دنیابھرسے

جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روسی لڑاکا طیارہ مگ-21 چرایا

Share

جب میر امیت 25 مارچ سنہ 1963 کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ مقرر ہوئے تو انھوں نے کئی اسرائیلی دفاعی اہلکاروں سے ملاقات کی اور پوچھا کہ اسرائیل کی سلامتی میں موساد کا سب سے بڑا تعاون کیا ہو سکتا ہے؟

سب نے کہا کہ اگر کسی طرح وہ سوویت طیارہ مگ 21 کو اسرائیل لا سکیں تو بہت اچھا ہو گا۔ اصل کہانی اس وقت شروع ہوئی جب ایزر ویئزمین اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ بنے۔

وہ ہر دو تین ہفتے بعد میر آمیت کے ساتھ ناشتہ کرتے رہے۔ ایسی ہی ایک ملاقات کے دوران میر نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ وہ اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر، ویئزمین نے کہا: ‘مجھے مگ 21 چاہیے۔’

میر امیت اپنی کتاب ’ہیڈ ٹو ہیڈ‘ میں لکھتے ہیں: ’میں نے ویئزمین سے کہا، کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ پوری مغربی دنیا میں ایک بھی مگ طیارہ نہیں ہے، لیکن ویئزمین اپنی بات پر قائم رہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں کسی بھی صورت مگ 21 کی ضرورت ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے آپ کو اپنی پوری طاقت لگانی چاہیے۔‘

مگ 21 کی سکیورٹی کی ذمہ داری

موساد کے سابق سربراہ میر امیت
،تصویر کا کیپشنموساد کے سابق سربراہ میر امیت

سوویت یونین نے سنہ 1961 میں عرب ممالک کو مگ 21 کی فراہمی شروع کی تھی۔

ڈورون گیلر اپنے مضمون ’سٹیلنگ اے سوویت مگ آپریشن ڈائمنڈ‘ میں لکھتے ہیں: ’1963 تک مگ 21 مصر، شام اور عراق کی فضائی افواج کا ایک اہم حصہ بن چکا تھا۔ روسی اس طیارے کے لیے اعلیٰ ترین سطح کی رازداری برقرار رکھے ہوئے تھے۔‘

’انھوں نے عرب ممالک کو طیارے دینے پر جو سب سے بڑی شرط عائد کر رکھی تھی وہ یہ تھی کہ اگرچہ طیارے ان کی سرزمین پر رہیں گے، لیکن طیاروں کی حفاظت، تربیت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری سوویت حکام پر ہوگی۔‘

مغرب میں کسی کو مگ 21 کی صلاحیتوں کا اندازہ نہیں تھا۔

گیلر لکھتے ہیں: ورڈی نے عرب ممالک میں لیڈز کی تلاش شروع کی۔ کئی ہفتوں بعد انھیں ایران میں اسرائیلی ملٹری اتاشی یعقوب نمرادی کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوئی کہ وہ ایک عراقی یہودی یوسف شمیش کو جانتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے عراقی پائلٹ کو جانتے ہیں جو مگ-21 طیارہ اسرائیل لا سکتا ہے۔

شمیش غیر شادی شدہ تھا اور خوشباش زندگی گزارنے کا عادی تھا۔ اس میں لوگوں سے دوستی کرنے اور ان کا مکمل اعتماد جیتنے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔

شمیش کی بغداد میں ایک مسیحی گرل فرینڈ تھی جس کی بہن کمیلا نے عراقی فضائیہ کے ایک عیسائی پائلٹ کیپٹن منیر ردفا سے شادی کی تھی۔

شمیش کو معلوم تھا کہ منیر مطمئن نہیں تھے کیونکہ ایک بہترین پائلٹ ہونے کے باوجود انھیں ترقی نہیں دی گئی تھی۔ ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ہی ملک میں کردوں کی آبادیوں پر بمباری کریں۔

جب انھوں نے اپنے افسران سے اس کی شکایت کی تو انھیں بتایا گیا کہ چونکہ وہ مسیحی ہیں اس لیے اسے ترقی نہیں دی جا سکتی اور وہ کبھی سکواڈرن لیڈر نہیں بن سکتے۔

ریدفا بہت حوصلہ مند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اب عراق میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ نوجوان پائلٹ ریدفا سے تقریباً ایک سال تک بات کرنے کے بعد، شمیش انھیں ایتھنز جانے کے لیے راضی کرنے میں کامیاب رہے۔

شمیش نے عراقی حکام کو بتایا کہ ریدفا کی بیوی کو شدید بیماری ہے اور وہ مغربی ڈاکٹروں کے علاج سے ہی بچ سکتی ہے۔ انھیں فوری طور پر یونان لے جایا جائے۔

ان کے شوہر کو بھی ان کے ساتھ وہاں جانے کی اجازت ہونی چاہیے، کیونکہ وہ خاندان میں واحد فرد ہے جو انگریزی بول سکتا ہے۔

عراقی حکام نے ان کی درخواست پر اتفاق کیا اور منیر ردفا کو اپنی اہلیہ کے ساتھ ایتھنز جانے کی اجازت دے دی گئی۔

ایک ملین ڈالر کی پیشکش

عراقی پائلٹ کیپٹن منیر ردفا
،تصویر کا کیپشنعراقی پائلٹ کیپٹن منیر ردفا

ایتھنز میں موساد نے اسرائیلی فضائیہ کے ایک اور پائلٹ کرنل زیف لیرون کو ریدفا سے ملنے کے لیے بھیجا تھا۔

موساد نے ریدفا کا کوڈ نام یاہولوم رکھا جس کا مطلب ہیرا ہے۔ اس پورے مشن کو ’آپریشن ڈائمنڈ‘ کا نام دیا گیا۔

ایک دن لیرون نے ریدفا سے پوچھا: ’اگر آپ اپنے طیارے کے ساتھ عراق سے باہر جائیں تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟‘

ریدفا کا جواب تھا: ’وہ مجھے مار ڈالیں گے اور کوئی بھی ملک مجھے پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔‘

اس پر لیرون نے کہا: ’ایک ملک ہے جو آپ کا کھلے عام استقبال کرے گا اور اس کا نام اسرائیل ہے۔‘

ایک دن سوچنے کے بعد ریدفا نے مگ 21 طیارے کے ساتھ عراق سے باہر آنے پر رضامندی ظاہر کی۔

بعد میں لیرون نے ایک انٹرویو میں ریدفا کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا۔

عربی نغمہ کوڈ ورڈ

یونان سے دونوں روم چلے گئے۔ شمیش اور ان کی خاتون دوست بھی وہاں پہنچ گئے۔ کچھ دنوں بعد اسرائیلی فضائیہ کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے ریسرچ آفیسر یہودا پورات بھی وہاں پہنچ گئے۔

یہ بات روم میں ہی طے کی گئی تھی کہ اسرائیلی انٹیلی جنس اور ریدفا کے درمیان رابطہ کیسے قائم کیا جائے گا۔

مائیکل بار زوہر اور نسیم مشعل اپنی کتاب ’دی گریٹسٹ مشن آف اسرائیلی سیکرٹ سروس موساد‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ طے تھا کہ جب ریدفا اسرائیل کے ریڈیو سٹیشن کول سے مشہور عربی گانا ’مرحبتین مرحبتین‘ سنے گے تو یہ ان کے لیے ایک اشارہ ہوگا کہ عراق چھوڑ دو۔ لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ روم میں موساد کا سربراہ میر آمیت خود ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘

ریدفا کو بریفنگ کے لیے اسرائیل بلایا گیا، جہاں وہ صرف 24 گھنٹے رہے۔ اس دوران انھیں پورا منصوبہ تفصیل سے بتایا گیا۔ موساد نے اسے خفیہ کوڈ دیا۔

اسرائیلی جاسوس انھیں تل ابیب کی مرکزی سڑک ایلنبی سٹریٹ لے گئے۔ شام کو انھیں طافہ کے ایک بڑے ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھلایا گیا۔

وہاں سے ریدفا ایتھنز گئے اور پھر جہاز بدل کر بغداد چلا گئے اور پلان کے آخری مرحلے کی تیاریاں شروع کر دیں۔

اب اگلا مسئلہ یہ تھا کہ پائلٹ کے خاندان کو عراق سے باہر کیسے بھیجا جائے۔ انھیں پہلے انگلینڈ اور پھر امریکہ بھیجا جانا تھا۔

ریدفا کی کئی بہنیں اور بہنوئی بھی تھے اور ان سب کو عراق سے نکالنا ضروری تھا۔ اور یہ طے پایا کہ ان کے خاندان کو اسرائیل لے جایا جائے گا۔

مائیکل بار زوہر اور نسیم مشعل لکھتے ہیں: ’ریدفا کی بیوی کمیلہ کو اس پلان کا کوئی اندازہ نہیں تھا اور ریدفا اسے سچ بتانے سے ڈرتے تھے۔‘

وہ لکھتے ہیں: ’ریدفا نے انھیں صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ کافی دنوں کے لیے یورپ جا رہے ہیںے۔ وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ پہلے ایمسٹرڈیم گئیں۔‘

’موساد کے لوگ جو وہاں ان کا انتظار کر رہے تھے وہ انھیں پیرس لے گئے، جہاں زیف لیرون نے ان سے ملاقات کی۔ ریدفا کی بیوی کو ابھی تک یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔‘

طیارہ

ریدفا کی بیوی رونے لگی

لیرون نے بعد میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ان لوگوں کو ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رکھا گیا تھا، جہاں صرف ایک ڈبل بیڈ تھا۔ ہم اس بیڈ پر بیٹھ گئے۔‘

’اسرائیل جانے سے ایک رات پہلے، میں نے کمیلا کو بتایا کہ میں ایک اسرائیلی افسر ہوں اور اگلے دن ان کے شوہر بھی وہاں پہنچ جائیں گے۔

’اس کا بہت ڈرامائی ردعمل تھا۔ وہ ساری رات روتی اور چیختی رہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کا شوہر غدار ہے اور جب اس کے بھائیوں کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے کیا کیا ہے تو اسے مار ڈالیں گے۔‘

لیرون لکھتے ہیں: ’انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ سوجی ہوئی آنکھوں اور ایک بیمار بچے کے ساتھ، ہم ہوائی جہاز میں سوار ہو کر اسرائیل پہنچے۔‘

17 جولائی سنہ 1966 کو یورپ کے ایک موساد سٹیشن کو ریدفا کا ایک کوڈڈ خط موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ اس نے عراق سے پرواز کرنے کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔

14 اگست کو ریدفا نے مگ 21 طیارے پر اڑان بھری لیکن طیارے کے الیکٹریکل سسٹم میں خرابی کے باعث انھیں طیارے کو واپس لے کر راشد ایئر بیس پر لینڈ کرنا پڑا۔

بعد میں ریدفا کو معلوم ہوا کہ جہاز میں خرابی سنگین نہیں تھی۔ دراصل جلے ہوئے فیوز کی وجہ سے ان کا کاک پٹ دھویں سے بھر گیا تھا لیکن وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے جہاز کو راشد ایئربیس پر اتارا۔

دو دن بعد ریدفا نے دوبارہ اسی مگ 21 میں پرواز کی۔ وہ پہلے سے طے شدہ راستے پر پرواز کرتے رہے۔

مائیکل بار زوہر اور نسیم مشعل لکھتے ہیں: ’پہلے ریدفا نے بغداد کا رخ کیا اور پھر اپنے طیارے کا رخ اسرائیل کی طرف موڑ دیا۔ عراقی کنٹرول روم نے اس کا نوٹس لیا اور ریدفا کو واپس جانے کے لیے بار بار پیغامات بھیجے۔‘

جب منیر پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا تو انھوں نے اس کے طیارے کو مار گرانے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد ریدفا نے اپنا ریڈیو بند کر دیا۔

دو اسرائیلی پائلٹوں کو یہ مشن سونپا گیا کہ وہ عراقی پائلٹ کو اسرائیلی سرحد میں داخل ہوتے ہی اسرائیلی فضائی اڈے تک لے جائیں۔

طیارہ

رین پیکر جنھیں اسرائیل کے بہترین پائلٹوں میں شمار کیا جاتا ہے انھیں ریدفا کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی۔

رین پیکر نے ایئر فورس کنٹرول کو پیغام بھیجا: ’ہمارے مہمان کی رفتار کم ہو گئی ہے اور وہ مجھے انگوٹھے کا اشارہ دے رہا ہے کہ وہ نیچے اترنا چاہتا ہے۔ اس نے اپنے پروں کو بھی حرکت دی ہے، جو اس کے لیے ایک بین الاقوامی ضابطہ ہے، اس کے ارادے اچھے ہیں۔‘

بغداد سے ٹیک آف کرنے کے ٹھیک 65 منٹ بعد ریدفا کا طیارہ 8 بجے اسرائیل کے حزور ایئربیس پر اترا۔

’آپریشن ڈائمنڈ‘ کے آغاز کے ایک سال کے اندر اور سنہ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے آغاز سے چھ ماہ قبل، اسرائیلی فضائیہ کے پاس اس دور میں دنیا کا جدید ترین طیارہ مگ 21 تھا۔

موساد کی ٹیم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ لینڈنگ کے بعد ایک پریشان اور ہکا بکا ریدفا کو حزور بیس کمانڈر کے گھر لے جایا گیا۔

وہاں کئی سینیئر اسرائیلی افسران نے انھیں پارٹی میں کھینچ لیا یہ سمجھے بغیر کہ اس وقت ان پر کیا گزر رہی تھی۔ ریدفا پارٹی کے ایک کونے میں بیٹھے رہے اور ایک لفظ بھی نہ بولے۔

منیر ردفا کا پریس سے خطاب

کچھ دیر آرام کرنے اور پر سکون ہونے کے بعد ان کی بیوی اور بچے اسرائیل کے لیے جہاز میں سوار ہو گئے۔

منیر ردفا کو پریس کانفرنس سے خطاب کے لیے لے جایا گیا۔ وہاں انھوں نے بتایا کہ کس طرح عراق میں عیسائیوں پر تشدد کیا جا رہا ہے اور کس طرح ان کے اپنے لوگ کردوں پر بم گرا رہے ہیں۔

پریس کانفرنس کے بعد منیر کو تل ابیب کے شمال میں سمندر کے کنارے واقع شہر ہرزلیہ میں اپنے اہل خانہ سے ملنے لے جایا گیا۔

میر آمیت نے بعد میں لکھا کہ میں نے اسے پرسکون کرنے، اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کے کیے کی تعریف کرنے کی پوری کوشش کی۔

میں نے اسے یقین دلایا کہ ہم اس کے اور اس کے خاندان کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، لیکن منیر کے گھر والے، خاص طور پر اس کی بیوی، تعاون کرنے کو تیار نہیں تھی۔

منیر کے مگ 21 کے ساتھ اترنے کے چند دن بعد اس کی بیوی کے بھائی جو عراقی فضائیہ میں افسر تھا وہ بھی اسرائیل پہنچ گیا۔

شمیش اور ان کی گرل فرینڈ کیملی بھی ان کے ساتھ آئے تھے۔ انھیں بتایا گیا کہ انھیں یورپ لے جایا جا رہا ہے جہاں اس کی بہن بہت بیمار ہے۔ لیکن جب انھیں اسرائیل میں اپنے بہنوئی منیر سے ملاقات کرائی گئی تو وہ اپنا آپا کھو بیٹھے۔

اسے غدار کہہ کر اس پر کود پڑے اور اسے مارنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی بہن پر بھی اس سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کی بہن کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ ان کی بہن نے بہت وضاحتیں کیں لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ عراق واپس چلے گئے۔

طیارہ

اسرائیلی پائلٹ نے مگ 21 اڑایا

سب سے پہلے اسرائیل کے سب سے مشہور فضائیہ کے پائلٹ ڈینی شاپیرا نے مگ-21 اڑایا تھا۔

طیارے کے اترنے کے ایک دن بعد ایئر فورس چیف نے انھیں فون کیا اور کہا کہ وہ مگ 21 اڑانے والے پہلے مغربی پائلٹ ہوں گے۔ آپ کو اس ہوائی جہاز کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا ہوگا اور اس کے فوائد اور نقصانات معلوم کرنا ہوں گے۔

ڈینی شاپیرا نے بعد میں یاد کرتے ہوئے کہا: ’ہم ہاتزور میں ملے تھے جہاں مگ 21 طیارہ کھڑا تھا۔ ریدفا نے مجھے تمام بٹن بتائے تھے۔ ہم نے طیارے کے بارے میں تمام ہدایات پڑھیں، جو عربی اور روسی زبان میں لکھی ہوئی تھیں۔‘

’ایک گھنٹے کے بعد میں نے اسے بتایا کہ میں جہاز اڑانے جا رہا ہوں۔ وہ حیران ہوا۔ اس نے کہا، تم نے فلائنگ کورس مکمل نہیں کیا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ایک ٹیسٹ پائلٹ ہوں۔ اس نے کہا کہ وہ ساتھ رہے گا، میں نے کہا ٹھیک ہے۔‘

طیارہ

مگ-21 میراج 3 سے ایک ٹن ہلکا تھا

مائیکل بار زوہر اور نسیم مشعل لکھتے ہیں: ’اسرائیلی فضائیہ کے تمام سینیئر افسران مگ 21 کی پہلی پرواز دیکھنے کے لیے ہاتزور پہنچے۔‘

’ایئر فورس کے سابق سربراہ ایزر ویئزمین بھی وہاں موجود تھے۔ انھوں نے شاپیرا کے کندھے پر تھپکی دی اور کہا کہ وہ کوئی کرتب نہ دکھائیں اور جہاز کو بحفاظت لینڈ کرائیں۔ ریدفا بھی وہاں موجود تھے۔‘

فلائٹ کے بعد جیسے ہی شاپیرا اترے تو منیر ردفا دوڑتے ہوئے اس کی طرف آیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

انھوں نے کہا کہ آپ جیسے پائلٹ کے ساتھ عرب آپ کو کبھی شکست نہیں دے سکیں گے۔ کچھ دنوں کی اڑان بھرنے کے بعد فضائیہ کے ماہرین سمجھ گئے کہ مگ 21 طیارے کو مغرب میں اتنی عزت کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے۔

یہ اونچائی پر بہت تیزی سے اڑ سکتا ہے اور میراج 3 جنگی طیارے سے ایک ٹن کم وزنی ہے۔

اسرائیل کو جنگ سے فائدہ ہوا

امریکیوں نے ماہرین کی ایک ٹیم اسرائیل بھیجی کہ وہ اس طیارے کا مطالعہ کریں اور اسے اڑائیں، لیکن اسرائیلیوں نے انھیں طیارے کے قریب نہیں آنے دیا۔

ان کی شرط یہ تھی کہ امریکہ پہلے سوویت طیارہ شکن میزائل سیم-2 کی ٹیکنالوجی ساتھ شیئر کرے۔ بعد میں امریکہ نے اس پر رضامندی ظاہر کی۔

امریکی پائلٹ اسرائیل پہنچ گئے۔ انھوں نے مگ 21 کا معائنہ کیا اور اسے اڑایا بھی۔

مگ 21 کا راز جان کر اسرائیلی فضائیہ کو بہت فائدہ ہوا۔ اس نے عرب ممالک کے ساتھ چھ روزہ جنگ کی تیاری میں ان کی مدد کی۔

اس مگ-21 کے اسرار نے اسرائیل کی فتح میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور چند ہی گھنٹوں میں اسرائیل نے پوری عرب فضائیہ کو تباہ کر دیا۔

طیارہ

ریدفا نے اسرائیل چھوڑ دیا

منیر ردفا اور ان کے خاندان کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

مائیکل بار زوہر اور نسیم مشعل لکھتے ہیں: ’منیر کو اسرائیل میں ایک سخت، تنہا اور ناخوشگوار زندگی گزارنی پڑی۔ اپنے ملک سے باہر نئی زندگی گزارنا ان کے لیے ایک ناممکن کام بن گیا۔ منیر اور ان کا خاندان ڈپریشن کا شکار ہو گیا اور آخر کار ان کا خاندان ٹوٹ گیا۔‘

وہ لکھتے ہیں: ’تین سال تک منیر نے اسرائیل کو اپنا گھر بنانے کی کوشش کی اور اسرائیلی تیل کمپنیوں کے ڈکوٹا طیارے بھی اڑائے، لیکن وہاں پر ان کا دل نہیں لگا۔‘

اسرائیل میں اسے ایک ایرانی پناہ گزین کی شناخت دی گئی لیکن وہ خود کو اسرائیل میں زندگی کے مطابق ڈھال نہیں سکے۔ کچھ دنوں بعد انھوں نے اسرائیل چھوڑ دیا اور جعلی شناخت کے ساتھ ایک مغربی ملک میں سکونت اختیار کر لی۔

وہاں بھی سکیورٹی اہلکاروں کے گھیرے میں رہنے کے باوجود وہ خود کو تنہا محسوس کرتے رہے۔ وہ ہمیشہ ڈرتے تھے کہ ایک دن عراق کا بدنام زمانہ ’مخبر‘ انھیں اپنا نشانہ بنا لے گا۔

اسرائیلیوں نے منیر کے لیے آنسو بہائے

مگ 21 کو اسرائیل کے لیے اڑانے کے 22 سال بعد منیر ردفا اگست 1988 میں اپنے گھر پر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

موساد نے منیر ردفا کے اعزاز میں ایک یادگاری تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ ایک ناقابل فراموش منظر تھا۔

اسرائیل کی خفیہ ایجنسی عراقی پائلٹ کی موت پر سوگ منا رہی تھی۔

بعد میں، ریدفا کی زندگی پر دو بہت زیر بحث فلمیں بنائی گئیں، ’سٹیل دی سکائی‘ اور ’گیٹ می مگ 21‘۔

ریڈفا کی طرف سے لائے گئے مگ 21 کو اسرائیل کے ہتازارین ایئر فورس میوزیم میں لے جایا گیا، جہاں اسے آج تک رکھا گیا ہے۔