فواد چودھری کے لیے ”انسانی حقوق“ وغیرہ کی دہائی
بارہا اس کالم میں ہارے ہوئے شخص کی طرح اعتراف کیا ہے کہ رزق کمانے کی مجبوری ہے۔وگرنہ ہم کیا ہماری صحافت کیا۔ بارہا دہرائے اعتراف کے باوجود طعنہ زنی کے عادی چند افراد گزشتہ تین دنوں سے مجھے سوشل میڈیا پر پھیلائے چند پیغامات میں مسلسل ٹیگ (Tag)کررہے ہیں۔ جن لوگوں کو مذکورہ پیغام طعنے کی صورت بھیجا جارہا ہے وہ اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران جمہوری نظام اور انسانی حقوق کے ”چمپئن“ تصور کئے گئے۔ انہیں یاد دلایا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کے ایک جی دار اور منہ پھٹ رہ نما ہوا کرتے تھے۔نام ہے ان کا فواد چودھری۔ عمران حکومت کے زوال کے بعد انہیں ریاستی اداروں نے اپنے قائد اور جماعت سے بے وفائی کو مجبور کیا۔موصوف سرجھکاکر آمادہ ہوگئے لیکن چرب زبانی سے اپنی بے وفائی کو واجب ٹھہرانے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی۔ ان کی خاموشی پسند نہیں آئی ہے۔ایک بار پھرگرفتار کرلئے گئے ہیں۔ اب کی بارگرفتاری کی وجہ کسی صاحب کے ساتھ پیسے کے لین دین پر ہوا جھگڑا بتایا جارہا ہے۔مبینہ جھگڑے میں ”پستول دکھانے“ کا الزام بھی شامل ہے۔ وہ پستول ”برآمد“ کرنے کے نام پر فواد چودھری کو عدالت کے روبرو ان کے منہ پر چادر اور ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال کر پیش کیا گیا۔جن پیغامات کا میں ذکرکررہا ہوں وہ اس واقعہ سے دکھی ہوکر لکھے جارہے ہیں۔بنیادی سوال ان میں یہ اٹھایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے چمپئن ہوئے مجھ جیسے ”صحافی“ فواد چودھری کے ساتھ ہوئے سلوک کی مذمت کہیں نہیں کررہے۔
فواد چودھری سے میری دیرینہ شناسائی ہے۔جہلم سے ابھرکر پنجاب کے دوبار گورنر ہوئے چودھری الطاف حسین کی وجہ سے ان کے ساتھ چند جذباتی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ ان کی بنیاد پر مجھے گماں تھا کہ اپنے دورِ اقتدار میں فواد چودھری میرے بارے میں ہتھ ہولا رکھیں گے۔موصوف نے اس ضمن میں شرمندہ نہیں کیا۔میرا نام لے کر پھبتی اڑانے سے گریز کیا۔ان کے وزیر اطلاعات کا منصب سنبھالنے کے چند ہی دن بعد مجھے اس ٹیلی وژن سے جہاں میں ایک ٹی وی شو کرتا تھا ایک کارندے کے ذریعے خبردار کیا گیاکہ عمران حکومت میری یاوہ گوئی سے ناخوش محسوس کررہی ہے۔ کارندہ پیغام دے کر چلا گیا تو میں نے فون گھماکر فواد چودھری کو ”مبارکباد“ دی کہ ان کی وزارت ”صفائی ستھرائی“ کا آغاز مجھ سے کرنا چاہ رہی ہے۔ میری بات سن کر موصوف نے تردید کی ضرورت محسوس نہ کی۔ فقط یہ پیغام دینے پر اکتفا کیا کہ مبینہ ”صفائی ستھرائی“ ان کی وزارت کی جانب سے نہیں ہورہی۔اس عمل کی کمان ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ان دنوں عمران حکومت کے ساتھ ”سیم پیج“ کا سہانا موسم ا نجوائے کررہے تھے۔
ہماری گفتگو کے چندہی دن بعد جس ادارے کے لئے میں کا م کرتا تھا اس نے مجھے اپنے اوپر ”مالی بوجھ“ ٹھہرا کر فارغ کردیا۔ نوکری سے فراغت کے باوجود میرا نام صحافیوں کی اس فہرست میں بھی عمران حکومت کے خاتمے تک موجود رہا جنہیں مختلف ٹی وی اداروں کے ٹاک شوز میں تبصرہ آرائی کے لئے بھی مدعو نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ٹی وی سکرین سے تقریباََ چار برس کی ”جلاوطنی“ کے دوران میں جان چکا ہوں کہ ” انسانی حقوق“ وغیرہ کے نام پر دہائی مچانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں کی ہر حکومت اب ریاستی اداروں کے طویل تجربے کی بدولت وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے کو ہمہ وقت رضا مند رہے گی جو محض ریاستی بیانیے ہی کو حق سچ ثابت کرنا یقینی بنائیں۔عامل صحافی اب دورِ حاضر کے یا جوج ماجوج ہیں جو تمام دن ایک دیوار کو زبان سے چاٹ کر مسمار کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر صبح اٹھتے ہی وہ دیوار انہیں اپنی جگہ قائم ودائم نظر آتی ہے۔ہمارے لکھے سے نہ تو کسی کے دل میں رحم آتا ہے نہ شرمندگی کا احساس۔ہماری مچائی دہائی کو بلکہ ”زغوغائے رقیباں“ کی طرح رعونت سے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
یہ لکھنے کے بعد میں یہ اصرار کرنے کو بھی مجبور ہوں عمران حکومت ہماری تاریخ کی وہ پہلی ”منتخب“ اور سیاسی جماعتوں“ پر مشتمل حکومت تھی جس نے نہایت ڈھٹائی سے ریاست کے دائمی اداروں کی ترجیحات پر مبنی بیانیے کی تشہیر وفروغ کو ایمان وحب الوطنی کے برابر ٹھہرانے کے لئے دل وجان سے کام کیا۔ فواد چودھری کی رعونت بھری زبان درازی نے اس تناظر میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔عمران حکومت کے خلاف ہوئی تنقید کو وطن دشمن ٹھہراتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ اقتدار کے چند دن گزارنے کے بعد عوام کے ووٹوں کے محتاج سیاستدانوں کو برے دن بھی گزارنا ہوتے ہیں۔صحافیوں کا وہ گروہ جسے آ پ اقتدار میں بیٹھ کر ”لفافہ“ اور وطن دشمن“ ثابت کرتے رہے ہیں قارئین اور ناظرین کی نگاہ میں اپنا اعتبار کھودیتا ہے۔ آپ پر جب برا وقت آئے تو اس گروہ کا کوئی صحافی آپ کے حق میں آواز بلند کرنے کی اخلاقی بنیاد سے محروم ہوا محسوس کرتا ہے۔
”صحافت“ کی بے وقعتی بیان کرنے کے بعد میں یہ بات لکھنے کو بھی مجبور محسوس کررہا ہوں کہ تحریک انصاف کو جب ”سیم پیج“ والوں نے گودلیا تو اس میں ایسے لوگ بھی شامل کروائے گئے جن سے ریاست کے دائمی اداروں کو ”دائمی “وفاداری کی امید تھی۔ فواد چودھری کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا رہا ہے۔دائمی اداروں کے تحریک انصاف کے بارے میں جذبات مگر اب بدل چکے ہیں۔ فواد چودھری سے لہٰذا یہ توقع باندھی جارہی ہے کہ وہ ”نئے تقاضوں“ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی منہ پھٹ ذہانت اور زبان درازی کو عمران خان کی ”مسیحائی شخصیت“ کو مسمار کرنے کے لئے استعمال کریں۔ اس ضمن میں غالباََ اولین دباﺅ کے دوران چودھری صاحب نے ”نیک چال چلن“ کے وعدے بھی کرلئے ہوں گے۔یہ وعدے مگر ریگولر اور سوشل میڈیا پر عملی صورت اختیار کرتے نظر نہیں آئے اور اب انتخابات کی تاریخ طے ہوچکی ہے۔فواد چودھری کے لئے ”باجو کی گلی“کے راستے سیاسی میدان سے باہر کھسک جانا مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے۔