منقبت
نہ پیٹوں سر نہ آنکھیں نم کروں میں
ترا شبیر کیا ماتم کروں میں
مقام عشق کا تو راہبر ہے
ترے لٹ جانے کا کیا غم کروں میں
تری تشنہ لبی کا ذکر کرکے
خود اپنے نام جام جم کروں میں
تری سیرت نگاہوں میں ہے میری
کیوں سر باطل کے آگے خم کروں میں
غم شبیر سے ملتی ہیں خوشیاں
تو پھر کیسے نہ ان کا غم کروں میں
مجھے وہ پاک لب دیدے خدایا
انہیں کا ذکر بس ہردم کروں میں
ہے یاد آئی مجھے شام غریباں
فہیم آنکھیں نہ کیسے نم کروں میں