پاکستان کے دورے پر موجود عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مشن نے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو رول اوور اور اضافی فنانسنگ کی یقین دہانیوں کی تصدیق کے لیے اہم دوست ممالک کے ساتھ براہ راست رابطے شروع کر دیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پالیسی سطح کے مذاکرات جاری ہیں۔
پالیسی سطح کے مذاکرات کے پہلے روز 2 اجلاس منعقد ہوئے، نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے اپنی اپنی ٹیم کی قیادت کی۔
ان کے ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، پلاننگ، پاور اور پیٹرولیم ڈویژنز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی متعلقہ ٹیمیں شامل تھیں۔
حکام نے کہا کہ پہلی سہ ماہی کے جائزے کی کامیابی سے تکمیل میں کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے، 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے تحت تقریباً 71 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے ساتھ دسمبر کے آغاز میں ادا کر دی جائے گی۔
تاہم آئی ایم ایف مشن نے رواں مالی سال کے دوران تقریباً 28 ارب ڈالر کی بیرونی ضروریات کی فنانسنگ کو لاحق خطرات کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
مذاکرات کا اختتام کل متوقع
حکام نے بتایا کہ آئی ایم ایف مشن نے گزشتہ روز اسلام آباد میں سفارت خانے کے ذریعے ایک اہم دوست ملک کے ساتھ مالی اعانت کے وعدے کے بارے میں بات چیت کی، جس نے انہیں یقین دہانی کروا دی، اسی طرح 15 نومبر کو پالیسی مذاکرات ختم ہونے سے قبل آج آئی ایم ایف مشن دیگر دوست ممالک کے ساتھ بھی رابطہ کرے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کی جانب سے مالی اعانت کے وعدے برقرار ہیں اور اسی طرح کثیر الجہتی اداروں مثلاً عالمی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور خود آئی ایم ایف کی جانب سے بھی فنڈز کے اجرا کی یقین دہانیاں موجود ہیں۔
تاہم ذرائع نے نشاندہی کی کہ عالمی اقتصادی حالات اور مالیاتی منڈیوں میں غیر یقینی کے پیش نظر رواں مالی سال کے دوران تقریباً 5 ارب ڈالر مالیت کے تجارتی قرضے اور تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے طے شدہ بین الاقوامی بانڈز کے حوالے سے غیر یقینی ہو سکتی ہے، حتیٰ کہ اگر اس طرح کے فنڈز دستیاب ہو جاتے ہیں تو فنانسنگ کے اخراجات کا چیلنج موجود رہے گا۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف مشن نے پالیسی سطح کے مذاکرات میں ایس آئی ایف سی کے تحت پالیسیوں سے متعلق معاملات پر بحث کی، کیونکہ حکام کو اس کے ذریعے غیر ملکی فنڈنگ کا ایک اہم حصہ متوقع ہے۔
لہٰذا سوالات سرمایہ کاری کی مد میں آنے والی رقوم کا انتظام، ٹیکس کی چھوٹ اور اس کے مالیاتی اثرات سے متعلق تھے لیکن بنیادی پیغام سرمایہ کاری اور محصولات کی پالیسیوں میں مزید بگاڑ نہ ہونے سے متعلق تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکام کی جانب سے ٹیکس بیس کی توسیع اور اس کے معیار پر تنقیدی نظر رکھنے پر بھی آئی ایم ایف مشن متاثر ہوا اور کہا کہ حکومت اور ایف بی آر کے پاس ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے مضبوط منصوبے موجود تھے، زیرو ٹیکس ریٹرن فائلرز کی صورت میں اس میں ایک بڑا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ایک عہدیدار نے آئی ایم ایف کے نقطہ نظر کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ ریونیو بیس کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد بڑھانے کے بجائے ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے اس مرحلے پر کسی نئے ٹیکس یا ٹیکس کی شرح میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا لیکن فکسڈ ٹیکس اسکیم کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو ریٹیلرز تک وسعت دینے کی بات کی، جس کے بعد رئیل اسٹیٹ ٹیکسیشن میں بہتری آئندہ ایجنڈے پر رہے گی۔
دونوں فریقین نے منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات اور تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ سے متعلق قانونی فریم ورک میں بہتری پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
حکام کا کہنا تھا کہ نگران حکومت نے نہ صرف مزید حکومتی ضمانتیں نہ ہونے سے متعلق آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کیا بلکہ کچھ ضمانتوں کو ختم کر کے اپنی کارکردگی 150 ارب روپے سے بھی اوپر لے گئی۔