اسد عمر بھی گفتار کے غازی نکلے
ہفتے کی رات سونے سے قبل حسب عادت سوشل میڈیا پر سرسری نگاہ ڈالی۔ ماضی کے ٹویٹر اور ان دنوں” ایکس“ کہلاتے پلیٹ فارم پر نگاہ پڑی تو وہاں اسد عمر سے منسوب ایک پیغام نظر آیا۔اسے پڑھا تو اعتبار نہیں آیا۔معیشت کے ہونہار طالب علم اور بعدازاں ایک بہت بڑے کاروباری ادارے میں کلیدی عہدوں پر فائزرہنے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوئے اسد عمر سے اس نوع کے پیغام کی توقع نہیں تھی۔بہرحال بہت جستجو سے سراغ لگایا تو پیغام اسد عمر کی جانب ہی سے لکھا ثابت ہوا۔ موصوف نے اس کے ذریعے عمران خان کی بنائی جماعت کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے بعد سیاست ہی سے کامل دست برداری کا اعلان کردیا ہے۔ہاتھ اٹھاکر گویا اعتراف کرلیا کہ صلاحیتوں سے مالا مال اور ہر فن مولا دِکھتے اسد عمر سیاسی عمل کے نشیب وفراز کی تاب نہیں لاسکتے۔ ”اس کو دور سے سلام“ کہنے کو مجبور ہوئے ہیں۔
اسد عمر کا ذاتی طورپر میں کبھی مداح نہیں رہا۔موصوف پیدائشی اعتبار سے پکے کراچی والے ہیں۔اسلام آباد اور یہاں کے باسی ان کے لئے تقریباََ اجنبی تھے۔ اس کے باوجود قومی اسمبلی کی رکنیت کی خواہش نے انہیں اسلام آباد کے اس حلقے سے منتخب ہونے کو مجبور کردیا جو 2013ءمیں اس شہر سے بھی قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد جاوید ہاشمی نے ”خالی“ کردیا تھا۔ بعدازاں 2018ءکے انتخاب میں بھی وہ اسی حلقے سے ایک بار پھر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
مذکورہ حلقے سے اسد عمر کا انتخاب اس حقیقت کا بھرپور اظہار تھا کہ کئی دہائیوں کی لگن سے عمران خان نے ہمارے شہروں میں متوسط طبقے کے نوجوان افراد پر مشتمل مداحین کا ایک مو ثر گروہ تیار کرلیا ہے جو سیاسی عمل میں حصہ لینے سے گھبراتا نہیں۔جس حلقے سے اسد عمر دوبار منتخب ہوئے وہ ایک زمانے میں ”دیہات“ تصور ہوتا تھا۔ 1990ءکی دہائی سے لیکن وہاں بہت تیزی سے اسلام آباد کے سی ڈی اے اور نجی سرمایہ داروں اور محکمہ پولیس سے متعلق افراد نے ”ہاﺅسنگ سوسائٹیاں“ آباد کرنا شروع کردیں۔ رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی خیبرپختونخواہ میں دل دہلادینے کی حد تک پھیلی دہشت گردی نے بھی کئی پشتون گھرانوں کو مردان،پشاور اور کوہاٹ وغیرہ سے اپنے خاندان اسلام آباد کے اس حلقے میں آباد سیکٹروں میں منتقل کرنے کو مجبور کیا۔ نقل مکانی اور نئے آباد کاروں کی وجہ سے ”مقامی“ افراد سے منسلک امیدواروں کی گرفت کمزور ہوگئی۔ اس حلقے کی اکثریت روایتی دھڑے بندی سے بالاتر ہوکر خالصتاََ سیاسی بنیادوں پر ووٹ ڈالنے کو تیار تھی۔ اس ”ذہن سازی“ میں تحریک انصاف کے مقامی کارکنوں نے بہت خلوص سے منظم ہوکر کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اسد عمر پہلی بار منتخب ہوکر قومی اسمبلی تشریف لا ئے تو وہاں موجود رپورٹروں کے ساتھ گھلنے ملنے سے اجتناب برتا۔ میں ان دنوں ایک انگریزی اخبار کے لئے پریس گیلری والا کالم لکھتا تھا۔میرے ساتھ سرِراہ سلام دعا ہوئی تو اسد عمر کو میں نے ”روکھا“ تصور کیا۔ ایسا ٹیکنوکریٹ جو صحافیوں کو بالعموم ”جاہل“ گردانتے ہوئے ”سنجیدہ“ موضوعات پر گفتگو کے قابل نہیں سمجھتا۔ٹیکنوکریٹ اور کارپوریٹ دنیا سے وابستہ رعونت کے علاوہ اسد عمر اپنے رویے سے تحریک انصاف کے دیگر کئی رہنماﺅں کی طرح صحافیوں کو فقط ”جاہل“ ہی نہیں بلکہ ”لفافہ“ شمار کرتے بھی محسوس ہوئے۔
سیاست دانوں کا دل موہنے کی عادت مجھے کبھی لاحق نہیں رہی۔ ازخود ان سے رابطہ کرنے سے لہٰذا ہمیشہ کے لئے گریز اختیار کرلیا۔کبھی کبھار وہ اسمبلی میں کھڑ ے ہوکر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کی اقتصادی پالیسیوں کا مذاق اڑاتے تو میں اپنے کالم میں اس کا بالخصوص ذکر کرتا۔ ان کے علم اور اعتماد کی تعریف کے ساتھ یہ لکھنے کو بھی لیکن مجبور ہوتا کہ موصوف خالص سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہیں جو ریاست کو عوام کے لئے ”مائی باپ“ کا کردار ادا کرنے سے روکتا ہے اور میری دانست میں ایسا نظام پاکستان جیسے ملکوں میں چل نہیں سکتا۔
مسلم لیگ (نون) سے کہیں زیادہ اسد عمر قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر پیپلز پارٹی سے اندھی اور تندوتیز نفرت کا اظہار بھی کرتے۔اس کی وجہ بھی عیاں تھی کیونکہ ان کے والد بطور جنرل 1973ءمیں یحییٰ حکومت کی جانب سے انتخابی عمل کے ”خفیہ“ نگران بنائے گئے تھے۔ ان کے ہاتھوں ”محب وطن“ ٹھہرائے سیاستدانوں کو خطیر رقوم بھی فراہم کی گئی تھیں۔ انتخابی نتائج نے مگر جنرل عمر کے تجزیے اور کاوشوں کو مضحکہ خیز حد تک ناقص اور کاربے سود ثابت کردیا۔اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔1970ءکے انتخابی عمل نے اگرچہ جنرل عمر اور ان کے بیٹوں کو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بنائی جماعت کا تاحیات ناقد بنادیا۔
اسد عمر کی رعونت اور چند متعصب دکھتے نظریات کے باوجود میں قومی اسمبلی میں ان کی جانب سے ہوئی تقاریر کو بہت غو رسے سن کر انہیں رپورٹ کرتا اور کالموں میں ان کا خلاصہ اور تجزیہ بھی پیش کرنے کی کوشش کرتا۔ قومی اسمبلی میں چند ماہ گزارنے کے بعد اسد عمر نے اسلام آباد کے ان صحافیوں سے بالآخر قربت قائم کرنے کی کوشش کی جو ان کی دانست میں ہمارے سیاست کے دائمی اداروں کے ”قریب“ تھے۔اس کے علاوہ وہ جناتی انگریزی میں معاشی معاملات پر رپورٹنگ اور تبصرہ آرائی کرنے والوں سے بھی رابطے قائم کرنا شروع ہوگئے۔ ان کے رویے نے بتدریج واضح کردیا کہ موصوف عمران حکومت میں وزارت خزانہ کا منصب سنبھالنے کی تیاری کررہے ہیں۔2018ءکے انتخاب کے بعد وہ اس منصب پر فائز بھی ہوگئے۔
وزارت سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد مگر ان کی ”صلاحیتیں“ بے نقاب ہونا شروع ہوگئیں۔ کارپوریٹ اور کاروباری دنیا سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ پاکستان کی معیشت عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف سے کامل کنارہ کشی اختیار کرنے کی متحمل ہوہی نہیں سکتی۔آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ذریعے پاکستان کے لئے ”امدادی پیکیج“ لینے میں وہ مسلسل لیت ولعل سے کام لیتے ہیں۔ بالآخر ان کے رویے نے ”سیم پیج“ والوں کو پریشان کردیا۔ان کی پریشانی عمران خان کے ہاتھوں اسد عمر کی فراغت کا باعث ہوئی۔وزارت خزانہ حفیظ شیخ کے سپرد کرنا پڑی جو جنرل مشرف کے زمانے سے آئی ایم ایف کے ”محبوب“ تصور ہوتے رہے ہیں۔
اسد عمر کو ان کے قائد نے واٹس ایپ پیغام لکھ کر فارغ کیا تھا۔ مجھ بے وقوف نے یہ فرض کرلیا کہ جس ذلت آمیز انداز میں انہیں وزارت خزانہ سے فارغ کیا گیا وہ کارپوریٹ دنیا سے آئے اسد عمر کو پسند نہیں آئے گا۔ اگر قومی اسمبلی کی رکنیت سے وہ مستعفی نہ بھی ہوئے تب بھی عمران حکومت میں اب کوئی اور وزارت مقبول نہیں کرے گا۔ چند ہی دن بعد اسد عمر نے مگر ایک اور وزارت ہنستے مسکراتے قبول کرلی۔
ایک ناکام وزیر خزانہ ثابت ہونے کے باوجود اسدعمر نے کرونا کی وباءکے دنوں میں اپنی صلاحیتوں کو ریاست کے دیگر اداروں کی مدد سے بھرپور انداز میں ثابت کیا۔اس کی بدولت وہ ”دائمی اداروں“ کے بھی دوبارہ قریب آگئے۔ اکتوبر2021ءمیں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کے دوران عمران خان اور مذکورہ اداروں کے مابین بڑھتی بدگمانیوں کا توڑڈھونڈنے میں تاہم ناکام رہے اور بالآخر اپریل 2022ءہوگیا۔
مجھے نجانے کیوں امید تھی کہ اپنے وسائل اور خاندانی تاریخ کی بنیاد پر وہ عمران خان کے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹ جائیں گے۔اپنی جماعت پر کڑا وقت شروع ہوتے ہی لیکن وہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور اب اس جماعت کی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہوکر سیاست سے بھی کامل دست برداری کا اعلان کردیا ہے۔ اس کڑے وقت میں موصوف کا میدان چھوڑدینا اس حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کرتا ہے کہ سیاست جس ڈھٹائی اور ثابت قدمی کا تقاضہ کرتی ہے اسد عمر جیسے ”گفتار کے غازی“ اسے نبھانے کے قطعاََ قابل نہیں ہوتے۔ان کے پاس محض باتیں ہی باتیں ہےں۔ ”اچھے دنوں“ کے بغیر وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا ساتھ دینے کی ہمت سے قطعاََ محروم ہیں۔