بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے پر ہائی کورٹ کی جانب سے عائد پابندی برقرار رکھی، جبکہ جنوری کے اہم انتخابات سے قبل سیاسی تناؤ بڑھ رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار کے نمائندہ وکیل احسن الکریم نے بتایا کہ چیف جسٹس عبید الحسن نے اپیل کو خارج کردیا، انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت کے طور پر کالعدم ہے اور اس فیصلے کو آج سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ بذریعہ پلیٹ فارم جماعت اسلامی کے مجالس، ایسوسی ایشن یا کسی بھی سیاسی سرگرمی کے انعقاد پر پابندی ہے، مگر جماعت کے ترجمان اور وکیل مطیع الرحمٰن کے مطابق حکم میں جماعت پر پابندی نہیں لگائی گئی لیکن اراکین کو جماعت کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لینے سے روکا گیا ہے۔
مطیع الرحمٰن نے کہا کہ یہ حکم جماعت اسلامی کو باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں اور ریلیوں سے نہیں روکتا، اس کا تعلق صرف اور صرف ملک کے انتخابی عمل سے ہے۔
اتوار کو شروع ہونے والے دو روزہ ملک گیر ہڑتال میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی اپوزیشن نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ساتھ شامل ہو گئی ہے۔
بنگلہ دیش کی اپوزیشن بشمول بی این پی، جماعت اسلامی اور درجنوں چھوٹی جماعتوں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے 7 جنوری کے انتخابات سے قبل اقتدار چھوڑنے اور غیر جانبدار حکومت کے ذریعے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا، حکومت نے اس مطالبے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
یاد رہے کہ جماعت اسلامی لاکھوں حامیوں کے ساتھ ایک بڑی اپوزیشن جماعت ہے، جس پر 2013 میں اس وقت الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جب ہائی کورٹ کے ججوں نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ ان کے چارٹر نے 17 کروڑ آبادی والے مسلم اکثریتی ملک کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
جماعت اسلامی کو 2014 اور 2018 کے انتخابات میں بھی حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، جس کے بعد اس نے یہ حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔