی بدولت وطنِ عزیز میں ہر کاروبار کے اجارہ دار بن گئے تھے۔عمران خان صاحب ایوب خان سے وابستہ نام نہاد ترقی کے اس عشرے کو جو 1958سے 1968تک مسلط رہا بہت حسرت سے یاد کیا کرتے ہیں۔وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد وہ یقینا اس عشرے کو دہرانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ان کی کوششوں سے نئے اجارہ دار گھرانے ہی نمودار ہوں گے۔ میرے اور آپ کے دل زار کے کوئی اختیارات باقی نہیں رہیں گے۔ ہم سرجھکائے بجلی اور گیس کے بل ادا کرتے رہیں گے۔ اپنی نوکریوں کو غلامانہ بے بسی سے برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ہمارے ہمسایہ ممالک میں مگرجو ہورہا ہے اس پر بھی نگاہ رکھنا ضروری ہے۔مودی سرکار کے خلاف عوامی مزاحمت تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔چند دن قبل اس کالم میںدلی کے ’’شاہین باغ‘‘کا ذکر ہوا تھا۔وہاں دھرنا دئیے بیٹھی خواتین کی تعداد گزرے اتوار کی شب ایک لاکھ سے تجاوزکرگئی۔ سنا ہے اب ممبئی اور کلکتہ میں بھی ایسے ہی دھرنے برپا کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔
بھارت ہی کی طرح اب ایران میں بھی متوسط طبقات بے چین ہورہے ہیں۔حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ تہران اور دیگر شہروں میں مظاہرے تعلیمی اداروں ہی سے شروع ہوئے۔مظاہرین میں توانا ترین آوازیں جینز کے ساتھ حجاب پہنی بچیوں کی ہیں۔ دُنیا کو ’’مسلم خاتون‘‘ ایک نیا رُخ دیکھنے کو مل رہا ہے۔برقعہ یاچادر میں خوف سے دبکنے کے بجائے وہ اپنے معاشی اور سیاسی حقوق کو بآواز بلند طلب کررہی ہے۔مغربی میڈیا ’’مسلم عورت‘‘ کے اس حیران کن رُخ کی پذیرائی کے بجائے ایران میں پھوٹے ہنگاموں کو اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت پراجیکٹ کررہا ہے۔ٹرمپ نے خود کو کبھی جمہوریت یا بنیادی حقوق کا محافظ بناکردنیا کے سامنے پیش نہیں کیا۔بہت ڈھٹائی سے بلکہ وہ دنیا کے ان حکمرانوں کو سراہتارہا جنہوں نے اپنے عوام کو آمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے گونگابنارکھا ہے۔ایرانی مظاہرین سے ’’یکجہتی‘‘ کے اظہار کے لئے وہ فارسی میں ٹویٹس لکھنا شروع ہوگیا ہے۔اس کا فارسی میں لکھا ٹویٹ دیکھا تو فوراََ میرے ذہن میں ’’ہوئے تم دوست جس کے…‘‘ لپک اُٹھا۔نہایت دیانت داری سے یہ سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ ایران میں ’’جمہوری جدوجہد‘‘ کی اپنے تئیں پذیرائی کرتے ہوئے ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ نیک طینت بچوں اور بچیوں کی جانب سے چلائی تحریک کو ’’سبوتاژ‘‘ کررہے ہیں۔ایرانی قیادت کے لئے اب آسان ہوگیا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئے بچوں کو ’’سامراج کے ہاتھوں گمراہ‘‘ ہوئے ثابت کرتے ہوئے ریاستی جبر کے بھرپور استعمال سے کچلنے کی کوشش کرے۔ ایران میں پھوٹے مظاہرین پر ریاستی جبر سے قابو پانے میں کامیاب ہونے کے باوجود اس ملک کی قیادت کو قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا ’’بدلہ‘‘ لینے کے لئے کچھ ’’بڑا‘‘ کرکے دکھاناہوگا۔ مشرق وسطیٰ میں تخت یا تختہ والی جنگ کے بجائے مسلسل تنائو کی کیفیت آنے والے کئی ہفتوں تک لہذا برقرار رہے گی۔اس تنائو نے تیل کی قیمت میں ہر صورت بڑھانی ہے۔رزاق دائود کا ’’وژن‘‘ اس ضمن میں ہمارے کام نہیں آئے گا اور نہ ہی شاہ محمود قریشی کی اس خطے میں آنیاں جانیاں۔