Site icon DUNYA PAKISTAN

 غزہ پر بمباری میں وقفہ اور نام نہاد مسلم امہ

Share

نام نہاد ’مسلم امہ‘ اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف نہ کرنا چاہے تو میرے پاس اس کا علاج موجود نہیں۔بلھے شاہ والی’مکدی گل‘ مگر یہ ہے کہ غزہ کی پٹی پر گزشتہ 48دنوں سے مسلسل جاری وحشیانہ بمباری میں یہ کالم چھپنے تک جو ’وقفہ‘ شروع ہوگا اس کا اصل کریڈٹ مسلم یا عرب ملکوں کی کسی تنظیم کو نہیں ملے گا۔ مزید لکھنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں نے جان بوجھ کر ’جنگ بندی‘ کی ترکیب استعمال نہیں کی ہے۔ ’جنگ بندی‘ میدان جنگ میں متحرک دو فریقوں کے مابین ہوتی ہے۔8اکتوبر سے مگر غزہ کی پٹی تک محدود ہوئے فلسطینیوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی ہورہی ہے۔ اس سے ایک دن قبل صہیونی بستیوں پر ہوئے حملوں نے اسرائیل کی حکومت کو بوکھلادیا تھا۔ آتش انتقام سے مغلوب ہوکر اس کے جہاز غزہ پر اندھا دھند بمباری میں مصروف ہوگئے۔ آسمان سے مسلسل برستے شعلوں نے 15ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا۔ ان میں سے اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی۔ 9ہزار سے زائد خواتین اور بچے کسی بھی صورت ’میدان جنگ میں متحرک‘ فریق شمار نہیں ہوسکتے۔ اسرائیل مگر انہیں صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کو مصر رہا۔ انسانی جانوں کی ایسی سفاکانہ بے حرمتی جدید دور میں ہوئی کسی جنگ کے دوران کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ مفتوحہ یا مقبوضہ علاقوں کو انسانوں سے ’پاک‘ کردینا دورِبربریت سے مختص کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیل اسی دور میں ڈھٹائی سے لوٹنے میں مصروف رہا اور دورِ حاضر میں ’عالمی ضمیر‘ نامی شے اس کا ہاتھ روکنے کو متحرک نہیں ہوئی۔
تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ نام نہاد اسلامی ممالک سے کہیں زیادہ تعداد میں یورپ کے مختلف ممالک میں مقیم انسان دوست افراد اسرائیل کی مذمت میں سڑکوں پر نکلے۔پاکستان میں اس حوالے سے جو ’عوامی احتجاج‘ ہوئے ان میں شامل افراد کی تعداد اور توانائی میری دانست میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ دیانت داری سے اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ کئی دہائیوں سے مسلم امہ کے خود ساختہ ’مامے‘ بنے پاکستانیوں کی اکثریت 7اکتوبر کے بعد سے مناسب حد تک ’گفتار کے غازی‘ بھی کیوں نہیں بن پائی۔
بہرحال کسی اور موضوع پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے میں آج کے کالم میں اصرار کرنا چاہوں گاکہ غزہ پر نازل ہوئے عذاب میں چار دنوں کا جو وقفہ یہ کالم لکھنے کے دن شروع ہوا ہوگا وہ بنیادی طورپر مسلم امہ کے کسی ادارے یعنی عرب لیگ یا او آئی سی کی کاوشوں سے نصیب نہیں ہوا۔ اس کا بندوبست فقط ایک ملک یعنی قطر کی انفرادی پیش قدمی سے ہواہے۔ قطر دنیا کے دس امیر ترین ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔روس اور ایران کی طرح دنیا میں گیس کے ذخائر اس ملک کے پاس موجود ہیں۔اس کی قیادت نے گیس کی ترسیل کے نظام کو جدید ترین بناتے ہوئے عالمی منڈی میں گیس کے اجارہ دار کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ اقتصادی اعتبار سے خود کو مستحکم کرنے کے لیے قطر نے 1990ءکی دہائی سے بہت مہارت کے ساتھ خود کو عالمی سیاست کا اہم ترین کردار بنانے کی گیم لگائی۔ خلیجی ممالک عموماً ’میڈیا دشمن‘تصور کیے جاتے تھے۔ قطر نے مگر ا لجزیرہ کے نام سے ایک ٹی وی چینل کا اجراءکیا۔ چند ہی دنوں میں وہ مصر سے عمان تک پھیلے عرب عوام کے حقیقی جذبات کا ترجمان بن گیا۔
میڈیا کی بدولت دنیا کو اپنی اہمیت کا احساس دلانا انگریزی میں اپنی معاشی قوت اور سیاسی اثر کو سافٹ یعنی نرم بلکہ ’نیویں نیویں‘ رہ کر اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ’الجزیرہ‘ ٹی وی نے قطر کو یقینا اس تناظر میں مو¿ثر ترین ملک بنادیا ہے۔میڈیا کے ذریعے پیغام رسانی کے علاوہ قطر نے خود کو ’دہشت گردی کا حامی‘ کہلائے جانے کے خوف میں بھی مبتلا نہیں کیا۔ اس کے سفارت کار بلکہ مسلم دنیا میں ’مذہبی انتہا پسند‘ کہلاتی تنظیموں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔اسی باعث صدر ٹرمپ کے عہد اقتدار میں جب امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا فیصلہ کرلیا تو قطر کے دارالحکومت دوحہ ہی کو طالبان سے مذاکرات کے لیے چنا گیا۔ پاکستان وہاں مذاکرات کے لیے بلایا محض ایک کردار ہی رہا جبکہ 1994ءسے امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیں طالبان کا ’واحد سرپرست‘ ٹھہراکر ہماری ریاست پر دباﺅ بڑھاتے رہے تھے۔
طالبان کی طرح قطر حماس کے کلیدی رہ نماﺅں سے بھی مسلسل رابطے میں رہا ہے۔ ان روابط کی بدولت ہی وہ تن تنہا حماس کا تقریباً نمائندہ بن کر 7اکتوبر سے امریکہ سے طویل مگر خفیہ مذاکرات میں مصروف رہاجس کے نتیجے میں بالآخر اسرائیل کو وحشیانہ بمباری میں وقفہ دینے کو مجبور کیا گیا ہے۔جس وقفے کا وعدہ ہوا ہے اس کے دوران مصر سے غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے قافلوں کو داخلے کی اجازت ہوگی۔ مجھے کامل یقین ہے کہ انسانی امداد کے قافلوں کو ’راہداری‘ مہیا کرنے کے عوض ان دنوں آئی ایم ایف کے شکنجے میں آیا مصر تیل و گیس سے مالا مال قطر سے بھاری بھر کم امداد کی صورت ’بھتہ‘ وصول کرے گا۔ ’انسانی ہمدردی‘ مفت فراہم نہیں کی جائے گی۔ ’اسلامی یکجہتی‘ بھی اس تناظر میں کسی کام نہیں آئے گی۔
قطر اور امریکہ کا اصل امتحان مگر ’وقفے‘ کے دوران ہی شروع ہوجائے گا۔چار دن کا وقفہ غزہ کی پٹی میں بجلی،پانی اور پٹرول جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاءکی فراہمی کے نظام کو بحال کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ وہاں قائم ہسپتال بھی کھنڈر بنادیے گئے ہیں۔غزہ کی پٹی میں انسانی زندگی معمول کے مطابق بنانے کے لیے کامل جنگ بندی درکار ہے۔اسرائیل اس کے لیے اس وقت تک رضا مند نہیں ہوگا جب تک صہیونی بستیوں سے اٹھایا ہر مغوی خیروعافیت سے اسے لوٹا نہ دیا جائے۔ مغوی ہوئے افراد کے بدلے حماس اپنے بے شمار قیدیوں کو بھی اسرائیلی جیلوں سے باہر نکلواسکتی ہے۔ اس کے بعد بھی لیکن دائمی امن کا قیام ممکن نظر نہیں آرہا اور اس پہلو پر سوچتے ہوئے میرے دل میں گھبراہٹ کے علاوہ کوئی اور جذبہ نمودارہی نہیں ہورہا۔

Exit mobile version