جھوٹی سچی، الم ناک اور مضحکہ خیز خبروں کے ریلے میں ایک خوش کن خبر ایسی ہی ہے، جیسے لشکر غنیم کے سموں تلے تاراج کھیتی میں جہاں تہاں بچ رہنے والی گندم کی بالی۔ احمد مشتاق پاکستان تشریف لائے ہیں۔ اب اگر کسی بچہ شتر نے پوچھ لیا کہ احمد مشتاق کون ہیں؟ تو درویش جواب نہیں دے سکے گا۔ سوشل میڈیا، ٹی وی ٹاک شو اور سرکاری مدرسے کے احتسابی نصاب سے علم، مکالمہ، سیاست، تاریخ اور تہذیب کا اکتساب کرنے والی نسل کے سوالات کا جواب خاموشی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ 1933 میں پیدا ہونے والے احمد مشتاق چودہ برس کی عمر میں لاہور آئے تھے۔ 1983 میں دوسری مرتبہ وادی غربت میں قدم رکھا تو ملک پر مسلط فوجی آمر خانہ زاد ادیبوں کی مجلس المعروف بہ اہل قلم کانفرنس میں احمد مشتاق کی شاعری کے ٹکڑے سنا کر حرف عتاب ارزاں کر رہا تھا۔ چالیس برس پر محیط خود اختیار کردہ ترک وطن میں احمد مشتاق صرف دو مرتبہ پاکستان آئے، 1995 ء اور 2000 ء میں، اور اب ربع صدی بعد لاہور لوٹے ہیں۔ شاعر کے خامہ پیش بیں نے شہر پر گزرنے والی افتاد بہت پہلے رقم کر رکھی تھی۔ دیکھیے:
جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
اور یہاں مصرع ثانی میں شاعر کی پلک جھپک گئی۔
وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
اسلئے کہ جس لاہور میں احمد مشتاق لوٹے ہیں، وہاں خوش قسمتی سے محمد سلیم الرحمن ابھی فروکش ہیں۔ ویسے احمد مشتاق نے اس حسنِ امکان کی پیش بینی بھی کر رکھی تھی۔
دل نہ میلا کرو، سوکھا نہیں سارا جنگل
ابھی اک جھنڈ سے پانی کی صدا آتی ہے
خبر ہے کہ احمد مشتاق اور محمد سلیم الرحمن میں ملاقات ہوئی ہے۔ حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا۔ احمد مشتاق جس پاکستان سے رخصت ہوئے تھے، اس کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ تھی اور اب اسی منطقہ ارض پر کلبلاتی مخلوق کی تعداد 25 کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ عروس البلاد کراچی جہل آمریت کے ہاتھوں کھنڈر ہو گیا۔ گلیوں اور دروازوں کے شہر لاہور میں ان گنت زیر زمیں اور بالائے زمین سڑکیں ایزاد ہوئیں مگر پورا شہر الجھی ہوئی ٹریفک کا گویا ایک رکا ہوا ریلا ہے جو کسی بھی کمزور نقطے پر شگاف ڈال کر دھاڑتا ہوا سیلاب بننے کی فکر میں ہے۔ راولپنڈی کا نفیس شہر اسلام آباد سمیت نواحی قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا ان اطراف و جوانب میں نکل گیا جہاں ایوان عدل کی زنجیر ہی نہیں، بھاری دروازے تک انصاف مانگنے والوں کی آہ و فغاں سے لرزاں ہیں۔ آپ کا نیاز مند مالیاتی امور سے قطعی نابلد ہے نیز یہ کہ معاملہ زیر سماعت ہے چنانچہ صحیح یا غلط کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ سامنے کی بات البتہ یہ ہے کہ ایک وسیع و عریض ہائوسنگ سوسائٹی کی ملکیت پر دو فریق دعویدار ہیں۔ اب ایک فریق نے الزام عائد کیا ہے کہ ایک طاقتور سرکاری محکمے کے بالا نشیں اہل کاروں نے اپنے منصب کی آڑ میں عوام کو لوٹنے کے لئے مجرمانہ گٹھ جوڑ کر رکھا تھا۔ ان افراد نے شہریوں کے باہم تنازعات میں کسی قانونی اختیار کے بغیر ہی مداخلت کر کے اغوا یا جبر و تشدد کے دیگر ہتھکنڈوں سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ مقدمہ نمٹاتے ہوئے فریقین کو متعلقہ اداروں سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ قانونی کارروائی کا حتمی نتیجہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ آپ کا نیاز مند محض چند بنیادی نکات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے۔ ’ہائوسنگ سوسائٹی‘ کی آفت نئی نہیں۔ تقسیم کے بعد ابتدائی برسوں میں قرۃ العین حیدر نے ’ہائوسنگ سوسائٹی‘ لکھا تھا۔ مولوی محمد سعید نے اپنی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ میں 50 کے عشرے میں ہائوسنگ سوسائٹی کے فتنے کا تفصیلی ذکر کر رکھا ہے۔ میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا نے ’بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘ کے عنوان سے اپنی یاد داشتوں میں 60 کی دہائی کے پاکستان میں’ہائوسنگ سوسائٹی‘ کا کیف و کم بیان کر رکھا ہے۔ مزروعہ اور غیر مزروعہ اراضی کے حصول کے لئے اعلیٰ اہل کاروں کی تڑپ کے کچھ اشارے قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت میں بھی مل جاتے ہیں۔
دنیا میں حکومت کے صرف دو نمونے پائے جاتے ہیں۔ جواب دہ حکومت اور غیر جواب دہ حکومت۔ ریاستی بندوبست کے ان دو نمونوں پر آپ جو سابقہ یا لاحقہ چپکانا چاہیں، وہ آپ کی مرضی ہے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ جمہوریت نام ہی جواب دہ حکومت کا ہے۔ غیر جمہوری حکومت کا مطلب ایسی حکومت ہے جس میں کچھ افراد یا گروہ جواب دہی سے بالا ہوتے ہیں۔ جہاں جواب دہی نہیں ہو سکتی، وہاں ناگزیر طور پر بدعنوانی جنم لیتی ہے۔ اس بدعنوانی کو طول دینے کے لئے ریاستی تشدد کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک بدعنوان ٹولے کو ہٹا کر اس کی جگہ لینے کے خواہش مندوں کو سازش کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کل ملا کے نتیجہ اس بحث کا یہ ہے کہ جہاں جواب دہ حکومت نہیں ہوتی، جہاں قانون کی نظر میں تمام شہریوں کو یکساں احترام اور مواقع میسر نہیں ہوتے، جہاں حکومت عوام کی رائے سے نہیں چنی جاتی، وہاں بدعنوانی، تشدد اور سازش کی تکون ضرور نمودار ہوتی ہے۔ ہائوسنگ سوسائٹی تو اس گہرے مرض کی ظاہری علامت ہے۔ اینٹ پتھر کی بلند و بالا عمارتوں سے ہائوسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہوتی ہیں۔ بستیاں رشتوں کی بنیاد پر اٹھنے والے گھروں سے وجود میں آتی ہیں۔ جمہوریت کا مطالبہ کرنے والے راندہ درگاہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ اپنی بستی سے رخصت ہونے والا کوئی بیٹا جب عشروں بعد واپس آئے تو اسے یہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
’اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتے ہیں‘