کمپیوٹرائزڈ اور اسمارٹ موبائل فون کے دور میں اب اگرچہ ڈائریز لکھنے کا رجحان کم ہوا ہے، تاہم اس باوجود بھی لاکھوں لوگ ڈائریز لکھتے ہیں، انہیں اپنی یادداشتیں ڈائریز میں قید کرنا اچھا لگتا ہے۔
اگرچہ عام طور پر لوگ چیزوں اور یادوں کو قید رکھنے کی غرض سے ڈائریز لکھتے ہیں، تاہم بعض ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ اس عمل سے ذہنی اور مدافعتی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
زیادہ تر برطانوی ماہرین صحت کا خیال ہے کہ ڈائریز لکھنا ایک طرح سے اسپیچ تھراپی کا کام کرتی ہیں اور اس سے بظاہر انسان کی ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔
ساتھ ہی بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سے مدافعتی نظام بھی بہتر ہوتا ہے کیوں کہ لکھنے کے عمل سے انسان کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع ملتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ میں شائع مضمون کے مطابق زیادہ تر برطانوی ماہرین کا ماننا ہے کہ لکھنے کا عمل اور خصوصی طور پر ڈائریز لکھنے سے ذہنی اور مدافعتی صحت بہتر ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈائریز کو انسان جذباتی اور ذہنی لگاؤ سے لکھتے ہیں اور وہ اچھی یادیں، باتیں اور واقعات لکھنا چاہتے ہیں جس وجہ سے مذکورہ عمل سے نہ صرف یادداشت بہتر ہوسکتی ہے بلکہ اس سے ذہنی تناؤ بھی کم ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لکھنا اور خصوصی طور پر ڈائریز کی صورت میں لکھنے سے انسان کو ڈپریشن اور پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ڈائریز میں انسان ہر وقت بات یا قصہ لکھتا ہے جو وہ کسی دوسرے شخص کو سنانا چاہ رہا ہوتا ہے لیکن کسی کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوپاتا، اس لیے ڈائریز لکھنا کسی سے بات کرنے کے برابر ہوسکتا ہے اور اس سے انسان کے جذبات بہتر ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی طرح ڈائریز کو پڑھنے سے بھی بعض افراد کے جذبات بہتر ہو سکتے ہیں اور نہ صرف ان کا ڈپریشن کم ہوسکتا ہے بلکہ ان کا مدافعتی نظام بھی اچھا ہو سکتا ہے۔
تاہم ماہرین نے لکھنے کی عام عادت کو ذہنی صحت سے نہیں جوڑا، یعنی مثال کے طور پر جو افراد کتابیں لکھتے ہیں، ان کی ذہنی اور مدافعتی صحت کس طرح بہتر ہوتی ہے، اس ضمن میں کوئی معلومات دستیاب نہیں۔