دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں چوتھائی پاکستان ڈوب گیا۔ دیہی علاقوں میں پھنس جانے والوں کے ہزاروں مویشی سیلاب میں بہہ گئے اور جو بچ گئے انھیں بھی اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے اونے پونے بیچنا پڑا۔
سیلاب کے ماروں کے ہم زبان و ہم علاقہ و ہم عقیدہ بیوپاریوں نے مصیبت کو کاروبار میں بدل دیا۔ میں نے مظفر گڑھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا کہ جانوروں کے بیوپاری حفاظتی بندوں پر گدھ کی طرح منڈلا رہے تھے۔
جس گائے یا بیل کی قیمت عام حالات میں پچاس ہزار روپے تھی۔ اس کی بولی پندرہ سے بیس ہزار روپے لگائی گئی۔کوئی بھی بیوپاری پانچ ہزار کی بکری اور دنبے کا ساڑھے سات سو روپے سے زائد دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ جبکہ مرغی کی قیمت پچاس سے ستر روپے لگائی جا رہی تھی اور سیلاب زدگان کو اس بلیک میلنگ سے بچنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
یہ قصہ یوں یاد آ گیا کہ ان دنوں یہ خبریں تواتر سے آ رہی ہیں کہ جن افغان مہاجرین کو پاکستان میں جنم لینے والی دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کے ہمراہ افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ انھیں فی خاندان صرف پچاس ہزار روپے لے جانے کی اجازت ہے۔ وہ اپنے مویشی نہیں لے جا سکتے۔ بہت سوں نے پاکستان میں مقامی خاندانوں میں شادیاں کیں۔ ان کے بچے اور پھر بچوں کے بچے ہوئے۔ انھوں نے ٹھیلے لگائے، دوکانیں کھولیں، ٹرانسپورٹ کا کام کیا۔
بہت سے مقامی بیوپاری ان کے لاکھوں روپے کے مقروض ہیں۔ پاکستانی شہری نہ ہونے کے سبب جن مقامی لوگوں کی شراکت داری میں انھوں نے کاروبار کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے اب آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ ان کے گھروں اور دوکانوں کی قیمت ساٹھ سے ستر فیصد تک گر چکی ہے۔
ان مہاجروں کو نہیں معلوم کہ سرحد پار پچاس ہزار روپے سے وہ کیا کام کریں گے۔ ان کی زیرِ تعلیم بچیاں افغانستان کے کس سکول میں پڑھیں گی؟ جن خاندانوں کی کفالت عورتیں کر رہی ہیں ان عورتوں کو افغانستان میں کون گھروں سے باہر نکلنے دے گا؟
یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان پناہ گزینوں کو تمام ذاتی سامان کے ساتھ ساتھ املاک اور کاروبار کی فروخت سے ملنے والے پیسے ہمراہ لے جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ان سب کو دوبارہ اٹھا کے کیمپوں میں رکھ دیا جاتا اور ان کیمپوں کی ذمہ داری مشترکہ طور پر قانون نافذ کرنے والوں اور اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیناں ِ( یو این ایچ سی آر ) کے سپرد کر دی جاتی۔ اس بابت ایرانی ماڈل کا مطالعہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہ تھا۔
یہ بھی ممکن تھا کہ تب تک انتظار کر لیا جاتا جب تک پاکستان سمیت عالمی برادری کابل حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم نہ کر لیتی۔ یا افغانستان میں انسانی حقوق کے حالات سے مطمئن نہ ہو جاتی اور اس کے بعد اقوام ِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کے مشورے سے مہاجرین کی واپسی کی کوئی باعزت پالیسی مرتب کر کے اس پر خوش اسلوبی سے عمل کیا جاتا تاکہ بہت سے عالمی ادارے اور حکومتیں ان مہاجرین کی وطن واپسی کے بعد انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ بنیادی سہولتیں دان کر دیتیں۔
مجھے ذاتی طور پر کسی غیرقانونی تارکِ وطن سے ہمدردی نہیں۔ مگر ہر سال لگ بھگ آٹھ لاکھ پاکستانی بھی غیرقانونی طور پر ملک چھوڑ کے یورپ اور دیگر براعظموں کا رخ کر رہے ہیں۔ جہاں رفتہ رفتہ انھیں بنیادی سہولتیں اور حقوق میسر آ ہی جاتے ہیں۔
کیا آپ نے حال فی الحال میں کبھی سنا کہ کسی مغربی ریاست نے چالیس برس سے ملک میں رہنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو اجتماعی طور پر وہاں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کے بچوں سمیت باہر نکال دیا ہو؟ اگر مغرب بھی ایسی ہی پالیسی اپنا لے تو فوراً تنگ نظری، نسلی امتیاز، تعصب کا ٹھپہ ہم ہی لوگ لگانے میں پیش پیش ہوں گے۔
بنگلہ دیش چاہتا تو شہریت سے محروم لاکھوں اردو بولنے والے مشرقی پاکستانیوں کو بیک بینی و دو گوش ملک سے نکال سکتا تھا۔ مگر پچاس برس ہونے کو آئے یہ مشرقی پاکستانی جن کی تعداد اب چند ہزار رہ گئی ہے۔ آج بھی ڈھاکہ کے جنیوا کیمپ میں ریڈکراس کی مدد سے جی رہے ہیں۔ بنگلہ دیش لاکھوں روہنگیوں کا بوجھ بھی بٹا رہا ہے جن میں سے آدھوں کے پاس کاغذ ہی نہیں۔
اب کہا جا رہا ہے کہ بلادستاویزات مقیم افغانوں کی بے دخلی کے بعد ان افغانوں کی باری آنے والی ہے جن کے پاس اپنی مہاجرت قانوناً ثابت کرنے کی دستاویزات موجود ہیں۔ مگر ان دستاویزات کی معیاد ہر دو برس بعد بڑھانا پڑتی ہے اور حکومتِ پاکستان کا اس بار ان کی مدت میں اضافے کا کوئی موڈ نہیں۔
حالانکہ اقوامِ متحدہ کے بقول یہ لاکھوں مہاجرین پناہ گزینیت سے متعلق انیس سو اکیاون کے بین الاقوامی کنونشن کی طے شدہ تعریف پر پورے اترتے ہیں اور انھیں ایک غیر محفوط ملک میں واپس جبراً نہیں دھکیلا جا سکتا۔ مگر پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔
اسی سے ملتی جلتی پالیسی اکیاون برس قبل یوگنڈا کے فوجی آمر عیدی امین نے اپنائی تھی جب انھوں نے لگ بھگ ایک صدی سے آباد نوے ہزار ہندوستانی نژاد باشندوں ( ایشیائی ) کو نوے دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور فی خاندان محض دو سو بیس ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت دی۔
جن پاکستانی فیصلہ سازوں نے کالعدم ٹی ٹی پی اور کابل حکومت کے خلاف غصے کو تمام افغان پناہ گزینوں پر برابر تقسیم کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کی یہ پالیسی وضع کی ہے۔ ان فیصلہ سازوں کی اکثریت کے پاس آل اولاد سمیت دوہری شہریت ہے اور یہ دوہری شہریت بھی ان ممالک کی ہے جہاں ہر سال لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن پہنچتے ہیں اور وہ ایک مخصوص مدت میں متعلقہ قانونی ضوابط سے گذر کے بالاخر قانونی بنا دئیے جاتے ہیں۔
چالیس برس پہلے افغانوں کو اسلامی بھائی کہہ کے خوش آمدید کہا گیا اور ان کے کیمپ دکھا دکھا کے اور مظلومیت بیچ بیچ کر ڈالر اور ریال وصولے گئے۔ کس نے وصولے اور کہاں لگائے۔ خدا معلوم۔
جب گائے دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی تو چارے کا خرچہ بچانے کے لیے اسے چمڑہ فروشوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔