Site icon DUNYA PAKISTAN

مستقبل کی پیشن گوئی کرنے والے 10 سائنس فکشن ناول

Share

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں ٹیکنالوجی انتہائی تیزی رفتاری کے ساتھ ترقی کر رہی ہے کیونکہ اب ہمیں ایسے سامان تک رسائی حاصل ہے جس کا آج سے 30 سال قبل صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا تھا۔

آئیے آپ کو کچھ ایسے ناولوں کے بارے میں بتاتے ہیں جن میں ناول نگاروں نے ڈرا دینے والی حد تک ایسی ٹیکنالوجی کے بارے میں پیش گوئی کی تھی جو ہم آج استعمال کر رہے ہیں۔

لونر لینڈنگ

مانا کہ یہ آرٹیکل ٹیکنالوجی سے متعلق ہے لیکن لونر لینڈنگ اتنا عظیم کارنامہ ہے کہ ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔

1865 میں لکھی گئی اپنی کتاب ’فرام ارتھ ٹو دا مون‘ میں جولس ورن نے اپالو 11 لینڈنگ کے ان پہلوؤں کی پیش گوئی کی تھی جو 100 سال بعد ہوئے۔

فرانسیسی مصنف جولس ورن نے فلوریڈا سے ایلومینیم کیپسول میں خلابازوں کو لانچ کرنے کے بارے میں لکھا تھا۔ حتیٰ کہ ان کی پیشن گوئی میں اس چیز کا حساب کتاب بھی شامل ہے کہ خلابازوں کے جہاز کو زمین سے باہر نکالنے کے لیے کتنی طاقت کی ضرورت پڑے گی۔

بڑے پیمانے پر نگرانی کا سازو سامان

شاید آپ کو اسی کی توقع ہوگی۔

جارج اورویل نے سنہ 1949 میں لکھے گئے ناول ‘1984‘ میں آج کی جدید دنیا کے بہت سے پہلوؤں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

آج صرف لندن میں ہر 14 افراد کے لیے ایک سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہے۔ اس صورتحال کا موازنہ اورویل کی ڈیسٹوپین ریاست کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جس میں عوام کی ’بگ برادر‘ کے ذریعے نگرانی کی جاتی ہے۔

کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز

یہاں تک کہ آپ روزانہ کی بنیاد پر جو ادائیگیاں کرتے ہیں ان کی پیش گوئی بھی ایک صدی پہلے کر دی گئی تھی۔

ایڈورڈ بیلامی نے اپنے 1888 کے ناول لوکنگ بیکورڈ میں ’کریڈٹ کارڈ‘ کی اصطلاح دنیا کے سامنے پیش کی تھی۔ ان کے یوٹوپیئن مستقبل کے لوگوں کو کاغذی رقم کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ان سب کے پاس ایک ایسا کارڈ ہوتا جس کی مدد سے وہ ایک مرکزی بینک سے کریڈٹ خرچ کرسکیں۔

کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہے؟

وائرلیس ہیڈ فون اور ایئرفون

سنہ 1953 میں اپنے ناول فارن ہائیٹ 451 میں رے بریڈبیری نے ایک ایسی دنیا کے بارے میں لکھا جسے انھوں نے ’تھیمبل ریڈیوز‘ کہا تھا۔

انھیں ’چھوٹے سی شیلز‘ یعنی سیپیاں کے طور پر بھی بیان کیا گیا تھا جو ایسی پورٹیبل آڈیو ڈیوائسز تھیں جو نصف صدی بعد بنائے جانے والے وائرلیس ہیڈ فون سے زیادہ مختلف نہیں تھیں۔

انٹرنیٹ

آج ہر گھر میں موجود 4 جی نیٹ ورک اور براڈ بینڈ کی دنیا میں، انٹرنیٹ کے بغیر دنیا کا تصور کرنا مشکل ہے۔

سنہ1984 میں شائع ہونے والے ولیم گبسن کے ناول ’نیورومینسر‘ میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ورلڈ وائڈ ویب، ہیکنگ اور ورچوئل رئیلٹی کی بھی پیش گوئی کی گئی تھی۔

آج جو انٹرنیٹ ہم استعمال کر رہے ہیں اس کی پیشن گوئی بھی تقریبا ایک دہائی پہلے کر دی گئی تھی۔

شمسی توانائی

ہر چھت پر سولر پینل دیکھنے کے بعد کیا آپ کو حیرت ہوگی کہ ایک صدی پہلے شمسی توانائی کی پیش گوئی کر دی گئی تھی؟

اپنے 1911 کے ناول ’رالف 124 سی 41+‘ میں ہوگو گرنس بیک نے ایسی جگہوں پر اپنی مہم جوئی کے بارے میں لکھا تھا جہاں سولر پینلز نصب ہیں۔

یہ ناول شمسی توانائی سے چلنے والے پہلے کیلکولیٹرز کی ایجاد سے 60 سال پہلے لکھا گیا تھا۔

مکینیکل ہاتھ

1942 میں مصنف رابرٹ ہینلن نے والڈو ایف جونز نامی جسمانی طور پر معذور موجد کے بارے میں ایک مختصر کہانی لکھی۔

اس کہانی میں ، والڈو نے ’والڈو ایف جونز کا سنکرونئیس ریڈپلیکیٹنگ پینٹوگراف‘ تخلیق کیا اور رجسٹر کرایا۔ ایک مکینیکل ہاتھ جسے دور سے چلایا جا سکتا ہے۔

اس کہانی کے شروع میں جوہری صنعت میں استعمال ہونے والے ریموٹ مینوپلیٹر بازو کو ’والڈوس‘ کہا جاتا ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ورچوئل اسسٹنٹس اور ٹیبلیٹس

سنہ 1968 میں لکھے گئے ناول ’2001: اے سپیس اوڈیسی‘ (پہلے ٹیبلٹ کمپیوٹر کی ایجاد سے 30 سال قبل)، آرتھر سی کلارک نے ایک الیکٹرانک پیپر یا ’نیوز پیڈ‘ کے بارے میں لکھا جسے اس دنیا کے لوگ پڑھتے تھے۔

انھوں نے آواز سے چلنے والے سپر کمپیوٹر ایچ اے ایل 9000 کا تصور بھی پیش کیا جو آواز سے چلنے والے ان ورچوئل اسسٹنٹس سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو آج کل بہت سے گھروں اور کاروباری اداروں میں باقاعدہ استعمال ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے خطرات سے خبردار بھی کیا تھا۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے جو اب بھی سائنس فکشن میں باقاعدگی سے زیرِ بحث آتا ہے۔

سیٹلائٹ ٹی وی اور الیکٹرک کاریں

پہلی بار سنہ 1968 میں شائع ہونے والا جان برونر کا ناول ’سٹینڈ آن زانزیبار‘ سال 2010 کے متعلق ہے۔ یہ ناول مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیوں سے بھر پور ہے۔

حتیٰ کے اس میں امریکہ کے مقبول رہنما صدر ابوبامہ کے بارے میں پیشن گوئی بھی شامل ہے۔

اور یہ تو صرف آغاز ہے۔

برونر نے ایسی گاڑیوں کے بارے میں لکھا جو ریچارجایبل الیکٹرک ایندھن والے سیلوں سے چلتی ہوں۔

اس کے علاوہ انھوں نے ٹی وی نیوز چینلز کے بذریعہ سیٹلائٹ عالمی سطح پر چلائے جانے کے بارے میں بھی پیشن گوئی کی تھی۔

برقی اعضا

حتیٰ کہ طبی معجزات کے بارے میں بھی پیش گوئی کی گئی تھی۔

مارٹن کیڈین کے 1972 میں لکھے گئے ناول ’سائبرگ‘ کی کہانی ایک ایسے پائلٹ اسٹیو آسٹن کے بارے میں ہے جو ایک پرواز کے دوران گر کر شدید زخمی ہو جاتے ہیں اور ان کے پاس صرف ایک عضو اور ایک آنکھ بچتی ہے۔

ناول میں سائنسدانوں کا ایک گروپ آسٹن کو نئی ٹانگیں، ایک برقی بازو اور کیمرے کے ساتھ ایسی آنکھ بھی فراہم کرتے ہیں جسے ضرورت کے مطابق لگایا یا ہٹایا جا سکے۔ اس طرح آسٹن مشین اور انسان کا ایک مجموعہ ’سائبرگ‘ بن جاتے ہیں۔

یہ ناول پہلی بایونک آرم ٹرانسپلانٹ سے 20 سال قبل لکھا گیا تھا۔

Exit mobile version