یادیرا پیریز نے اپنے کولہوں میں سے ٹشوزنکلوا لیے تھے۔ جب انھوں نے ان ٹشوز کی تصویر دکھائی جسے سرجن نے چار ماہ پہلے نکالا تھا تو انھوں نے پیلے اور سکڑے ہوئے گولوں کی طرف اشارہ کیا۔
وینزویلا کی 43 سالہ فوٹوگرافر کہتی ہیں کہ ’یہ چھوٹی چھوٹی گیندیں بائیو پولیمر ہیں، گویا ٹشوز اور خشک خون کا یہ ذخیرہ ان کا نہیں تھا۔‘
ان میں سے کچھ چھوٹی گیندیں میرے دائیں کولہے کے پٹھوں میں سرایت کر گئیں اور مجھے ناقابل برداشت درد ہوا۔ یادیرا نے 26 سال کی عمر میں اپنے کولہوں میں بائیو پولیمر انجکشن لگانے کے لیے رقم ادا کی۔
اگرچہ وہ اپنے آپ کو ایک اچھی شخصیت والی خوبصورت خاتون سمجھتی تھیں لیکن اس وقت ان کے بوائے فرینڈ کو جنون تھا کہ ان کے کولہے بڑے ہونے چاہییں اور وہ انھیں خوش کرنا چاہتی تھیں۔
جب بائیو پولیمر انجیکشن لگانے کے بعد ان کا پہلا حیض آیا، تو ان کے کولہے سرخ، سخت اور گرم ہو گئے۔ وہ نہ بیٹھ سکتی تھیں اور نہ ہی لیٹ سکتی تھیں۔ اس کے بعد سے جب بھی انھیں حیض آیا ان میں ایک جیسی علامات سامنے آتیں۔
بائیو پولیمر مصنوعی مادے ہیں جو ہونٹوں، چھاتی اور کولہوں کے سائز میں اضافہ کرتے ہیں۔ سنہ 2021 میں یادیرا کے اس عمل سے گزرنے کے 14 سال بعد وینزویلا کے حکام نے خطے کے دیگر ممالک جیسے کولمبیا، برازیل اور میکسیکو کی طرح کاسمیٹک سرجری میں ’فلرز‘ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔
چونکہ ان میں سے بہت سے طریقہ کار غیر رسمی یا خفیہ ہیں لہٰذا بائیوپولیمر کے انجیکشن والے مریضوں کے بارے میں کوئی عالمی اعداد و شمار نہیں ہیں۔
بی بی سی منڈو نے کراکس کے اس بیوٹی سیلون کو فون کیا جہاں یادیرا نے بائیو پولیمر لگائے تھے، لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔
سولہ سالوں میں، جب سے انھوں نے اپنے امپلانٹس کا انجکشن لگایا ہے، یادیرا کو اسے ہٹانے کے لیے دو لیزر لیپوسکشن اور ایک سرجری سے گزرنا پڑا ہے۔
آخری پروسیجر میں انھوں نے علاج اور صحتیابی کو دستاویزی شکل دینے کے لیے اپنی تصویر کھینچنے کا فیصلہ کیا، جبکہ فلوریڈا (امریکہ) کے شہر میامی میں سرجری اور ادویات کی ادائیگی کے لیے قرض لیا، جہاں وہ دو سال سے رہ رہی ہیں۔
یادیرا کیوبا، کولمبیا اور وینزویلا سے تعلق رکھنے والی 44 خواتین پر مشتمل ایک گروپ کا حصہ ہیں جو امریکہ کے مختلف شہروں میں رہتی ہیں اور جو امپلانٹس ہٹانے کے لیے سرجری کروانے کی تیاری بھی کر رہی ہیں۔
انھوں نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے ہسپتالوں، کلینکس اور ماہرین کے چکر لگائے جو اس بات کا تعین نہیں کر پا رہے تھے کہ آیا ان کی علامات امپلانٹس کی وجہ سے ہیں یا نہیں اور نہ ہی انھوں نے ان کے درد کو ختم کرنے کے لیے ان کا مؤثر علاج کیا۔
’چلو تمہارے کولہے بنواتے ہیں‘
سنہ 2007 میں کراکس میں کاسمیٹک سرجری میں تیزی آئی۔
اس وقت میں اپنے بیٹے لیو کے والد ہنری کے ساتھ رہتی تھی۔ ہنری ہمیشہ اخبار خریدتا تھا اور رسالوں میں سرجری کے اشتہارات ہوتے تھے۔
’دیکھو، وہ کولہوں کا کام کر رہے ہیں۔ چلو تمہارے کولہوں بنواتے ہیں۔‘
انھوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ’تصور کرو، تمھارے کولہے بڑے ہوتے۔‘
پہلے تو میں نے انکار کر دیا، لیکن آخر میں میں نے سوچا کہ ’میں انھیں خوش کروں گی۔‘
ہم ایک ایسی جگہ گئے جہاں کلینک بھی نہیں تھا، لیکن وہاں ایک آپریٹنگ روم تھا جہاں وہ چھاتی کی پیوند کاری اور لیپوسکشن کرتے تھے، جیسے ایک قسم کا دفتر جو کراکس میں بیلو مونٹی میں تھا۔ ہم کسی کی سفارش کے بغیر اشتہار کی وجہ سے گئے تھے۔
میگزین میں کہا گیا تھا کہ امپلانٹ مواد امریکہ اور یورپ کے سرجنوں نے بھی استعمال کیا تھا۔
میں نے کبھی امپلانٹ کروانے کے بارے میں نہیں سوچا کیونکہ میرا جسم اچھا تھا۔ میرے پاس کولہے نہ زیادہ بڑے تھے اور نہ بہت چھوٹے، یہ میرے جسم اور قد کے متناسب تھے۔
لیکن اسے یہ جنون تھا کہ میرے کولہے بڑے ہوں۔ ہم ابھی شروعات کر رہے تھے، ہم ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے سے ایک رشتے میں تھے۔
میرے پہلے سے ہی امپلانٹس ہوئے تھے۔ جب میں 21 سال کی تھی تو میری چھاتی کی سرجری ہوئی تھی کیونکہ مجھے چھاتی میں گلٹی تھی اور جب انھوں نے بائیوپسی کی تو انھیں پتہ چلا کہ وہاں مہلک خلیات موجود ہیں۔ میرے دونوں چھاتیوں پر جزوی ماسٹکٹومی تھی اور مصنوعی اعضا نصب تھے۔
’ایک ٹیپ لے لو‘
پہلی بار جب میں اور ہنری اس مشاورت میں گئے تھے، تو وہاں خواتین کی ایک قطار تھی جو بائیو پولیمر لگانے کا انتظار کر رہی تھیں۔
جس ڈاکٹر نے ہمارا علاج کیا اس نے کہا کہ وہ سرجن ہے۔ اس نے ہمیں ایک چھوٹی سی بوتل دکھائی جس میں وہ مائع تھا جس سے وہ مجھے انجکشن لگانے جا رہا تھا۔
انھوں نے بائیو پولیمرز نہیں کہا، انھوں نے کہا کہ وہ حجم دینے کے لیے خلیوں کو بڑھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر نے ہمیں اپنی بیوی سے متعارف کرایا، جو ان کی طرح ایک بوڑھی عورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے کولہوں پر یہ مادہ 15 سال سے زیادہ عرصے سے موجود تھا اور اس سے انھیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔
اگرچہ مجھے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن میں جانتی تھی کہ ہنری اس وقت تک اصرار کرے گا جب تک کہ وہ مجھے امپلانٹ حاصل کرنے کے لیے نہیں لاتا ، لہٰذا میں نے ہاں کہہ دی۔
میں بہت بھروسہ کرنے والی تھی، میں نے اس بارے میں کچھ نہیں پڑھا یا تحقیق نہیں کی کہ میں کیا کروانے جا رہی ہوں۔
ڈاکٹر نے مجھے پایوڈین (اینٹی سیپٹک) سے صاف کیا، مجھے لوکل اینستھیزیا کا انجکشن لگایا اور مجھے کچھ اور نظر نہیں آیا کیونکہ میں سٹریچر پر لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے مجھے جو آلہ انجیکشن لگایا تھا وہ کیسا تھا یا انھوں نے مجھے کس طرح کا انجکشن لگایا تھا۔ مجھے بھی درد محسوس نہیں ہوا۔ اس نے ہر اس جگہ ایک گول بینڈ ایڈ لگایا جہاں اس نے بائیوپولیمر کا انجکشن لگایا اور میں گھر چلی گئی۔ جب میں نے خود کو آئینے میں دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔
ہنری نے کہا کہ وہ حیرت انگیز تھا۔ شروع شروع میں مجھے یہ پر کشش لگے۔ میں سیکس کرتے وقت زیادہ محفوظ محسوس کرتی تھی۔ اس کا میری عزت نفس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، بلکہ اس اطمینان سے جو ہمیں اس عمل کے دوران حاصل ہوا تھا۔ لیکن اگلے چند دنوں میں، مائع باہر آنا شروع ہوا اور میری پتلون گیلی ہو گئی۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا: ’ایک ٹیپ ‘ چسپاں کریں اور اس سے مائع رک گیا۔
سرخ، سخت اور گرم کولہے
میرے پاس ایک چھوٹا سا سوراخ تھا جو سیلولائٹ کی طرح لگ رہا تھا اور ہینری نے مجھے اسے ٹھیک کرنے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیئے کہا۔
ڈاکٹر نے وہاں مزید مائع ڈالا، لیکن وہ چھوٹا سا سوراخ کبھی نہیں بھرا گیا۔
اس دوسرے انجکشن کے ایک ہفتے بعد، میرے کولہے سوج گئے۔ وہ سرخ، سخت اور گرم ہو گئ. اور پھر میرے کولہے اور پیٹھ میں سوجن آ گئی۔ میں بستر پر نہیں جا سکتی تھی۔
میں چھاتی کے مصنوعی اعضا کی وجہ سے اپنے پیٹ پر سو نہیں سکتی تھی اور نہ کولہوں میں بائیو پولیمر کی وجہ سے اپنی پیٹھ پر سو پاتی تھی۔ بیٹھنا ایک امتحان کی طرح تھا۔
جب مجھے یہ مسائل درپیش ہوئے تو ہنری بدل گئی ۔ ہم اب سیکس نہیں کرتے تھے، میں اتنا درد برداشت نہیں کر سکتی تھی، انھوں نے مجھ سے یہ دعوی کیا۔ اس کے پاس صبر نہیں تھا، وہ اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا چاہتے تھے چاہے کچھ بھی ہو اور انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ میں درد میں ہو۔
’آپ نے ہمیں بتایا کہ یہ محفوظ ہے‘
ڈاکٹر نے سوزش اور درد کو کم کرنے کے لیے مجھے ادویات کے ساتھ انجکشن دینا شروع کیا.G
ہر مہینے جب مجھے حیض آتے تو میرا ایک ہی رد عمل ہوتا تھا: میرے کولہے، کمر اور کولہے سوج جاتے تھے۔ یہ سرخ ہو جاتے، درد ہوتا، یہ بہت مشکل ہو گیا۔
وہ مجھے ہر مہینے انجکشن لگاتے اور اگلے مہینے تک یہ مسئلہ حل ہو جاتا۔
ہنری میرے ساتھ گیا اور ڈاکٹر سے کہا: ’آپ نے ہمیں بتایا کہ یہ محفوظ ہے، اور یہ کہ مجھے کوئی ری ایکشن نہیں ہوگا؟‘
ڈاکٹر نے ان سے کہا: ’فکر نہ کرو، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہم اسے ٹھیک کر رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر ایک سال سے ہر مہینے مجھے انجکشن لگا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن اس نے ہمیں بتایا کہ ان کے لیے مجھے انجکشن لگانا بہت مہنگا ہے کیونکہ انھوں نے مجھ سے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔
تجرباتی کیس
جب بھی مجھے حیض آتا ہے سوجن، درد، سختی اور سرخی واپس آ جاتی ہے۔
میں بیٹھ نہیں سکتی تھی، میں کام پر نہیں گئی تھی، مجھے بہت برا لگا۔
میں نے ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کے پاس جانا شروع کر دیا۔ انھوں نے مجھے اینٹی بائیوٹکس اور اینٹی الرجی ادویات بھیجیں اور انھوں نے میرے لیے کچھ نہیں کیا۔
آخر میں کوئی بھی میری مدد نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ انھیں سمجھ نہیں آیا ہہ کیا ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ مجھے ایک ڈاکٹر مل گیا جو بائیو پولیمر پر تحقیق کر رہا تھا۔ اس نے سفارش کی کہ میں ایک ریومیٹولوجسٹ سے چیک اپ کروں ، جس نے مجھے ٹیسٹ کے لیے بھیجا اور میرے کولہے میں رمیوٹائیڈ گٹھیا کا پتہ لگایا۔
میں بمشکل 27 یا 28 سال کی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ وہ نہیں جانتی کہ یہ بائیو پولیمر کی پیداوار ہے یا نہیں، لیکن انھوں نے اینٹی سوزش کے طور پر کام کرنے کے لیے پریڈنیسون تجویز کیا۔ کچھ وقت تک میں کراکس میں سوشل سکیورٹی فارمیسی سے یہ دوا لیتی رہی۔
اس کے بعد ہپس اور کولہوں میں سوجن کم ہو گئی۔ یہاں تک کہ اس دوا نے بھی کام کرنا بند کر دیا۔ میں نے تقریبا ایک سال تک اس ڈاکٹر کو دیکھایا جو بائیو پولیمر پر تحقیق کر رہا تھا۔ اسے یقین نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے اور اس نے میرے کیس کے بارے میں دوسرے سرجنوں سے مشورہ کیا ، یہاں تک کہ اس نے مجھے لیزر لیپوسکشن کرنے کی سفارش کی۔
انھوں نے خود اعتراف کیا کہ وہ مجھ پر اوپن سرجری کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس وقت سب سے اچھی بات یہ تھی کہ کینولا داخل کریں اور جتنا ممکن ہو نکالیں۔ ڈاکٹر کے پاس بائیو پولیمر کے صرف دو مریض تھے، ایک اور خاتون اور میں، لہذا ہم اس کے تجرباتی کیسز ہے۔
میں اتنی مایوس تھی کہ میں نے اسے بتایا کہ میں چاہتی ہوں کہ وہ میرے اندر سے سب کچھ نکال دے۔ مجھے چلنے میں کوئی دقت نہیں تھی، لیکن میرے کولہے اور ریڑھ کی ہڈی میں درد تھا۔
’یہ انجکشن مت لگوائیں‘
ہینری اور میں نے اس ڈاکٹر سے بات کی جس نے مجھے دوبارہ بائیو پولیمر دیے تاکہ اسے بتایا جاسکے کہ کیا ہو رہا ہے اور وہاں خواتین کی قطاریں لگی ہوئی تھیں جو امپلانٹ حاصل کرنے کا انتظار کر رہی تھیں۔
ایک دن میں پھٹ پڑی ، میں نے ویٹنگ روم میں اپنی پتلون اتاری اور وہاں موجود مریضوں کو اس سرخ اور گرم چیز کے ساتھ اپنے کولہے دکھائے۔
میں نے بے تابی سے ان سے کہا’خود کو یہ انجکشن نہ لگوائیں، ’خود کو یہ انجکشن نہ لگوائیں! دیکھو تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘۔
ان میں سے ایک نے مجھے جواب دیا: ’یہ ایک لاٹری ہے، یہ سب کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر نے کہا کہ وہ اب میری مدد نہیں کر سکتا۔
میں نے ان سے کہا ’یا تو آپ میرے لیے یہ مسئلہ حل کر دیں یا پھر میں روزانہ دفتر آؤں گی اور مریضوں کو ڈرانے کے لیے سب کو اپنے کولہے دکھاؤں گی‘
اس کے بعد انھوں نے 2011 میں ایم آر آئی کرنے کے بعد مجھ پر پہلا لیپوسکشن کیا جو دوسرے ڈاکٹر نے مجھ پر کیا تھا جس میں انھوں نے دیکھا تھا کہ میرے کولہوں میں کتنا مواد موجود ہے۔ اس ڈاکٹر نے مجھے بالز سے بھرا ایک جار لیا۔
نقصان
ایک سال کے لیے میں نے اچھا محسوس کیا۔ لیکن 2012 میں، جب مجھے حیض آیا، تو یہ علامات دوبارہ ظاہر ہوئیں۔ میری پیٹھ اتنی سوجی ہوئی نہیں تھی، لیکن میرے کولہے بلاکس کی طرح سخت تھے۔
ڈاکٹر نے مجھے ایم آر آئی کے لیے بھیجا اور مجھے بتایا کہ ابھی بھی تقریبا 15 فیصد بائیو پولیمر باقی ہیں۔
انھوں نے مجھے دوسرا لیپوسکشن دیا، جس کے لیے میں نے ادائیگی کی، اور میں نے تین مہینے تک گرڈل پہنا۔ کچھ ہی عرصے بعد، میں دوبارہ حاملہ ہو گئی، جب میں 17 سال کی تھی تو میری پہلی بیٹی تھی اور مجھے بانجھ پن کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
لیکن اس بار، 32سال کی عمر میں، جنین برقرار نہیں رہا۔ ڈاکٹر نے مجھے ہاشیموٹو کے تھائیرائیڈائٹس (مدافعتی نظام تھائیرائیڈ پر حملہ کرتا ہے) کی تشخیص کی اور کہا کہ یہ نقصان میرے تھائیرائیڈ کی بے قاعدہ سرگرمی کی وجہ سے ہوا تھا ، جو شاید بائیو پولیمر کی پیداوار ہے۔
انھیں واضح نہیں تھا کہ آیا یہ میرے تھائی رائیڈ کی وجہ سے تھا کہ میں نے بائیوپولیمر کو مسترد کرنا شروع کیا یا کیا میرا مدافعتی نظام بائیوپولیمرز کی وجہ سے اتنا قابو سے باہر تھا کہ اس نے میرے تھائیرائیڈ کو نقصان پہنچایا۔
وہ اس چیز سے حیران تھے کہ اسے چھاتی کے مصنوعی اعضا کے ساتھ کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ میرے جسم نے چھاتی کے مصنوعی اعضا کو مسترد نہیں کیا تھا، اس نے جن چیزوں کو مسترد کیا وہ بائیو پولیمر تھے۔ میں نے امپلانٹس کے لیے جو کچھ بھی برداشت کیا تھا وہ حیران کن تھا۔
پھر میں دوبارہ حاملہ ہو گئی اور جولائی 2014 میں میں نے اپنے بیٹے لیو کو بغیر کسی پریشانی کے جنم دیا۔
درد واپس آ گیا
دوسرے آپریشن کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ مجھے دس سال تک کوئی درد نہیں تھا، پچھلے سال اکتوبر تک جب دوبارہ سے سوجن ہو گئی۔
اس بار یہ صرف کولہے اور پیٹھ ہی نہیں بلکہ چہرے اور ہاتھ بھی تھے۔ پہلی بار مجھے اپنے جوڑوں میں درد محسوس ہوا۔ مجھے بخار کا احساس ہوا اور میرے جسم میں درد ہونے لگا۔ مجھے لگا جیسے میرا سر پھٹنے والا ہے۔ میں ہسپتال گئی اور جب میں ایمرجنسی روم میں انتظار کر رہی تھی تو مجھے کپکپی لگ گئی اور میں بے ہوش ہوگئی۔
میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ یہ بائیو پولیمر کا رد عمل ہے؟ اور انھوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتیں کہ میں کس بارے میں بات کر رہی ہوں۔
انھوں نے الیکٹرو کارڈیوگرام کیا اور یہ ٹھیک نکلا۔ ڈاکٹر نے کووڈ ٹیسٹ اور فلو ٹیسٹ کروائے دونوں منفی آئے۔
میں کہتی رہی کہ یہ بائیوپولیمر ہے، لیکن انھوں نے مجھے تین دن تک ہسپتال میں رکھا تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ آیا مجھے انفیکشن ہے، حالانکہ میرے لیبارٹری ٹیسٹ میں کوئی اشارہ نہیں تھا کہ مجھے انفیکشن ہوسکتا ہے۔
جب میں نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ میرے کولہوں میں امپلانٹس ہیں اور میں چاہتی ہوں وہ اسے یہاں سے نکال دیں، یہی وہ چیز ہے جو مجھے متاثر کر رہی ہے۔
لیکن انھوں نے کہا کہ وہ میرا آپریشن نہیں کر سکتے، مجھے ایک سرجن کے ساتھ نجی مشاورت پر جانا پڑے گا۔ ہسپتال میں ایمرجنسی کی وجہ سے اور انشورنس کے باعث، وہ ایسا نہیں کر سکے کیونکہ وہ اسے کاسمیٹک سرجری سمجھتے تھے، جب تک کہ میرے کولہوں سے رساؤ نہ ہو۔ اس صورت میں، وہ مجھ پر آپریشن کر سکتے ہیں. انھوں نے مجھے دس دن، ہر آٹھ گھنٹے بعد اینٹی بائیوٹکس دیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ میری حالت بہتر ہونے لگی۔
ڈپریشن
میں پرائمری ڈاکٹر کے پاس یہ پوچھنے گئی کہ کیا ہو سکتا ہے اور ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ دو آپشنز ہیں: یا تو بائیو پولیمر کی باقیات جو پیچھے رہ گئی تھیں یا میری چھاتی میں مصنوعی اعضا مجھے متاثر کر رہے تھے۔
انھوں نے یہ بھی سفارش کی کہ میں اپنی چھاتی کے مصنوعی اعضا کو ہٹا دوں۔
میں پہلے ہی ڈیڑھ سال سے میامی میں تھی اور بہت بے چینی محسوس کر رہا تھی۔ میں اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے وینزویلا واپس جانا چاہتی تھی۔ جب مجھے ہسپتال میں داخل کیا گیا تو میری ماں اور میرے بھائیوں کا ساتھ نہ ہونے نے مجھے بہت متاثر کیا کیونکہ ہم بہت قریب ہیں۔
ڈاکٹر نے مجھے اینٹی ڈپریسنٹس تجویز کیے۔ انھوں نے کہا کہ میرا جسم ڈپریشن کی وجہ سے اس طرح رد عمل ظاہر کر رہا تھا۔
انھوں نے کہا ’یہ چھوٹی سی گولی لے لو، یہ آپ کو آرام دے گی اور آپ بہتر محسوس کریں گی۔‘
میں نے اپنے ماہر نفسیات سے مشورہ کیا اور اس نے مجھے متنبہ کیا کہ وہ گولیاں مجھے بیزار کر سکتی ہیں۔ ’آپ لیو کے ساتھ اپنا رابط کھو دیں گی۔ انتخاب آپ کا ہے۔‘
لہٰذا میں نے اینٹی ڈپریشن گولیاں نہ لینے کا فیصلہ کیا اور جو بائیو پولیمر نکالنے کے لیے میں نے ماہر سرجن کی تلاش کی۔
مجھے ایک کولمبیا میں مل گئے۔ میری امیگریشن کی حیثیت کی وجہ سے، میں اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ نہیں چھوڑ سکتی تھی، لیکن میں طبی بنیادوں پر اجازت نامے کی درخواست کرنے کے لیے تیار تھی تاکہ وہ مجھے یہ دیکھنے کے لیے سفر کرنے دیں کہ آیا میری سرجری ہوسکتی ہے یا نہیں۔
درد اتنا شدید تھا کہ میں اپنے امیگریشن کے عمل کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار تھی تاکہ کوئی مجھے اس سے نجات دلا دے۔ لیکن میری طبیعت بہتر ہونے لگی تو میں نے اس کے بارے میں تھوڑا اور سوچنے کا فیصلہ کیا۔
سرجری اور زخم
میں نے ایک دوست کے ساتھ اوہائیو سے زمینی سفر کیا۔ میں کئی گھنٹوں تک بیٹھی رہی اور میرے کولہے دوبارہ سوج گئے، وہ بلاکس کی طرح سرخ اور سخت ہو گئے۔
ایک بار پھر مجھے بخار اور تھکاوٹ کا احساس ہوا، جیسے مجھے کووڈ ہو۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں بستر سے باہر نہیں نکل سکتی۔
جب میں اوہائیو میں تھی، ہنری نے ہر روز وینیز ویلا سے لیو کو فون کیا اور میں فون کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی، میں اس کی آواز سننا نہیں چاہتی تھی۔ جب تک میں نے اسے نہیں بتایا کہ میں فون اٹھانا نہیں چاہتی کیونکہ میں اس صورتحال سے گزر رہا تھا تو یہ اس کی غلطی تھی۔
اور اس نے مجھے جواب دیا: ’میرے خیال میں یہ ہم دونوں کے فیصلے تھے۔ میں نے لیو کے والد کی وجہ سے بہت سی چیزین مانیں۔ میں نے بہت کچھ سیکھا، لیکن اس راہ میں پر میں نے اپنی شناخت کھو دی۔ ‘
میں ہوائی جہاز کے ذریعے میامی واپس آئی کیونکہ میں اتنے گھنٹوں تک نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ واپس آنے سے پہلے، ایک دوست نے مجھے ڈاکٹر نائر نیرانن کا رابطہ کیا اور مجھے بتایا کہ وہ بائیو پولیمر کے ماہر ہیں۔ اتفاق سے وہ میامی میں رہتے تھے اور وہ اسی کی تلاش کر رہے تھے۔
میں ڈاکٹر کے پاس گئی اور انھوں نے مجھے کچھ کرانے ٹیسٹ کے لیے بھیجا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ میں کیسا ہوں۔ سرجری سے پہلے میں اپنے بیٹے لیو کے لیے اس آپریشن روم میں مرنے سے خوفزدہ تھی۔ مجھے ایک بڑا قرض لینا پڑا کیونکہ انشورنس میں کسی بھی طریقہ کار کا احاطہ نہیں کیا گیا تھا۔
آخر کار ڈاکٹر نے میری اوپن سرجری کی، جلد کاٹ دی اور سب کچھ باہر نکال لیا۔ اسے چھوٹے چھولے گولے ملے جو پٹھوں میں پھنسے ہوئے تھے۔
بحالی بہت طویل اور تکلیف دہ تھی۔ پہلے تین ہفتوں تک وہ بیٹھ نہیں سکتی تھیں، انھیں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا پڑتا تھا۔
’ مجھے سونے میں مشکل ہو رہی تھی۔ میں اپنے پیٹ کے بل تکیے پر سونے کی کوشش کر رہی تھی اور چونکہ میرے جسم میں نالیاں لگی تھیں ، لہذا میں اپنے پہلو پر لیٹ نہیں سکتی تھی۔
میرے بیٹے لیو نے میرے علاج میں میری مدد کی اور ہر چیز میں میری مدد کی۔ دو مہینے تک میں گاڑی نہیں چلا سکتی تھی اور اسے کہیں بھی نہیں لے جا سکتی تھی۔
میں گھر سے کام کرتی تھی، جتنا ممکن ہو سکے کمپیوٹر کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ میرے جسم پر بڑے زخموں کے نشان ہیں لیکن ان کے ہونے کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ یہ نشان مجھے یاد دلاتے ہیں کہ میں نے کیا برداشت کیا ہے۔
اب میں بائیو پولیمر کے نتائج کے بارے میں شعور اجاگر کرنا چاہتی ہوں۔ ان لوگوں کے لیے جو انھیں لگوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
میں کہتی ہوں: ایسا نہ کریں، اپنے خود کو اس طرح نقصان نہ پہنچائیں!
اور ان لوگوں کے لیے جو درد کے ساتھ جی رہے ہیں، میں آپ کو یاد دلاتی ہوں کہ متبادل موجود ہیں۔ ہمت نہ ہاریں کیونکہ امید ہے۔
بائیو پولیمرز کیا ہیں اور وہ کیا علامات پیدا کرسکتے ہیں؟
یادیرا کے امپلانٹس کو ہٹانے والے پلاسٹک سرجن نائر نیرانن نے یقین دلایا کہ ’بائیو پولیمر کسی بھی چیز سے بنائے جا سکتے ہیں۔‘
زیادہ تر خواتین سلیکون کا استعمال کرتی ہیں لیکن وہ ہڈی سیمنٹ سے بھی بنائے جا سکتے ہیں، جیسا کہ سر یا کھوپڑی کی ہڈیوں کی تعمیر نو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
نیرانن نے حال ہی میں میامی میں اپنے دفتر میں پیرو سے تعلق رکھنے والی ایک مریضہ کا علاج کیا تھا جس کے کولہوں میں موٹر آئل کا انجکشن لگایا گیا تھا جیسے وہ امپلانٹس ہوں۔
سرجن نے علامات کی ایک فہرست درج کی جو بائیو پولیمرز کے منفی رد عمل کو ظاہر کرتی ہیں۔
- ٹانگوں میں درد یا چلنے میں دشواری
- بے حسی یا سن ہو جانا
- پٹھوں یا جوڑوں میں درد
- دیر تک بیٹھنے یا لیٹنے میں دشواری
- ذہنی الجھن
- جلد کی رنگت اور ساخت میں تبدیلی ، جلد کا ’مگرمچھ کی جلد‘ جیسا ہو جانا
سرجن نے وضاحت کی کہ یادیرا کو آٹوامیون سنڈروم یا ایشیا سنڈروم کا سامنا کرنا پڑا جو جسم پر حملہ کرنے والے مختلف ایجنٹس کے خلاف مدافعتی نظام کا ایک جارحانہ ردعمل ہے۔
’میرا نظریہ یہ ہے کہ جسم مدافعتی نظام کو زیادہ فعال موڈ میں جانے کے لیے کہتا ہے اور امپلانٹس کی جگہ کے علاوہ پورے جسم میں ان مسائل کا سبب بنتا ہے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ یہ ایک ’نظریہ‘ ہے کیونکہ کوئی سائنسی مطالعہ نہیں ہوا جس میں بڑی تعداد میں کیسز میں بائیو پولیمر کے اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہو۔
یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ سلیکون جسم کو کس طرح متاثر کرتا ہے تاہم، انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بائیو پولیمرز کی وجہ سے یادیرا کو بچے کی موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یادیرا کے کیس میں وہ ایک خوبصورت خاتون ہے جسے بہتر نظر آنے کے لیے کاسمیٹک سرجری کی ضرورت نہیں تھی اور یہ معاملہ لاطینی خواتین بالخصوص وینزویلا کی خواتین میں بار بار دہرایا جاتا ہے۔‘
نیرانن نے امریکن سوسائٹی آف پلاسٹک سرجنز کو ایک گروپ بنانے کی تجویز پیش کی جو سلیکون امپلانٹس کو ہٹانے اور دوبارہ تعمیر کرنے میں مہارت رکھتا ہو۔
’مجھے امید ہے کہ جب اس کی منظوری مل جائے گی، تو ہم لاطینی امریکہ سے سرجنوں کو امریکہ لانے اور بائیو پولیمرز کی تحقیق کے لیے اتحاد بنانے کے لیے فنڈز حاصل کر سکتے ہیں۔‘