کتنا بے بس ہوجاؤں گا میں
جب میری بے وفا روح پرواز کر جائے گی
لوگ کاندھے پر اٹھائے
مجھے آخری منزل تک لے جائیں گے
پھر اک سلسلہ ء آہ و فغاں ہو گا
کوئی آہیں بھرے گا
تو کوئی اشک بہائے گا
کچھ سینہ کوبی کریں گے
تو کچھ میری خوبیوں اور خامیوں کا مرثیہ پڑھیں گے
اور کچھ اللہ سے فریاد کرتے ہوئے نہ صرف میرے گناہ بخشوائیں گےبلکہ جنت بھی طلب کریں گے
لیکن ان تمام باتوں کا
مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوگا
کیونکہ میں تو بے بس, لاچار یہ تماشا دیکھ رہا ہوں گا
کہ لوگ کاندھے پر اٹھائے مجھے آخری منزل تک پہچانے کا فریضہ انجامدے رہے ہیں
اور یہ بےبسی، معزوری، لاچاری صرف اس لئے میرے حصّے میں آئے گی
کہ میرے مقبول جسم کو
میری بےوفا روح دھوکہ دے دے گی
اور زندگی کے انجام سے آشنا کر دے گی