ہیڈلائن

افغان پناہ گزین: ’یہ بھی نہیں پتا کہ افغانستان میں ہمارا گھر کہاں ہے، پاکستان کو ہی اپنا گھر سمجھتے تھے‘

Share

’میری پیدائش پشاور کی ہے۔ میرے والد افغانستان میں جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تھے۔ اب میں شادی شدہ ہوں اور میرا اپنا ایک بیٹا بھی ہے۔ میں کبھی افغانستان نہیں گیا بلکہ اب تو ہمارا افغانستان میں کوئی ہے ہی نہیں۔۔۔‘

پشاور میں مزدوری کرنے والے ایک افغان نوجوان شاکراللہ (فرضی نام) کو ڈر ہے کہ ’پولیس ان دنوں پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کی پکڑ دھکڑ کر رہی ہے۔ ایک کارروائی کے دوران پولیس نے مجھے بھی روکا اور مجھ سے شناختی دستاویزات طلب کیں۔ میں نے اپنا پی او آر (پروف آف ریزیڈنس) کارڈ دکھایا مگر پھر بھی وہ بہت سختی سے بول رہے تھے۔‘

’کارڈ دیکھ کر اہلکاروں نے پوچھا گھر میں کتنے لوگ ہیں؟ میں نے کہا کہ 15 افراد۔ پولیس اہلکار نے پوچھا کہ کیا سب کے پاس کارڈ ہیں؟ میں نے کہا ہاں سب کے پاس کارڈز ہیں۔ وہ مجھے سر سے پاؤں تک دیکھتے رہے اور پھر مجھے جانے دیا۔‘

شاکراللہ گھر گھر سے کچرا اٹھانے کا کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کی ملک بدری کی مہم آج کل انھیں خوفزدہ کیے ہوئے ہے اور ان کے مطابق وہ اس سوچ میں غلطاں رہتے ہیں کہ دستاویزات ہونے کے باوجود کیا وہ پاکستان میں رہ پائیں گے یا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کا مصدقہ دستاویز (پی او آر کارڈ) ہے لیکن جو صورتحال ہے اس کے باعث مجھے پھر بھی خوف رہتا ہے۔ اردگرد کے علاقوں میں پولیس چھاپے مارتی ہے، ہر جگہ پولیس نظر آتی ہے۔ وہ چیکنگ کرتے ہیں۔ پی او آر کارڈ ہونے کے باوجود دل میں ایک انجانا سا ڈر رہتا ہے۔‘

شاکر اللہ کا خاندان گذشتہ 44 سال سے پاکستان میں مقیم ہے اور ان کے مطابق اب سے کچھ عرصہ پہلے تک وہ پاکستان کو ہی اپنا ملک سمجھتے تھے۔

شاکر اللہ کو ایک بڑا خوف یہ ہے کہ کہیں اس مہم کے اگلے مرحلے میں افغان کارڈ رکھنے والوں کو بھی پاکستان سے نکل جانے کا نہ کہہ دیا جائے۔

’میرے والد یہاں آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ وہ خود کبھی افغانستان واپس نہیں گئے۔ ہمیں تو کچھ بھی معلوم نہیں کہ افغانستان میں ہمارا گھر کہاں ہے۔ ہم تو پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔‘

افغان پناہ گزین، پاکستان
،تصویر کا کیپشنافغانستان میں طورخم سرحد کے قریب افغان پناہ گزینوں کو عارضی خیموں میں رکھا گیا ہے

سوا دو لاکھ کے لگ بھگ افغان شہری واپس جا چکے ہیں

حکومتِ پاکستان نے رواں برس ستمبر میں ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو 31 اکتوبر تک رضا کارانہ طور پر اپنے اپنے ملک واپس جانے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ یہ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد یکم نومبر سے ایسے تمام افراد کے خلاف کارروائی جاری ہے جو کسی قسم کی قابل قبول دستاویز نہیں رکھتے۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے حکام کے مطابق اب تک دو لاکھ 23 ہزار سے زیادہ افغان شہری اپنے وطن واپس جا چکے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد ان افغان شہریوں کی ہے جو رضا کارانہ طور پر پر واپس گئے تاہم چند ایسے بھی ہیں جنھیں بعدازاں گرفتار کر کے ملک بدر کیا گیا۔

محکمہ داخلہ کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا انخلا جاری ہے اور پشاور کے مختلف تھانوں کی حدود سے 492 غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو پولیس نے حراست میں لے کر افغان سرحد پر بھیجا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ہفتے کے اختتام تک مجموعی طور پر 223503 افراد براستہ طورخم واپس اپنے وطن جا چکے ہیں جن میں 63157 مرد، 49397 خواتین اور 110948 بچے شامل ہیں۔

افغان پناہ گزین، پاکستان

پولیس کا کریک ڈاؤن اور خوف

اس وقت پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے خلاف پولیس کا کریک ڈاؤن جاری ہے۔ پولیس حکام کے مطابق اس مہم کے دوران اہلکار ہر اُس جگہ چھاپے مار رہے ہیں جہاں پولیس کو خبر ہوتی ہے کہ یہاں غیر قانونی طور پر غیرملکی مقیم ہیں۔

اس نوعیت کی کارروائیوں کے دوران گرفتار ہونے والے افغان شہریوں کو ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت سرحد پر واقع مختص مراکز میں لایا جاتا ہے جہاں کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد انھیں افغانستان روانہ کر دیا جاتا ہے۔

شاکر اللہ کے مطابق جب ابتدا میں حکومت نے اس مہم کا اعلان کیا تھا تو وہ زیادہ پریشان نہیں ہوئے کیونکہ وہ قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ غیرملکیوں پر پولیس کے کریک ڈاؤن اور چھاپوں کے باعث اب ان کی پریشانی بہت بڑھ چکی ہے۔

شاکر کہتے ہیں کہ ’ہمارے علاقے بورڈ بازار اور راحت آباد میں بیشتر افغان آباد ہیں، اس لیے پولیس یہاں آتی جاتی رہتی ہے۔ اب سب یہی سوال کر رہے ہیں کہ پتہ نہیں آگے کیا ہو گا۔‘

یاد رہے کہ پاکستان کے نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے مختلف مواقع پر کہا ہے کہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی تعداد 17 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

افغان پناہ گزین، پاکستان

چند ایسے افغان شہری بھی ہیں جن کے پاس فی الحال پاکستان میں رہنے کی کوئی مصدقہ دستاویز تو نہیں مگر وہ اپنی درخواستوں پر فیصلوں کے منتظر ہیں۔

خان محمد (فرضی نام) اپنے اہلخانہ کے ہمراہ پشاور کے ایک پوش علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغانستان سے پاکستان آنے کے بعد انھوں نے امریکی ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا اور انھیں چند روز قبل ہی آگاہ کیا گیا ہے کہ اُن کی ویزے کی دراخواست پر ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔

خان محمد کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کے پاکستان کے ویزے کی معیاد ختم ہو چکی تاہم انھیں امریکی سفارتخانے کی جانب سے انتظار کا کہا گیا۔

وہ بھی اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی جائے۔

تاہم پاکستان میں محکمہ داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ تمام افراد جو افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ویزہ حاصل کر کے پاکستان آئے اور اب ان کے ویزوں کے کیس مختلف سفارتخانوں میں زیر التوا ہیں، ان کے خلاف اس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا جب تک متعلقہ ایمبسی ان کے ویزوں کا فیصلہ نہیں کر دیتی۔

افغانستان میں 2021 میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد بڑی تعداد میں افغان شہری پاکستان آئے تھے۔ اب پاکستانی حکومت کے فیصلے کے بعد ایسے لوگوں کی واپسی کا عمل، اُن کے مطابق، ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

ایک افغان فنکارنے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں کیونکہ اب مالک مکان انھیں کرائے کا گھر خالی کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ ’دستاویز کے نام پر میرے پاس صرف ایک ٹوکن ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں نے رجسٹریشن کے لیے یو این ایچ سی آر میں درخواست جمع کروائی ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اس تاثر کی نفی کی کہ غیرملکیوں کے خلاف جاری مہم کے باعث قانونی طور پر مقیم افراد خوف کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’تمام اہلکاروں سے کہا گیا ہے کہ پالیسی کے مطابق چلیں، کسی کو بے جا تنگ نہ کیا جائے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں ایک پورا عمل ہے اور اگر کسی ایسے شخص کو شک کی بنیاد یا موقع پر دستاویزات نہ دکھانے کی بنا پر حراست میں لیا جاتا ہے، یا جن کے بارے میں شک ہو کہ ان کے دستاویز جعلی ہیں تو ایسے افراد کو سینٹر میں لے جا کر چھان بین کی جاتی ہے اور اگر کاغذات درست ہوں تو انھیں فوری رہا بھی کر دیا جاتا ہے۔

محکمہ پولیس کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق پشاور میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے بارے میں گذشتہ روز ایک اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے اور پولیس کو صوبے میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی فہرستیں فراہم کی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’تشکیل شدہ ٹیموں کو ہدایات کی گئی ہیں کہ تمام اہلکار انتہائی محتاط رہیں اور سروے اور پالیسی کے مطابق پروفیشنل طریقے سے کام کو سرانجام دیں۔ میٹنگ میں واضح کیا گیا کہ ایسی کوئی حرکت یا عمل نہیں کرنا، جو پالیسی کے خلاف ہو۔‘

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کے کل 43 کیمپس ہیں لیکن اس وقت بیشتر افغان شہری علاقوں اور دیہاتوں میں آباد ہیں۔

افغان پناہ گزین، پاکستان، کارڈ

پروف آف رجسٹریشن کارڈ کیا ہے؟

یہ کارڈ ان افغان شہریوں کو دیا گیا جو پاکستان میں قانونی طور پر رہ سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں یہ کارڈ رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کی تعداد 1503919 ہے، جس میں 776395 خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی کا کہنا ہے کہ پی او آر کے تحت اس وقت پاکستان میں تیرہ لاکھ افغان رہائش پذیر ہیں۔ ’یہ کارڈ رکھنے والے والے افغان شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ یہ کارڈز اور اگر کوئی اور شناختی دستاویز ہیں تو اپنے ساتھ رکھیں تاکہ اگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار ان سے طلب کریں تو موقع پر دکھائے جا سکیں۔‘

افغان سٹیزن کارڈ کیا ہے؟

پاکستان میں وفاقی کابینہ نے فروری 2017 میں وزارت سرحدی امور کی درخواست پر غیر قانونی طور مقیم غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو رجسٹرڈ کرنے کی منظوری دی تھی۔ ان افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نادرا نے کی تھی اور ان افغان کو افغان سیٹیزن کارڈ جاری جاری کیے گئے تھے۔

یہ کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی تعداد 690778 ہے اور ان میں 307647 افراد خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے ترجمان کے مطابق ایسے افغان شہریوں کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

قیصر آفریدی نے بتایا کہ 2021 میں جب طالبان آئے تو اس وقت کوئی سات لاکھ افغان شہری پاکستان آئے تھے جن میں سے ایک لاکھ افغان دیگر ممالک کی طرف چلے گئے ہیں جبکہ چھ لاکھ کے لگ بھگ افراد اب بھی پاکستان میں مقیم ہیں۔