چین میں اب لوگوں کو نئی موبائل فون سروسز کے حصول کے لیے اپنے چہروں کو سکین کروانا لازم ہوگا۔
یہ اقدام حکام کی جانب سے ملک کے کروڑوں انٹرنیٹ صارفین کی شناختوں کی تصدیق کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
نئے ضوابط کا اعلان ستمبر میں کیا گیا تھا اور انھیں اتوار کو نافذ ہونا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ’انٹرنیٹ کی دنیا میں شہریوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ‘ چاہتی ہے۔
چین میں پہلے ہی اپنی آبادی کے سروے کے لیے فیشل ریکگنیشن یعنی چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی زیرِ استعمال ہے۔
چین اس طرح کی ٹیکنالوجیز میں دنیا کا صفِ اول کا ملک ہے مگر اس کا ملک بھر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال نے بحث کو جنم دیا ہے۔
نئے قواعد کیا ہیں؟
نئے موبائل یا موبائل ڈیٹا کنکشن کے حصول کے وقت لوگوں کو (دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح) قومی شناختی کارڈ دکھانا اور اپنی تصاویر اتروانا لازم ہے۔
مگر اب انھیں اپنے چہرے بھی سکین کروانے ہوں گے تاکہ ان کی شناختی دستاویز پر موجود تصاویر سے ان کا موازنہ کیا جا سکے۔
چین کئی سالوں سے ایسے ضوابط نافذ کرنا چاہ رہا ہے تاکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہر شخص اپنے ’حقیقی نام‘ سے ہی انٹرنیٹ استعمال کرے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں چین کی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر تحقیق کرنے والے جیفری ڈِنگ کہتے ہیں کہ چین بے نام فون نمبروں اور انٹرنیٹ اکاؤنٹس سے سائبر سیکیورٹی بہتر بنانے اور انٹرنیٹ پر فراڈ کو کم کرنے کے لیے نمٹنا چاہتا ہے۔
مگر ان کے مطابق اس کی ایک اور ممکنہ وجہ لوگوں پر بہتر انداز میں نظر رکھنا بھی ہوسکتی ہے۔
کیا لوگ اس حوالے سے پریشان ہیں؟
جب ستمبر میں ان ضوابط کا اعلان کیا گیا تھا تو چینی میڈیا نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔
مگر سینکڑوں سوشل میڈیا صارفین نے اپنے بارے میں جمع کیے گئے ڈیٹا کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں انٹرنیٹ پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ سائنا ویبو پر ایک صارف نے لکھا: ’لوگوں پر زیادہ سے زیادہ کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ وہ [حکومت] آخر کس چیز سے خوف زدہ ہیں؟‘
کئی لوگوں کی شکایت تھی کہ چین میں پہلے ہی کئی مرتبہ ڈیٹا غیر متعلقہ لوگوں کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ ایک صارف نے اپنی ہزار سے زائد لائکس جمع کرنے والی پوسٹ میں لکھا کہ ’پہلے چوروں کو آپ کا نام معلوم ہوتا تھا، اب انھیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ آپ دکھتے کیسے ہیں۔‘
ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے انھیں لوگوں کی جانب سے دھوکہ دہی پر مبنی فون کالز آیا کرتیں جنھیں ان کا نام اور پتہ معلوم ہوتا۔ انھوں نے پوچھا: ’کیا اب انھیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ میں کیسا نظر آتا ہوں؟‘
مگر کچھ لوگوں نے اس پر تنقید کرنے کے بجائے اسے ’ٹیکنالوجیکل ترقی‘ سے ہم آہنگ قرار دیا۔
چین پہلے ہی انٹرنیٹ پر کڑی نگرانی اور سینسرشپ رکھتا ہے اور جس مواد کے بارے میں یہ نہیں چاہتا کہ شہری اسے دیکھیں یا اس کے بارے میں بات کریں، اسے ہٹا دیا جاتا ہے یا بلاک کر دیا جاتا ہے۔