برطانیہ کے شہر لیسٹر شائر میں رہنے والے 38 سالہ ساجن دیوشی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2020 کے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پہلی بار پیسو انکم یعنی غیر فعال آمدن کے بارے میں سنا۔
اس وقت تقریباً ہر شخص اپنے گھر میں بیٹھا تھا۔ اور اسی زمانے میں دیوشی نے دیکھا کہ بہت سے لوگ فیس بک اور ٹک ٹاک پیجز پر پوسٹس لکھ کر بتا رہے ہیں کہ وہ کس طرح بہت کم یا معمولی محنت سے ہی پیسے کما رہے ہیں۔
دیوشی کہتے ہیں کہ ’مجھے بھی یہ طریقہ پسند آیا کہ بہت کم محنت اور سرمائے سے کاروبار شروع کیا جائے اور پھر اسے خود ہی چلنے دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں وہ تمام کام کر سکتا ہوں جو میرے لیے سب سے اہم تھے اور اس کے ساتھ پیسے بھی کما سکتا تھا۔‘
اسی منصوبے کے تحت دیوشی دفتر سے واپسی پر بچوں کے سو جانے کے بعد تعلیم کے میدان میں کام کرنے لگے۔ ماہرین نے اس طرح کے کام کو غیر فعال آمدنی کا نام دیا ہے یعنی بہت کم محنت سے کمانا۔
’پیسیو انکم‘ کیا ہے؟
’پیسیو انکم‘ یا بیٹھے بٹھائے آمدنی کے بارے میں سمجھاتے ہوئے رانچی میں مقیم ایک سابق بینکر اور مالیاتی مشیر منیش ونود کہتے ہیں کہ ’شروع میں آپ کو تھوڑا فعال ہوکر کوئی کام یا کاروبار شروع کرنا ہوگا اور کچھ دنوں کے بعد آپ کو وہاں سے پیسے ملنے لگتے ہیں۔ اور پھر آپ کو ہر روز اس کے لیے محنت نہیں کرنی ہوتی ہے، آپ کا کام آٹو موڈ میں آ جاتا ہے۔‘
ونود کہتے ہیں کہ ’آپ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مستقبل کے لیے جو دوسری صف (یا سائڈ بزنس) بناتے ہیں اسے غیر فعال آمدن کہتے ہیں۔‘
پہلے یہ کام صرف امیر لوگ ہی کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس جائیداد اور پیسہ ہوتا تھا جسے وہ ریئل سٹیٹ میں لگا سکتے تھے اور اس سے کرایہ کما سکتے تھے یا پھر کسی دوسری جگہ سرمایہ کاری کر سکتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کورونا لاک ڈاؤن کے بعد غیر فعال آمدنی کی پوری تعریف ہی بدل گئی۔ کیونکہ اب نوجوانوں اور خاص کر زیڈ جنریشن (رواں صدی کی نسل) کہلانے والے نوجوانوں نے غیر فعال آمدنی حاصل کرنے کے نئے طریقے دریافت کر لیے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملازمتوں کے چیلنج اور سوشل میڈیا کے اثرات کی وجہ سے غیر فعال آمدن میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
امریکی مردم شماری بیورو کے مطابق امریکہ میں تقریباً 20 فیصد گھرانے غیر فعال آمدنی حاصل کرتے ہیں اور ان کی اوسط آمدنی تقریباً 4200 ڈالر سالانہ ہے۔ اور 35 فیصد ’ملینیلز‘ یعنی نئی نسل بھی غیر فعال آمدن حاصل کر رہی ہے۔
انڈیا میں بھی اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
منیش ونود کے مطابق انڈیا میں غیر فعال آمدن حاصل کرنے والوں کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے کیونکہ بہت سے لوگ اسے چھپاتے ہیں۔
ڈیلائٹ گلوبل کے 2022 کے جنریشن زیڈ اور ملینیئل سروے کے مطابق انڈیا میں جنریشن زیڈ کے 62 فیصد اور ملینیئل کے 51 فیصد نوجوان کوئی نہ کوئی سائیڈ جاب کرتے ہیں اور غیر فعال آمدن حاصل کرتے ہیں۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والے پرسنل فنانس ایکسپرٹ کوستُبھ جوشی کا بھی ماننا ہے کہ انڈیا میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے لیکن ان کے پاس بھی اس بارے میں کوئی سرکاری اعدادوشمار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: ’میں نے یہ دیکھا ہے کہ نئی نسل کے نوجوان جب پرسنل فنانس کے لیے آتے ہیں تو وہ پیسہ کیسے لگایا جائے کے بارے میں تو پوچھتے ہی ہیں، اس کے علاوہ وہ غیر فعال آمدن حاصل کرنے کے طریقوں کے بارے میں جاننے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
سوشل میڈیا کا اثر
آپ کو ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر ایسی ہزاروں ویڈیوز مل جائيں گی جو آپ کو یہ بتائیں گی کہ آپ کیسے پیسے کما سکتے ہیں۔
برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی کے بزنس سکول میں پڑھانے والے پروفیسر شنکھا باسو کا کہنا ہے کہ ایسی ویڈیوز کی وجہ سے نوجوانوں میں غیر فعال آمدن حاصل کرنے میں تیزی سے دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ لوگ انفلوئنسرز کو اپنی کامیابی کی کہانیاں سناتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان سے متاثر ہو کر ویسا ہی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ’پھر ان میں سے کچھ لوگ جو کامیاب ہو جاتے ہیں وہ اپنی کہانی سناتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔‘
’جنریشن منی‘ کے بانی اور پرسنل فنانس کے ماہر ایلکس کنگ کا بھی ماننا ہے کہ سوشل میڈیا لوگوں کو یہ باور کرانے میں مدد دے رہا ہے کہ غیر فعال آمدنی حاصل کرنا ناصرف ممکن ہے بلکہ مالی آزادی حاصل کرنے کا ایک آسان طریقہ بھی ہے۔
کنگ کا کہنا ہے کہ معاشی صورتحال کی وجہ سے لوگوں نے غیر فعال آمدن حاصل کرنے کے بارے میں زیادہ سوچنا شروع کر دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’پچھلی دہائی میں لوگوں کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ بہت سے نوجوان بہت خراب حالات میں کام کرتے رہے جبکہ بہت سی کمپنیوں کے اوور ٹائم کے حوالے سے سخت قوانین ہیں، آپ صرف چند گھنٹے ہی اوور ٹائم کر سکتے ہیں۔‘
باسو کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روز مرہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے بہت سے نوجوان اب غیر فعال آمدن کی جانب راغب ہوتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق جہاں وہ مرکزی دھارے کی ملازمتوں میں زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں وہاں ان کی آمدنی نسبتا بہت کم ہے۔
کووڈ-19 کی وبا کے بعد نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ انھیں اپنی ملازمتوں میں زیادہ آزادی کی ضرورت ہے اور اسی دوران لوگوں کو غیر فعال آمدنی کے لیے نئی تکنیک اور مہارتیں حاصل کرنے کا وقت اور موقع دونوں ملا۔
کنگ کے مطابق نئی نسل میں یہ عام رائے بن چکی ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کے پاس آمدنی کے ایک سے زیادہ ذرائع ہوں۔
ڈراپ شپنگ
منیش ونود کے مطابق انڈیا میں کچھ لوگ کھانے کا کاروبار کر رہے ہیں اور کچھ بلاگر بن گئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے حصص کی خرید و فروخت شروع کر دی ہے جبکہ کچھ ڈراپ شپنگ سٹورز چلا رہے ہیں۔
اپنی جائیداد کو کرائے پر دینا پیسہ کمانے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ کورونا کے دوران آن لائن کلاسز کا رجحان بہت بڑھ گیا تھا۔
اس دوران بہت سے لوگ ایسے تھے جو کوئی اور کام کر رہے تھے لیکن پڑھانے کا شوق تھا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے لوگوں نے ناصرف اپنا شوق پورا کیا بلکہ آمدنی کا ایک اور ذریعہ بھی بنا لیا۔
اس دور میں بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھیں اور پھر انھیں شائع کرکے پیسہ کمایا۔ منیش ونود کے مطابق یوٹیوب چینل پر کوکنگ کلاسز کے ذریعے بہت سے لوگوں خاص طور پر خواتین نے اپنے شوق کے ساتھ ساتھ بہت پیسہ بھی کمایا ہے۔
منیش ونود کا کہنا ہے کہ کورونا کے دوران لوگوں نے ڈراپ شپنگ کے ذریعے بھی بہت کمایا اور اب یہ بہت مقبول ہو گیا ہے۔
ڈراپ شپنگ ایک جدید آن لائن بزنس ماڈل ہے جس میں بہت کم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں آپ کو نہ تو بہت زیادہ سامان خرید کر گودام میں رکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس بات کی فکر کرنے کی کہ آپ کی پروڈکٹ بکے گی یا نہیں۔
اس میں آپ سپلائر سے سامان لیتے ہیں اور انھیں براہ راست گاہکوں کو بیچ دیتے ہیں۔ آپ کو بس ایک آن لائن سٹور کھولنا ہے۔ آپ کو ان سپلائرز کے ساتھ معاہدہ کرنا ہوگا۔
جیسے ہی آپ کو کوئی آرڈر ملتا ہے، آپ وہ چیز سپلائر سے حاصل کرتے ہیں اور وہ چیز خریدار کو آن لائن بیچ دیتے ہیں۔ سٹاک اور حصص کی تجارت بھی ایک ایسا کاروبار ہے جس سے آپ گھر بیٹھے پیسے کما سکتے ہیں۔
کوستوبھ جوشی کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ پانچ برسوں میں، میں نے دیکھا ہے کہ آن لائن پورٹل، انسٹاگرام، اکاؤنٹس، فیس بک اور یوٹیوب کی مدد سے پیسہ اور آمدن کمائی جا رہی ہے۔‘
’آپ ویڈیو یا مواد کے ذریعے سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی جانتے ہو اسے اپ لوڈ کر کے پیسے کما سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یوٹیوب بہت سے لوگوں کی آمدنی کا پہلا ذریعہ بن رہا ہے، لیکن بہت سے لوگ اسے اب بھی دیگر ذریعہ آمدن ہی سمجھتے ہیں۔‘
انسٹاگرام نے نوجوانوں کو ایک آسان طریقہ فراہم کیا ہے، جس میں اگر آپ کا انسٹاگرام ہینڈل بہت اچھا ’پیسا کما رہا‘ ہے تو آپ کسی مارکیٹنگ کمپنی سے رابطہ کر کے ٹری پروموشن بھی کر سکتے ہیں۔
اس طریقہ کار کی مشکلات
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ کام کرتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ خواب ہی رہ جاتا ہے۔ حقیقت میں چیزیں اتنی آسان نہیں ہیں جتنی کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز ظاہر کرتے ہیں۔
دیوشی نے طلبا کے امتحانات میں مدد کے لیے تعلیمی وسائل کی ویب سائٹ شروع کی۔ یہ اتنا آسان نہیں جتنا انھوں نے پہلے سوچا تھا۔ دیوشی کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی پراجیکٹ کو قائم کرنے میں سخت محنت اور وقت لگتا ہے اور پھر بعد میں دیگر ذرائع آمدن آنا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔ اس لیے صرف غیر فعال آمدن حاصل کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہا جا رہا ہے۔‘
کنگ کا کہنا ہے کہ ’بہت سے انفلوئنسرز برے ارادوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایسے کورسز بیچ کر پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ آمدنی تو کماتے ہیں لیکن دیکھنے والے نہیں۔‘
ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ کامیاب مثالوں کو اسی انداز میں لیا جانا چاہیے، لیکن اس کے باوجود اس کے لیے کچھ مواقع موجود ہیں۔
اگر زیادہ لوگ دوسرے ذرائع سے آمدنی حاصل کرتے ہیں، تو نوجوانوں کے لیے پیسہ کمانے کے ذرائع میں تبدیلی آئے گی۔۔۔ باسو کہتے ہیں کہ ’ڈیجیٹل کاروبار کو بند کرنا زیادہ نقصان دہ نہیں ہے۔۔۔سوچ بدل گئی ہے۔۔۔ یہ صرف امیروں کے لیے نہیں۔۔۔ یہ سوچ بدل رہی ہے کہ پیسہ کمایا جاسکتا ہے۔‘
احتیاط
دیگر ذرائع آمدن کا رجحان بڑھ رہا ہے اور بہت سے لوگ اس کی وکالت بھی کر رہے ہیں۔ لیکن کوستوبھ جوشی اس بارے میں محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب لوگ دوسرے ذرائع آمدن کو پیسہ کمانے کے لیے اپنی آمدنی کا اہم ذریعہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، تو یہ درست نہیں ہے۔‘
’میں نے بہت سے لوگوں کو اپنے دفتری کام کو نظر انداز کر کے اپنے دیگر ذرائع آمدنی پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتے دیکھا ہے، یہ کوشش غلط ہے۔ یہ آپ کی آمدنی کے دونوں ذرائع کو متاثر کر سکتا ہے۔‘
ایک اور اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ ’دیگر ذرائع آمدنی حاصل کرنا ان دنوں ہر کسی کی خواہش ہے، لیکن اگر آپ اس میں اپنا بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں اور اپنے اور اپنے خاندان کے لیے وقت نہیں نکال پا رہے ہیں، تو نوجوانوں کو توجہ دینی چاہیے۔ پیسہ کمانا آپ کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے، لیکن یہ آپ کا حتمی مقصد نہیں ہونا چاہیے۔‘