سوشل میڈیا پر چھائے لونڈے لپاڑوں کا غول غالباََ درست ہی سوچتا ہے اور وہ یہ کہ عمر بڑھنے کے ساتھ میرا دماغ بھی ضعف کا شکار ہوچکا ہے۔معاملات کو منطقی انداز میں دیکھنے کے قابل نہیں رہا۔ جس عالم میں وقت نے بالآخر پہنچا دیا ہے اسے مگرانہونی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ ہنر تحریر کے حوالے سے میں فقط قلم گھسیٹ ہوں۔زبان پر گرفت نہایت کمزور ہے۔ گرائمر کے قواعد سے بھی قطعاََ لاعلم ہوں۔میرے مقابلے میں اسد اللہ غالب کے لئے لفظ لمبی قطار میں سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑے ہوا کرتے تھے اور شاعر کی توجہ کے طلب گار۔اس کے باوجود غالب بھی اپنی تخلیق کو ”بک رہا ہوں جنوں میں ….“ بتاتے رہے۔ یہ بھی متنبہ کردیا کہ ”آگہی“ ان کے شعر سمجھنے میں کام نہیں آئے گی کیونکہ موصوف کے عالم تقریر کا کوئی ”مدعا“ ہی نہیں ہوتا۔
بہرحال اپنے خلل دماغ کے اعتراف سے آغاز کے بعد اطلاع مجھے آپ کو یہ دینا ہے کہ نواز شریف صاحب کی منگل کے روز کوئٹہ میں مصروفیات دیکھتے ہوئے نجانے کیوں مجھے مغل بادشاہ ہمایوں یاد آنا شروع ہوگیا۔بابر کی وفات کے بعد وہ تخت نشین ہوا تو معاملات سنبھال نہیں پایا۔ شیر شاہ سوری نے اقتدار چھین کر اسے ملک بدری کو مجبور کردیا۔وہ ہندوستان سے ایران پہنچا اور وہاں صفوی بادشاہت کی پناہ میں کئی برس گزارنے کے بعد بالآخر مغل سلطنت کی بحالی کے ارادے سے وطن لوٹا۔دلی پہنچنے سے قبل اس نے سوری خاندان کی بادشاہت سے اکتائے بے تحاشہ امراءسے مختلف مقامات پر پڑاﺅ کے دوران رابطے استوار کئے اور با لآخر دلی پہنچ کر مغل سلطنت کو بحال کردیا۔
میرے خلل دماغ کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ میں نواز شریف صاحب کا تقابل آج سے تقریباََ چار صدی قبل کے ایک بادشاہ سے کررہا ہوں۔ایسا کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی فراموش کردی کہ نواز شریف 1980ءکی دہائی میں سیاست میں متحرک ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاءکی چتھری تلے اقتدار کی مبادیات جان لینے کے بعد بتدریج ”جمہوریت“ کی جانب راغب ہوئے اور انتخابی عمل کی بدولت ہی آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب کے 1985ءمیں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔وہ اس منصب پر 1988ءمیں جنرل ضیاءکی رحلت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفاقی حکومت قائم ہوجانے کے باوجود ”جمہوری اور انتخابی عمل“ کی بدولت ہی برقرار رہنے کے قابل ہوئے اور بالآخر 1990ءمیں ایک بار پھر ”انتخابی اور جمہوری عمل“ ہی انہیں وطن عزیز کا پہلی بار وزیر اعظم ”منتخب“ کروانے کا باعث ہوا۔ تین بار پاکستان کے ”منتخب“ وزیر اعظم رہے نواز شریف کی ایک مغل بادشاہ سے مماثلت کا خیال منطقی انداز میں سوچنے کے قابل ذہن میں آنا ممکن ہی نہیں۔ میرے دماغ میں لیکن آگیا مگر کیوں؟
اس سوال پر غور کیا تو یاد آیا کہ نام نہاد ”سلطانی جمہور“ کا دور آنے سے قبل ہمارے ہاں برطانوی سامراج کا متعارف کردہ نظام تھا۔ اس نظام نے ”بندوبست دوامی“ کے ذریعے زمینداروں کی ایک مخصوص نسل تیار کی تھی جو تاج برطانیہ سے وفاداری کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی تھی۔ ”بندوبست دوامی“ کے قیام سے قبل مغلیہ سلطنت کے زوال تک ہمارے ہاں جو بادشاہتیں رہیں۔زمین ان کی ذاتی ملکیت تصور ہوتی تھی۔دہلی میں بیٹھا سلطان یا بادشاہ اپنے زیر نگین علاقوں میں مختلف لوگوں کو ”پنج ہزاری“ یا ”دس ہزاری“ کے منصب پر فائز کرتا ”پنج ہزاری“ کا مطلب یہ تھا کہ اس منصب پر فائز ہونے والا شخص جنگ کے دنوں میں بادشاہ کو پانچ ہزار سپاہی فراہم کرے گا۔یہ سپاہی اور ان کے گھوڑے ہمہ وقت تیار رکھنے کے لئے منصب دار کو زمین کے وسیع تر رقبے الاٹ کئے جاتے تھے۔ اس رقبے کی ملکیت مگر منصب دار کے خاندان کو منتقل نہیں ہوتی تھی۔ ”پنج ہزاری“ کے انتقال کے تین دن بعد بادشاہ یہ طے کرتا کہ نیا پنج ہزاری کون ہوگا۔ اسی باعث ہمارے ہاں کسی شخص کے انتقال کے تین دن بعد سوئم یا غیر مسلموں کے لئے ”تیجا“ کی رسم کا آغاز ہوا تھا۔
انگریزوں نے بنگال پر قبضے کے بعد بادشاہوں کی تاریخ کا جائزہ لیا تو فیصلہ کیا کہ ہمارے خطے میں ماضی کی سلطنتیں انتشار کا مسلسل نشانہ اس لئے بھی بنتی رہیں کیونکہ بادشاہ کے ”پنج ہزاری“ یا ”دس ہزاری“ منصب دار دوامی نہیں ہوا کرتے تھے۔ کسی ”پنج ہزاری“ کے مرجانے کے بعد اس کی اولاد کو نئے بادشاہ کی سرپرستی نصیب ہوتی تو وہ اس کے مخالف کیمپ میں شامل ہونے کو بے چین ہوجاتے۔ ہمارے خطے میں بادشاہوں اور سلطنتوں کے عروج وزوال سے انگریزوں نے یہ سیکھا کہ یہاں کی زمین اشرافیہ کے تمام خاندانوں پر مستقل بنیادوں پر بانٹ دی جائے۔ زمینی بندوبست کے ذریعے لہٰذا جاگیرداروں اور زمین داروں پر مشتمل دائمی اشرافیہ تشکیل دی گئی جو تاج برطانیہ سے ہر صورت وفاداری نبھانے کو آمادہ رہتی۔ یہ مخلوق ”تبدیلی“ سے ہمیشہ خوف کھاتی رہی۔
برصغیر پر اپنا تسلط جمالینے کے بعد انگریزوں نے بتدریج مقامی اشرافیہ کو اقتدار و اختیار میں حصہ دار بنانے کا ڈھونگ رچانا بھی شروع کردیا تھا۔ بات ضلعی حکومتوں سے چلتی ہوئی ”منتخب“ صوبائی حکومت کے قیام تک پہنچی۔ انتخاب ان اداروں کے مگر بالغ رائے دہی کی بنیاد پر نہیں ہوا کرتے تھے۔ووٹ دینے کا حق فقط چند مراعات یافتہ طبقات ہی کو میسر تھا۔ مراعات یافتہ طبقے کی سہولت اور دلداری کے لئے متعارف کردہ ”جمہوریت“ نے بالآخر ہمیں ایک مخصوص طبقے سے روشناس کروایا جسے ہم آج کے دور میں ”الیکٹ ایبلز“ پکارتے ہیں۔1970ءسے ہمارے ہاں ہر بالغ شخص ووٹ دینے کا حقدار ہے۔1970ءکے انتخاب میں تاہم یہ حق پہلی بار استعمال ہوا تو پاکستان اس کے نتیجے میں دولخت ہوگیا۔ آج کے پاکستان میں بھی برطانوی دور سے بلدیاتی اور صوبائی اداروں کے لئے مستقل منتخب ہونے والے کئی ”خاندانی“افراد کے 1970ءکے انتخاب کے دوران پنجابی محاورے والے ”برج الٹ گئے“ تھے۔ریاست پاکستان کے دائمی اداروں نے 1970ءکے انتخابی نتائج کی بدولت رونما ہوئی خلفشار کی بنیاد پر لہٰذا یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ ”انتخابی عمل“ حیرانیوں کا سبب ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔انتخابات کے حیران وپریشان کن نتائج کی پیش بندی کی خاطر ہمارے ہاں ایک نظام 1988ءسے متعارف کروایا جاچکا ہے۔مذکورہ انتخاب میں پیپلز پا رٹی کے تمام مخالفین کو راتوں رات بنائی آئی جے آئی (IJI)میں یکجاکردیا گیا تھا۔ اس کی بدولت پیپلز پارٹی مخالف ووٹ تقسیم نہ ہوئے۔بالآخر محترمہ بے نظیر بھٹو کو وفاق،سندھ ا ور ان دنوں کے صوبے سرحدمیں عددی اعتبار سے کمزور حکومتیں تو مل گئیں لیکن آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب پیپلز پارٹی کو نصیب نہ ہوا۔ بلوچستان بھی اکبر بگتی کے سپرد ہوگیا۔
1988ءمیں آئی جے آئی کی صورت تشکیل کردہ نظام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توانا سے توانا تر ہوتا چلا گیا ہے۔حکومتوں کی تشکیل بنیادی طورپر اب ”انتخابی بندوبست“ کی وجہ سے ہوتی ہے۔”الیکٹ ایبلز“ اس بندوبست کوتوانا تر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔2018ءکے انتخاب سے قبل ”سیٹی بجی“ تو ان کی اکثریت نواز شریف سے کھسک کر عمران خان کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئی اور اکتوبر2021ءسے ان کی عمران سے علیحدگی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اب عمران خان اور ان کی جماعت انتخابی میدان وعمل کے حوالے سے مکمل طورپر تنہا ہیں۔ان کے مخالف ووٹ مگر مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔انہیں اب اس طرح یکجاکرنا مقصود ہے جیسے 1988ءکے انتخاب سے قبل پیپلز پارٹی کے مخالف ووٹوں کو IJIکی صورت اکٹھا کیا گیا تھا اور مذکورہ عمل کا آغاز نواز شریف کی منگل کے روز کوئٹہ میں موجودگی سے ہوچکا ہے۔
پاکستان کے تین بار رہے وزیر اعظم بلوچستان میں ”بندوبست دوامی“کی بدولت ابھرے ان ”الیکٹ ایبلز“ کی دلجوئی میں مصروف ہیں جنہوں نے 2017ءمیں ان کی جماعت کی کمر میں چھرا کھونپ کر مسلم لیگ (نون) کی 2018ء کے انتخاب میں شکست یقینی بنائی تھی۔ ماضی کے ”غدار“ اب وفاداری کا یقین دلارہے ہیں اور فضا ایسی بنائی جارہی ہے کہ رقبے کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں مسلم لیگ (نون) اپنے تئیں وہاں کی صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے لئے درکار نشستیں حاصل کرلے۔ یہ ممکن نہ ہوا تو کم از کم وہاں کی واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھرے اور 2017ءمیں اسے الیکٹ ایبلز کی طاقت سے زیر کرنے والی باپ پارٹی سے مل کر صوبائی حکومت بنالے۔بلوچستان کے ”پنج ہزاری“ اور ”دس ہزاری“ گویا نواز شریف صاحب کے حوالے کئے جارہے ہیں۔باقی صوبوں میں کیا گیم لگے گی؟ اس کا جواب جاننے کے لئے چند روز انتظار کرنا ہوگا۔