Site icon DUNYA PAKISTAN

چینی مائیں اور حکومت نوجوانوں پر شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کا دباؤ کیوں ڈال رہے ہیں؟

Share

چن ایک نوجوان خاتون ہیں وہ 20 سے زیادہ اجنبی افراد کے ساتھ ڈیٹ پر جا چکی ہیں جس کا انتظام ان کی والدہ نے کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کچھ ڈیٹس بہت بری تھیں کیونکہ زیادہ تر مرد ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔ وہ بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔

چن 20 کی دہائی کے آخری برسوں میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’بچے رکھنا بہت تھکا دینے والا عمل ہے اور مجھے بچے نہیں پسند۔ لیکن ایسے مرد ملنا ناممکن ہے جو بچے نہیں چاہتے۔ ایک مرد کے لیے بچے نہ ہونا ایسا ہے جیسے ان کا قتل کر رہے ہیں۔‘

متعدد ڈیٹس کے باوجود شادی کا دباؤ کم نہیں ہو رہا اور وہ کہتی ہیں اس دباؤ سے محسوس ہو رہا ہے وہ ’پھٹنے‘ والی ہیں۔

یہ صرف چن کے والدین تک محدود نہیں ہے جو چاہتے ہیں کہ وہ شادی کریں اور ان کے بچے ہوں۔ چین میں آبادی کی شرح گر رہی ہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی لاکھوں نوجوان مرد اور خواتین کو اس رجحان کو بدلنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

چین کی آبادی 60 سالوں میں پہلی مرتبہ کم ہوئی ہے اور اس کی شرح پیدائش بھی تاریخی کمی کا شکار ہو گئی ہے اور رجسٹرڈ شادیوں کی تعداد تقریباً 70 لاکھ ہو گئی ہے جو 1986 سے اتنی کم نہیں ہوئی تھی۔

سست معیشت اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان چینی ان فیصلوں سے منہ موڑ رہے ہیں جو ماضی میں ان کے والدین نے لیے۔ اور یہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے درد سر بن گیا ہے اور صدر شی جن پنگ کی طرف سے ’قومی تجدید شباب‘ کے پیغام کے برعکس ہے۔ جس میں وہ چاہتے ہیں کہ چین ایک جوان قوم کی طرح ترقی کرے۔

سرکاری اہلکار ’اس درد کو نہیں سمجھ سکتے‘

یہ خدشات صدر شی تک بھی پہنچ گئے جنھوں نے گذشتہ دنوں دی گئی تقریر میں ’بچے پیدا کرنے اور شادی کے نئے رواج کو فروغ‘ دینے کی ضرورت پر بات کی۔ انھوں نے شادی، بچوں اور خاندان کے بارے میں نوجوانوں کے نقطہ نظر کو تشکیل دینے کے لیے ’رہنمائی کو مضبوط بنانے‘ کی بھی بات کی۔

ایسا نہیں ہے کہ چینی حکام کوشش نہیں کر رہے۔

پورے ملک میں سرکاری افسروں نے شادی کرنے، طلاق سے پرہیز اور بچے پیدا کرنے کے لیے نوجوانوں کے لیے فوائد متعارف کروائے ہیں۔

اس سال کے شروع میں، مشرقی زیجیانگ صوبے کے ایک چھوٹے سے قصبے نے اعلان کیا تھا کہ اگر دلہن کی عمر 25 سال یا اس سے کم ہو گی تو وہ اس جوڑے کو 1,000 یوآن بطور ’انعام‘ پیش کریں گے۔

اس فیصلے نے پہلے مقامی لوگوں کو حیران کیا اور پھر انھیں اس پر غصہ بھی آیا۔ انھوں نے مقامی انتظامیہ کو بہرا قرار دیا جنھیں یہ لگتا ہے کہ وہ اتنی کم رقم لینے کے لیے ایک ایسا فیصلہ لیں گے جو ان کی ساری زندگی پر اثرانداز ہو گا۔

دوسری جگہوں پر انتظامیہ نے ایسے طلاق کے خواہش افراد کو 30 دن تک ایک بار پھر اپنے فیصلے پر سوچنے کی مدت دینے پر اسرار کیا ہے۔ اس سے اس بارے میں خدشات پیدا ہوئے کہ یہ مدت کس طرح ذاتی انتخاب کو محدود کرے گی، اور گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کو نقصان پہنچائے گی۔

دیہاتی علاقوں میں کنوارے مردوں کو دلہنیں ڈھونڈنے میں کافی مشکل کا سامنا ہو رہا ہے۔ ان جگہوں میں حکام نے احکامات جاری کیے ہیں کہ خواتین زیادہ دلہن کی قیمت نہ لیں۔ دلہن کی قیمت ایک رقم ہے جو دلہے یا اس کے گھروالوں کو اپنی سنجیدگی ظاہر کرنے کے لیے ہونے والی بیوی یا اس کے خاندان کو دینی ہوتی ہے۔

ماہر معاشیات لی جِنگکوئی کا کہنا ہے کہ دیگر ’ترغیبات‘ کی طرح یہ بھی کام نہیں کرے گی۔ وہ کہتے ہیں دلہن کی قیمت کے علاوہ دوسری چیزوں میں بھی مرد ایک دوسرے سے مقابلے کر رہے ہیں جیسے کہ ’گھروں، گاڑیوں یا بہتر دکھنے‘ میں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد اکثریتی چینی راہنما نوجوانوں کے فیصلوں کی وجوہات خصوصاً خواتین کی وجوہات کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔

چین میں بڑے فیصلے کرنے والا اعلیٰ ترین گروہ پارٹی کی سات اراکین پر مشتمل سیاسی بیورو کی سٹینڈنگ کمیٹی ہے جس میں کئی دہائیوں سے مرد ہی رہے ہیں۔

اس سے نچلے درجے کی کمیٹی میں 20 سے زیادہ نشستیں ہیں جس میں اکتوبر سے پہلے تک دو دہائیوں سے ایک خاتون تھیں۔ اب اس میں کوئی خاتون نہیں رہیں۔

ان تمام مرد حضرات کی کوششوں کو اکثر سطحی اور اس دور و وقت کے مطابق نہیں مانا جاتا اور ان کا انٹرنیٹ پر مزاق بھی اڑایا جاتا ہے۔

لی جِنگکوئی کہتے ہیں ’بنیادی طور پر تمام حکومتی اہلکاروں کی بیگمات ہیں وہ اس درد کو نہیں سمجھ سکتے۔‘

محبت اب لگژری نہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی آبادی دو ایسے گروہ پر مشتمل ہے جن کا رشتہ ہونا مشکل ہے۔ ایک ہیں شہری خواتین اور دوسرے ہیں دیہی مرد۔

دیہی مرد معاشی توقعات سے لڑ رہے ہیں، جیسے کہ دلہن کی اونچی قیمتیں اور ایک محفوظ ملازمت جو خاندان کی کفالت کر سکتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ دیہی علاقوں میں خواتین کو پارٹنر کے انتخاب میں زیادہ وقت لگانے کے لیے بااختیار بن رہی ہیں۔

شینگ ہائی میں ملازمت کرنے والی 28 سال کی کیتھی ٹیان نے کہا ہے ’جب میں چینی نئے سال کے لیے گھر گئی تو میں نے چین کے دیہی شادی منڈی میں ایک عورت ہونے کے ناطے بہت اچھا محسوس کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ پریشان تھیں کہ انھیں شمالی انہوئی صوبہ میں ’تھوڑا عمر رسیدہ‘ سمجھا جائے گا جہاں عموماً 22 سال کی عمر تک خواتین کی شادی ہو جاتی ہیں لیکن ان کے ساتھ اس کے برعکس سلوک ہوا۔

انھوں نے بتایا ’مجھے کچھ فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن آدمی کو گھر، گاڑی، منگنی کی تقریب کے ساتھ ساتھ دلہن کی قیمت ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں شادی کے اس بازار میں سب سے قیمتی ہوں۔‘

دوسری جانب شہری خواتین کا کہنا ہے کہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ باقی معاشرہ جس طرح سے شادی کو دیکھتا ہے اس میں اور ہمارے نظریے میں بہت فاصلہ ہے۔

چن کہتی ہیں ’میرے اندر سے کوئی گھبراہٹ نہیں ہے، میری گبراہٹ باہر کی طرف سے ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ان کے والدین کے زمانے میں زندگی مشکل تھی اور محبت ایک لگژری تھی اس کے برعکس لوگوں اور خواتین کے پاس اب آپشنز ہیں۔

’اب سوچ یہ ہے کہ بچہ ہونا ضروری نہیں ہے اور یہ ایک ایسا کام نہیں ہے جو ہمیں ضرور پورا کرنا ہے۔‘

خواتین کا یہ کہنا ہے کہ دنیا بھر کی طرح حکومتی مہم کا مرکز خواتین کے گرد ہوتا ہے اور مردوں کی ذمہ داری کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

اور غیر متوازن توقعات انھیں ماں بننے سے دور بھاگتی ہیں۔

چن کا کہنا ہے کہ اپنی دوست کو ماں بنتے دیکھ کر بھی ان کی یہ سوچ بنی ہے ’اس کا دوسرا بچہ بہت شرارتی ہے۔ جب بھی میں اس کے گھر جاتی ہوں مجھے لگتا ہے اس کے گھر کی چھت گر جائے گی۔‘

چین میں نوجوان ماؤں کے درمیان یہ جملہ عام بن گیا ہے کہ ’اپنے بچوں کی پرورش اس طرح کریں جیسے آپ کا شریک حیات مر گیا ہو۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ خاوند گھر کے کام کاج اور بچوں کا خیال رکھنے کی ذمہ داریوں میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے۔

اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر 33 سال کی ڈیٹا سائنٹسٹ نے بتایا کہ ’میں جن شادی شدہ مردوں کو جانتی ہوں وہ سمجھتے ہیں کہ گھر میں ان کی ذمہ داری صرف پیسہ کمانے کی ہے۔‘

’مائیں اپنے بچوں کے ساتھ نہ رہنے پر خود کو قصوروار محسوس کرتی ہیں، وہ یہاں تک سوچتی ہیں کہ دیر سے باہر رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن باپ کو ایسا کبھی محسوس نہیں ہوتا۔‘

لیکن کمیونسٹ پارٹی کے کسی اقدام سے یہ عندیہ نہیں ملتا کہ شادیوں اور پیدایش کی شرح بڑھانے میں عدم مساوات اور بدلتی ہوئی توقعات وہ مسائل ہیں جن کا انھیں سامنا کرنا ہو گا۔

اور نوجوان چینیوں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ اتنی آسانی سے حکام کی باتوں میں نہیں آنے والے۔

جب ان سے سماجی دباؤ کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ شینگ ہائی میں کمرتوڑ اور متنازع لاک ڈاؤن کے دوران لگائے جانے والے نعرے کو دہراتے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک نوجوان نے سخت پابندیوں کے خلاف حکام کے سامنے بحث کرتے ہوئے کہے تھے۔

’ہم آخری نسل ہیں۔‘

Exit mobile version