ملال
میں کل سے ملال میں مبتلا ہوں اور ملال بھی کوئی ایسا ویسا؟ یہ ملال تو لگتا ہے‘ ایک عمر تک ساتھ رہے گا۔ وقت کی ڈوری ہاتھ سے چھوٹ جائے‘ تو پھر فقط ملال باقی رہ جاتا ہے۔ سکواڈرن لیڈر (ر) شعیب ملک کی شہادت پر افسوس اور غم تو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے‘ مگر ملال تو اپنی کوتاہی‘ سستی اور نالائقی پر ہے اور اب ‘اس کا مداوا بھی کسی طور ممکن نہیں۔ بس یہی وہ ملال ہے‘ جو کل سے بے کل کیے ہوئے ہے اور خدا جانے کب تک بے کل رکھے گا۔
میں کبھی بھی شعیب ملک سے ملا نہیں۔ دو ‘تین بار صرف فون پر بات ہوئی تھی اور اب‘ اس بات نہ کرنے کا ملال ہے۔ شعیب ملک میرے کالموں کا مستقل قاری تھا اور کبھی کبھار‘ سالوں بعد فون کر لیتا تھا۔ کسی تکنیکی حوالے سے کوئی معلومات فراہم کرنے کے لیے یا کسی معاملے میں مزید وضاحت کے لیے۔ بلامقصد گفتگو کا وہ شاید عادی ہی نہیں تھا۔ جب بھی فون کیا کوئی نئی بات بتائی یا نامکمل معلومات کو مکمل کرنے میں مدد فراہم کی۔ وہ پڑھنے والوں کی اس قبیل سے تھا‘ جنہیں اپنے تبحر علمی کا رتی برابر تکبر نہیں ہوتا۔ بات بتاتے ہوئے بھی اس انکساری اور عاجزی کے ساتھ بتاتے ہیں کہ سننے والا اس دوران کسی جگہ یہ محسوس نہیں کرتا کہ قاری اس کے علم کو غلط ثابت کر رہا ہے یا اپنے علم کا رعب ڈال رہا ہے‘ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک علمی گفتگو کے دوران باتوں ہی باتوں میں نہایت عام سے انداز میں آپ کی غلطی کی تصحیح کر دی جائے یا آپ کی نامکمل معلومات کو مکمل کر دیا جائے۔ شعیب ملک ایسا ہی قاری تھا۔ اب‘ طبیعت پر طاری یہ ملال بھی گزشتہ سے پیوستہ کالم کے آخری پیراگراف سے متعلق ہے۔میں نے مورخہ سات جنوری کو کالم لکھا۔ اس کالم کا عنوان تھا ”بیانیے کی وفات اور محکمہ زراعت‘‘۔ اس کالم کے آخری پیرا گراف میں چولستان اور بہاولپور ڈویژن میں ٹڈی دل کے شدید حملے کا ذکر کیا تھا۔ یہ سارا معاملہ اسی آخری پیراگراف سے جڑا ہوا ہے۔ نہ میں یہ چند سطریں لکھتا‘ نہ ہی شعیب ملک کی ای میلز آتیں‘ نہ میں سستی اور کاہلی کرتا اور نہ ہی یہ ملال ہوتا‘ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ وقت گزر جائے‘ تو پھر سوائے اگر‘ مگر کے اور کچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا‘ یہی میرے ساتھ ہوا ہے۔
سات جنوری کو میں نے یہ کالم لکھا اور سات جنوری کو ہی رات 11:43پر سکوارڈن لیڈر (ر) شعیب ملک کی ای میل آئی۔ جو اس طرح تھی؛
خالد بھائی! السلام علیکم! آپ کو علم ہی ہو گا کہ میں آپ کے کالموں کا مستقل قاری ہوں اور ماضی میں اسی حوالے سے ہم دو‘ تین بار مختلف موضوعات پر بات بھی کر چکے ہیں۔ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ میں پاکستان ایئر فورس سے بطورِ لڑاکا پائلٹ ریٹائر ہوا ہوں اور آج کل وزارت ِتحفظ خوراک (Food Security) میں بحیثیت ِزرعی سپرے پائلٹ کام کر رہا ہوں۔ آج کل میں سکھر میں ٹڈی دل کے حملے کے خلاف نبردآزما ہوں اور اس ہوائی سپرے کا رحیم یار خان سے آغاز ان شا اللہ کل شروع ہوگا۔ آپ برائے مہربانی میرے نمبر 0322-4631693 یا 0345-4008362 پر رابطہ کریں۔ میں آپ کو کچھ دلچسپ اور فرسٹ ہینڈ معلومات دینا چاہتا ہوں جو ٹڈی دل کنٹرول کے حوالے سے ہوائی سپرے کی خامیوں سے متعلق ہیں۔ اپنا نمبر دے دیں تو میں آپ کو فون کر لوں گا۔ فقط۔ آپ کا؛ شعیب ملک‘ سکوارڈن لیڈر (ر)۔
میں نے یہ میل اگلے دن صبح پڑھی اور دوپہر کو شعیب ملک کو فون کیا۔ دو چار گھنٹیوں کے بعد میں نے فون بند کر دیا کہ میں لگاتار لمبی لمبی گھنٹیاں سنتے ہوئے خود بھی کوفت محسوس کرتا ہوں اور کسی دوست کو بھی لمبی لمبی گھنٹیاں دے کر کوفت کا شکار نہیں کرتا۔ دو تین گھنٹوں کے بعد دوبارہ فون کیا‘ مگر فون کسی نے نہ اٹھایا۔ میں نے دونوں بار یہ فون اپنے لینڈ لائن والے فون سے کیا۔ اگلے روز میں لاہور روانہ ہو گیا۔ لاہور سے سرگودھا اور پھر اسلام آباد‘ لیکن اسی دوران‘ یعنی اگلے دن مورخہ 8جنوری کو شعیب ملک کی ایک اور میل آئی ‘جس میں اس نے میرے فون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کا فون آیا میں اس وقت سپرے میں مصروف تھا ‘اس لیے کال کا جواب نہ دے سکا‘ مگر ان شا اللہ کل آپ سے بات ہوگی۔ یہ کل پھر نہ آ سکی اور اب‘ کبھی آئے گی بھی نہیں۔اگلے روز ‘یعنی 9جنوری کو میں نے دوبارہ فون کیا‘ مگر یہ عجیب بدقسمتی تھی کہ بات نہ ہو سکی۔ دس جنوری کا سارا دن سفر میں گزر گیا۔ گیارہ جنوری کو شعیب ملک کی پھر ای میل آئی کہ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے‘ مگر رابطہ نہیں ہو رہا۔ مجھے یہ میل رات گئے ملی۔ میں نے ارادہ کیا کہ صبح ہر حالت میں شعیب ملک سے بات کروں گا‘ مگر رات بھر کے سفر کے بعد میں صبح دیر سے اٹھا اور ایک دوست کے بیٹے کے ولیمے پر چلا گیا ‘جو دوپہر کو تھا۔ جاتے ہوئے راستے میں سوچا کہ شعیب ملک کو فون کروں اور فون ملایا‘ مگر اس بار فون بند تھا۔ کیا خبر تھی کہ اب‘ یہ فون کبھی آن نہیں ہوگا۔ ولیمے کے بعد ہم دوست ایک جگہ کافی پینے رک گئے۔ وہیں خبر ملی کہ رحیم یار خان کے نزدیک ٹڈی دل پر سپرے کرنے والا ایک چھوٹا جہاز گر گیا ہے۔ دل میں ایک خوف سا جاگزیں ہوا۔ ایک اخبار نویس دوست کو فون کیا کہ پتا کر کے بتائے کہ کیا ہوا ہے؟ اس نے بتایا کہ جہاز گرنے سے پائلٹ اور اس کے ساتھ سوار انجینئر جاں بحق ہو گئے ہیں۔ پہلے تو ہمت ہی نہ پڑی کہ نام پوچھوں ‘پھر ہمت کر کے کہا کہ نام معلوم کریں۔ دو چار منٹ بعد فون آیا اور چولستان کے نمائندے نے بتایا کہ پائلٹ کا نام شعیب ملک تھا۔ کافی کا گھونٹ منہ میں ایسا اٹکا کہ نگلنا مشکل ہو گیا۔ دوستوں کی محفل کا سارا لطف غارت ہو گیا اور اپنی سستی‘ کاہلی اور غیر ذمہ داری کا ملال اندر تک سرایت کر گیا۔ خدا جانے یہ ملال کب تک رہے گا؟
Locust‘یعنی ٹڈی دل کنٹرول کے لیے ایک محکمہ ہے ‘جو گھومتے گھماتے اب‘ وزارت ِقومی تحفظ برائے خوراک کے زیر انتظام ہے۔ کبھی اس محکمے کے پاس 20جہاز تھے؛ سات عدد فلیچر‘ آٹھ عدد سیسنا اور پانچ عدد بیوزجہاز۔ پاکستان میں ٹڈی دل کا آخری بڑا حملہ 1993ء میں ہوا اور اس کے بعد راوی چین لکھتا تھا۔ بیور ایئر کرافٹ کینیڈا کے بنے ہوئے ہیں اور لوکسٹ کے پاس موجود پانچ عدد بیور ایئر کرافٹس 1960ء کے بنے ہوئے ہیں۔ ساٹھ سال پرانے یہ جہاز اپنے ساتھی دیگر پندرہ جہازوں سے بھی دس سال زیادہ پرانے تھے‘ لیکن اس کے باوجود نسبتاً زیادہ اچھی حالت میں تھے کہ ”فلیچر اور سیسنا جہازوں کی خریداری سیاسی اور کمیشن کی چمتکاری کا شاہکار تھی‘ اس لیے وہ جہاز تو ناقابل ِاستعمال ہو گئے اور ان پانچ جہازوں کو ضروری مرمت( انہیں مرمت کے بعد بھی زخمی گھوڑے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے) کے بعد ٹڈی دل کے اس حملے میں دوبارہ میدان میں آنا پڑا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نالائقی‘ نااہلی‘ لاپروائی اور بے حسی کی داستان بالکل علیحدہ سے ایک موضوع ہے‘ لیکن محکمے نے وسائل کی کمی اور حکومت کی لاپروائی کے باوجود اپنے کم ترین وسائل کے ساتھ سپرے کا آغاز کیا اور ساتھ سال پرانے متروک جہازوں کے ساتھ تقریباً پونے تین لاکھ ہیکٹرز‘ یعنی پونے آٹھ لاکھ ایکڑ سے زائد کے متاثرہ کھیتوں پر سپرے کر کے ٹڈی دل کو تلف کیا‘ جو کل متاثرہ رقبے کا نوے فیصد ہے ‘لیکن جن حالات میں کیا‘ وہ الگ سے ایک کہانی ہے۔ شعیب ملک یہ کہانی سنانا چاہتا تھا‘ جو میری نالائقی کے باعث ادھوری رہ گئی‘ لیکن ملال کہانی کے ادھوری رہ جانے کا نہیں۔ ایک دوست سے اس کی خواہش کے باوجود بات نہ کر سکنے کا ہے۔ جناب علی کرم اللہ وجہہ کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادہ کی ناکامی سے پہچانا۔ سو ‘یہ عاجز کس باغ کی مولی ہے ‘لیکن وقت کی ڈوری ہاتھ سے نکل جانے کا اور کیپٹن شعیب ملک سے بات نہ ہونے کا ملال اپنی جگہ ہے‘ لیکن شعیب ملک کے بھیجے گئے دو واٹس ایپ میسیج ایک الگ داستان ہیں ‘ جو اپنی جگہ پر ایک کہانی ہے‘ درد ناک کہانی۔ کاش میں شعیب ملک سے بات کر لیتا اور اس عمر بھر کے ملال سے بچ جاتا‘ اسی طرح ایک اور ملال بھی ہے‘ جو 7 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تازہ ہے اور میں اسے بھگت رہا ہوں۔