منتخب تحریریں

اسحاق ڈار طالبان کو بسانے والوں پر برہم 

Share

پیر کی شام سینٹ کے اجلاس سے دھواں دھار خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار صاحب نے مجھے حیران وپریشان کردیا۔ موضوع ان کے خطاب کا نگران حکومت کی افغان پالیسی تھی۔ اسے تاریخی پس منظر میں ر کھ کر بیان کرنے کے بجائے وہ غصے سے مغلوب ہوئے یہ سوال اٹھاتے رہے کہ ”وہ کون تھا“ جو اگست 2021ءمیں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاءکے بعد اس ملک میں کئی برسوں سے مقیم افغان طالبان کے ہم عقیدہ پاکستانیوں کو وطن لانے کا سبب ہوا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے وہ سینٹ کے ”اِن کیمرہ“ اجلاس کے متمنی بھی سنائی دئے تانکہ ”حقائق“ کھل کر بیان ہوسکیں۔
ڈار صاحب کا دھواں دھار خطاب سنتے ہوئے مجھ جھکی کو مسلسل یادآتا رہا کہ عمران حکومت اپریل 2022ءمیں تحریک عدم ا عتماد کے ذریعے گھر بھیج دی گئی تھی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (نون) کے صدر شہباز شریف کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا جس میں تحریک انصاف کے علاوہ وطن عزیز کی تقریباََ ہر سیاسی جماعت کو نمائندگی میسر تھی۔ پاکستان پیپلز پا رٹی کے بلاول بھٹو زرداری بھی اس حکومت میں وزارت خارجہ کے منصب پر فائز تھے۔ تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان کی تقریباََ ہر سیاسی جماعت پر مشتمل یہ حکومت ایک حوالے سے ہماری ”ا جتماعی دانش“ کا مظہر بھی ہوسکتی تھی۔ اس حکومت نے مگر 16ماہ کے اقتدار کے دوران اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جو غصے سے تلملائے ڈار صاحب اپنے خطاب کے دوران سینٹ میں پیر کی شام اٹھاتے رہے۔
ڈار صاحب ایک ذہین اور محنتی آدمی ہیں۔ فقط معیشت ہی نہیں بلکہ بے تحاشہ ”حساس“ معاملات سے نبردآزما ہونے کیلئے بھی مسلم لیگ (نون) ان کی فراست سے رجوع کرنا لازمی شمار کرتی رہی ہے۔میرا نہیں خیال کہ وہ اس امر کی بابت لاعلم ہیں کہ ”وہ کون تھا“ جس نے ا مریکی افواج کے انخلاءکے بعد افغانستان سے طالبان کے ہم عقیدہ پاکستانیوں کو وطن واپس لاکر بسانے کا فیصلہ کیا تھا۔نہایت دیانت داری سے ان کا خطاب سنتے ہوئے میں توقع باندھے رہا کہ وہ ”اس شخص“ کا نام لے کر اس ”خبر“ کی تصدیق فرمادیں گے جو افغانستان سے جڑے معاملات پر سرسری نگاہ رکھنے والے صحافی اور تبصرہ نگار بھی جانتے ہیں۔دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے بھی ربّ کریم سے شفقت کی د±عا مانگتے ہوئے میں یہ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ طالبان کے ہم عقیدہ پاکستانیوں کو افغانستان سے واپس آنے کی راہ عمران حکومت کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ رہے جنرل فیض حمید نے بنائی تھی۔مجھے خبر نہیں کہ قمر جاوید باجوہ بطور آرمی چیف اس سے خوش تھے یا ناخوش۔
فیض حمید صاحب کا میں ہرگز مداح نہیں ہوں۔وہ جب فرعونی اختیارات سے مالا مال تھے تو مجھ بدنصیب کے لئے ٹی وی سکرینوں پر آواز لگانا بھی ممکن نہیں تھا۔اس کے باوجود اصرار کروں گا کہ فیض حمید امریکی افواج کے انخلاءکے بعد پاکستان کے طالبان حکومت کے ساتھ بنائے تعلقات کے تنہا ذمہ دار نہیں تھے۔ عمران خان سیاست میں آنے سے قبل ہی ”پشتون ثقافت“ کو ایک مخصوص تناظر میں رکھ کرسراہتے رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد ان کی سیاست کا اہم ترین ہدف پاکستان میں ڈرون حملوں کو روکنا رہاہے۔ مذکورہ ہدف کے حصول کے لئے وہ پاکستان کے زمینی راستوں سے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لئے جانے والی رسد کو روکنے کے لئے مسلسل دھرنے بھی دیتے رہے۔
عمران خان کی سیاسی ترجیحات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میں ہرگز حیران نہیں ہوا جب بطور وزیر اعظم پاکستان انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کی ذلت آمیز انداز میں واپسی اور وہاں طالبان کی ”فاتحین“ کی طرح لوٹنے کو ”غلامی کی زنجیریں“توڑ دینے کا مظہر قرار دیا۔ تحریک انصاف کے قائد کی مستقل مزاجی کے ساتھ اپنائی پالیسی کی بدولت ہی انہوں نے افغانستان میں پناہ گزین طالبان کے ہم عقیدہ پاکستانیوں کو وطن لاکر بسانے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ جو میں سوچ رہا ہوں اگر درست ہے تو افغانستان سے پاکستانی انتہا پسندوں کی وطن واپسی فیض حمید کی ذاتی پالیسی نہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان کا فیصلہ تھا اور ایک ریاستی ادارے کے سربراہ کی حیثیت میں فیض حمید محض اس فیصلے کا اطلاق یقینی بناتے رہے۔
سوال اس کے باوجود یہ اٹھانا لازمی ہے کہ فیض حمید کی ریاستی ادارے سے رخصتی کے بعد بھی عمران خان کی ترجیح کے مطابق پالیسی کیوں جاری رہی۔ یہ پالیسی ان دنوں میں کارفرما رہی جب عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کردئیے گئے تھے۔خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بھی طالبان کے ہم عقیدہ پاکستانیوں کے دل جیتنے کا سلسلہ جاری رکھا۔شہباز شریف کی قیادت میں کام کرتی وفاقی حکومت اس ضمن میں تقریباََ بے بس نظر آئی۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو اکثر حیران وپریشان ہوجاتا ہوں۔افغانستان کے ساتھ تعلقات کی پالیسی تشکیل دینا ریاست پاکستان کی وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی ذمہ داری ہے۔ تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ میں قائم حکومت کے دوران مگر کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جو یہ عندیہ دیتے پائے گئے کہ ”راولپنڈی اور اسلام آباد“ نے افغانستان کے ساتھ معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری“ پشاور“ کو ”آؤٹ سورس (Out Source)“ کردی ہے۔”صوبائی خودمختاری“ کی ایسی مثال وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں شاذہی کبھی دیکھنے کو ملی تھی۔