’پاکستان۔۔۔ ایریکا رابن اپنے ملک اور دنیا بھر میں خواتین کے لیے مساوی مواقع اور بہتر تعلیم تک رسائی کے حقوق کی حامی ہیں۔ 25 سالہ ایریکا میوزک اور سفر سے دلچسپی رکھتی ہیں اور وہ ایل سلواڈور میں یہاں کی ثقافت، کھانوں اور فطرت سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔‘
ستائش سے بھرپور ان الفاظ اور تالیوں کی گونج میں پاکستانی ماڈل اور فیشن آئیکن سمجھے جانے والی ایریکا رابن مس یونیورس کے سٹیج پر بھرپور اعتماد کے ساتھ پُروقار انداز میں چل رہی تھیں۔
مس یونیورس کے مقابلے کی دوڑ میں اس سال کل 90 حسینائیں حصہ لے رہی ہیں۔ مس یونیورس کے مقابلے کے مختلف سیگمنٹ کے بعد اب اس کا فائنل ایل سلواڈور میں 18 نومبر کی شام کو منعقد ہو گا تاہم وقت کے فرق کے باعث پاکستانی ناظرین اس کو 19 نومبر کی صبح دیکھ سکیں گے۔
اس سے پہلے مقابلے کے دوران مس یونیورس کے ’فل ایوننگ گاؤں سیگمینٹ‘ میں ایریکا رابن نے سفید اور سلور رنگ کا گاؤن پہن رکھا تھا اور سر کو نیٹ کے جھلماتے دوپٹے سے ڈھکا ہوا تھا۔
ایل سلواڈور میں جاری مس یونیورس کے مقابلوں میں موجود ایریکا رابن ’مِس یونیورس‘ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔
اس سیگمنٹ میں ایریکا کے لباس کو ’نمبر ون‘ کا نام دیا گیا جسے ایریکا نے اپنی پہچان بھی قرار دیا ہے۔ انسٹا گرام اکاونٹ پر انھوں نے اس لباس کی وضاحت میں لکھا ہے کہ ’نمبر ون میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ میں اپنے پیارے ملک پاکستان کی ایک فیصد اقلیت سے تعلق رکھتی ہوں جو ہمارے پرچم میں سفید رنگ کی علامت ہے۔‘
ایریکا کے مطابق ’میں پہلی مس یونیورس پاکستان بنی ہوں اور یہاں کھڑا ہونا اور اپنی کمیونٹی کی آواز بننا میرے لیے باعث فخر اور اعزاز ہے۔‘
اپنی کمیونٹی کی آواز بننا باعث فخر اور اعزاز
میسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ایریکا رابن مس یونیورس کے مقابلے میں حصہ لینے اور مس یونیورس پاکستان کا خطاب حاصل کرنے پر بہت پرجوش ہیں۔ اس حوالے سے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر انھوں نے لکھا ہے۔
’جب میں چھوٹی تھی تو میں ہمیشہ مس یونیورس کے مقابلوں کو دیکھ کر سوچتی تھی کہ پاکستان کی کوئی خاتون اپنی نوعیت کے شاندار اولمپکس میں شامل کیوں نہیں ہو سکتی لیکن مجھے اس بات کا بھی دل سے یقین ہے کہ کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘
’اب مس یونیورس پاکستان کا خطاب حاصل کرنے اور اپنے پلیٹ فارم کو اچھی اور مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کرنے پر مجھے پکا یقین ہو گیا ہے کہ خواب سچ بھی ہوتے ہیں۔‘
ایریکا رابن امریکہ میں جاری مس یونیورس 2023 کے مقابلے کے مختلف مراحل میں پاکستان کی ثقافت کو بھرپور اجاگر کر رہی ہیں۔
پاکستان کی ثقافت کے رنگوں سے سجے دیدہ زیب ملبوسات
مس یونیورس کے نیشنل کلچرل شو کے دوران ایریکا رابن کو چولی اور گھاگرا میں دیکھا جا سکتا ہے اور سیاہ اور آتشیں گلابی اس لباس کے ساتھ لمبا روایتی دوپٹہ بھی زیب تن کیے ہوئے ہیں۔
اس دوران بڑا سا ہتھ پنکھا اٹھائے جب ایریکا سٹیج پر گھومیں تو ان کے بالوں کا پراندہ اور اس میں سجے زیور پاکستان کی مختلف ثقافتوں کے رنگا رنگ اور دلفریب انداز سے دنیا کے سامنے لے کرلائے۔
خوبرو ایریکا کے پروقار انداز اور دیدہ زیب ملبوسات کی دھوم سوشل میڈیا پر بھی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر مشک نامی صارف نے نہ صرف ان کے سفید گاؤن کو سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی ان الفاظ سے کی۔
’ایریکا تمام ملبوسات میں بہت حیرت انگیز دکھائی دی ہیں لیکن سفید گاؤن میں پریوں کی مانند لگ رہی ہیں اور اس کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔‘
عائشہ مغل نامی صارف نے ایریکا کی نمائندگی کو پاکستان کے لیے قابل فخر قرار دیا۔
’مس یونیورس کے مقابلے میں ہماری پہلی مس پاکستان کو ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ ہم اپنی لڑکیوں کی اسی طرح سپورٹ اور مدد کر سکتے ہیں جس طرح ہم بین الاقوامی مقابلوں کے دوران اپنے مردوں کی حمایت کرتے ہیں۔
کفتان سے مماثلت لیے باوقار سوئمنگ سوٹ
ایریکا کو خواتین سمیت تمام حلقوں سے دنیا بھر سے پزیرائی مل رہی ہے اور اس کی وجہ پاکستان جیسے روایت پسند معاشرے سے نکل کر ان کا مقابلہِ حسن میں حصہ لینا ہے تاہم مبصرین کے مطابق انھوں نے ہر سیگمنٹ میں ملبوسات کا بہترین استعمال کر کے پاکستان ہی نہیں دنیا کو حیران کر دیا۔
ایسے ہی ایک سیگمینٹ میں جب حسیناؤں نے سوئمنگ سوٹ زیب تن کیے تو وہیں ایریکا نے کافتان سے مماثلت رکھنے والا ہلکے گلابی رنگ کا سوئمنگ سوٹ پہنا جس میں ان کا جسم مکمل ڈھکا ہوا تھا۔
ایریکا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ان کے سوئمنگ کے اس لباس نے ان لوگوں کو جواب دے دیا ہو جو ان کے منتخب ہونے پر سخت مخالفت کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ مقابلے سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایریکا رابن نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں مردوں سے بھرے ایک کمرے میں سوئمنگ سوٹ میں پریڈ کر رہی ہوں گی۔‘
ایریکا کو اپنے ہی ملک میں مخالفتوں کا سامنا رہا
یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان کے قدامت پسند سمجھے جانے والے معاشرے میں کسی خاتون نے حسن کے ان بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا ہو۔
ایریکا کے لیے مس یونیورس کے مقابلوں تک پہنچنے کا یہ سفر کچھ آسان نہ تھا اور اس کے لیے ان کے خلاف اس وقت سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں جب وہ ان مقابلوں کے لیے منتخب ہوئیں۔
مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والی ایریکا رابن کو مالدیپ میں منعقد ہونے والے ابتدائی مقابلوں کے آخری مرحلے میں منتخب ہونے والی پانچ خواتین میں سے ’مس یونیورس پاکستان‘ منتخب کیا گیا تاہم اس خبر کے سامنے آنے پر ایریکا کو اپنے ہی ملک میں مخالفتوں کا سامنا رہا۔
پاکستان میں مذہبی رجحان کی حامل سمجھے جانے والی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے سینیٹرمشتاق احمد نے انھیں ’شرمناک‘ قرار دیا تو وہیں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ ان کے ’بے باک‘ اقدام پر خصوصاً پاکستانی مردوں کے بیچ آن لائن ہونے والی چہ مگوئیاں بھی بہت خطرناک رہیں۔
ایریکا رابن جہاں اس انتخاب کو اپنے لیے اعزاز سمجھ رہی ہیں وہیں وہ اس پر پاکستان میں اٹھنے والے شدید ردعمل پر بہت حیران بھی ہیں۔
انھوں نے اپنے چند ماہ قبل اپنے منتخب ہونے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے پاکستان کی نمائندگی کر کے انتہائی خوشی ملی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنا شدید ردعمل کہاں سے آ رہا ہے۔‘
کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی سکول اور گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس کی گریجویٹ ایریکا اس بات پر قائم ہیں کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ایریکا رابن نے مزید بتایا تھا کہ زوم پر ہونے والے مقابلے کے دوسرے سلیکشن راؤنڈ کے دوران ان سے اس ایک چیز کا نام بتانے کو کہا گیا جو وہ اپنے ملک کے لیے کرنا چاہتی تھیں۔
’اور میرا ان کو جواب تھا کہ میں اس ذہنیت کو بدلنا چاہتی ہوں کہ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے۔‘