مجھے ہنسنا ہنسانا پسند ہے لیکن کچھ لوگوں کاہنسنا ہنسانا دیکھ کر مرثیہ گوئی کوجی چاہنے لگتا ہے۔ ایک صاحب ہیں جو کسی معمولی سی بات پر ہنستے ہیں اور پھر ہنستے چلے جاتے ہیں۔ ان کا مخاطب انتظار کرتا ہےکہ ان کی ہنسی ختم ہو تو وہ بات آگے بڑھائے۔ لیکن ان کے آدھے جملے پر یہ صاحب پھر سے ہنسنا شروع کر دیتے ہیں اور اتنا ہنستے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے۔جس پر وہ دھوتی کا پلو اتنا اوپر اٹھا کر آنکھیں صاف کرتے ہیں کہ دوسرے ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ایک اور صاحب کو میں جانتا ہوں جو قسطوں میں ہنستے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ ہنس چکے ہیں لیکن ایک جھٹکے کی کیفیت کے ساتھ وہ دوبارہ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ مخاطب کو بات جاری رکھنے کے لئے پوچھنا پڑتا ہےکہ بھائی صاحب اگر آپ ہنسنے سے مکمل طور پر فارغ ہو چکے ہوں تو برائے کرم مطلع فرمائیں تاکہ گفتگو کا باقی حصہ بھی پیش خدمت کیا جا سکے۔ایک صاحب کے ہنسنے رونے کا انداز ایک ہی ہے یعنی وہ جس لے میں روتے ہیں اسی لے میں ہنستے بھی ہیں۔ پہچان اس لئے بھی مشکل ہو جاتی ہےکہ دونوں صورتوں میں ان کی آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے انہیں کئی دفعہ بے تکلف دوستوں کی محفل قہقہہ میں ’’رونے‘‘ کی وجہ سے ٹھاپیں پڑ چکی ہیں اور کئی جنازوں میں ہنسنے پر انکی پٹائی ہو چکی ہے۔ انکی مظلومیت کا یہ عالم ہےکہ ایسے موقع پر وہ لاکھ وضاحت کریں مگر ان کی سنتا ہی کوئی نہیں ہے۔ایک دوست تو ایسے بھی ہیں جو اپنا بھاڑ سا منہ کھول کر قہقہہ لگاتے ہیں اور یہ قہقہہ ہوتا بھی طویل دورانیے کاہے۔ ان کا منہ اس وقت تک بند ہی نہیں ہوتا جب تک کوئی مچھر یا مکھی انکے حلق میں نہ چلی جائے۔گزشتہ روز وہ ایک ڈاکٹر سے استفسار کرتے پائے گئے کہ مچھر اور مکھی وغیرہ RED MEATمیں شمار ہوتے ہیں یا وائٹ میٹ (WHITE MEAT)میں کیونکہ ان کے معالج نے انہیں ریڈمیٹ سے پرہیز کرنے کیلئے کہا ہوا ہے۔ہنسنے والوں کے علاوہ کچھ ہنسانے و الے لوگ بھی ہوتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ اپنی حس مزاح کے بل بوتے پر ہنساتے ہیں اور کچھ حس مزاح سے محرومی کی بدولت لوگوں کو ہنسانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مزاح چونکہ نا ہمواری سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مزاح میں یہ ناہمواری بھی مزاح پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے ۔کچھ لوگ لطیفہ سنانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں ان کے خیال میں پرانی شراب اور پرانے چاول کی طرح پرانا لطیفہ بھی بہت لذیذ ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اکثر ایسا لطیفہ سناتے ہیں جس لطیفے کی بھنویں بھی سفید ہو چکی ہوتی ہیں، مہذب سے مہذب شخص کو بھی ایسا لطیفہ پورا سننے کے آخر میں اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دینے کے لئے دل پر پتھر رکھ کر ہنسنے کی اداکاری کرنا پڑتی ہے۔میرے ایک دوست لطیفہ کیا سناتے ہیں پوری الف لیلیٰ لے کر بیٹھ جاتے ہیں ان کا کوئی لطیفہ پندرہ بیس منٹ سے کم دورانیے کا نہیں ہوتا ایک دفعہ تو ان کا لطیفہ کچھ زیادہ ہی لمبا ہوگیا محفل میں موجود ایک صاحب نے اس دوست کو درمیان میں ٹوکا اور کہا ’’آپ یہ لطیفہ مجھے لکھ کر دے دیں میں اسے کتابی صورت میں شائع کروادوں گا۔ایک صاحب اپنی بات پرخود ہی ہنسنا شروع کر دیتے ہیں کئی دفعہ تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں ان کی اس کیفیت پر حاضرین بلکہ ناظرین کے لئے بھی اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوجاتی ہے اور یوں وہ اپنی کوشش میں اکثر کامیاب رہتے ہیں۔گفتگو کے علاوہ ہمارے ہاں چند مزاح نگار بھی ہیں جو اپنی نثر یا نظم کے ذریعے لوگوں کو گدگدی کرتے ہیںپطرس بخاری، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا، شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، سید محمد جعفری، دلاور فگار اور سید ضمیر جعفری تو وفات پا چکے ۔نثر کی بزرگ نسل میں اب کوئی باقی نہیں بچا جنہیں دنیا کے بڑے مزاح نگاروں کے مقابل رکھا جا سکتا ہے۔ انہیں اگر کوئی مات دے سکتا ہے تو وہ اردو اور انگریزی اخباروں کے چند اداریہ نگار ہیں جن کی تحریریں بظاہر سنجیدگی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن درحقیقت وہ ’’مخولیا‘‘ تحریریں ہیں۔یوں طنز و مزاح کی شاعری میں انور مسعود کا کوئی جواب نہیں۔مگر ان دنوں ہنسنے ہنسانے والے دونوں بہت پریشان ہیں۔ حکومتی منصوبوں، وزیروں کے بیانات، سیاسی جماعتوں کےترجمانوں نے انہیں بہت کنفیوژ کیا ہوا ہے ۔انہیں سمجھ نہیں آتی ان پر ہنسا جائے یا رویا جائے، اسی طرح کچھ ٹی وی اینکر ہیں تاہم یہ غنیمت ہیں کیونکہ ان کےتجزیوں اور گفتگوئوں پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے چنانچہ یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ آپ کے دونوں ’’شوق‘‘ ہمارے یہ دوست پورا کر دیتے ہیں۔ ان کی باتوں پر بیک وقت ہنسا اور رویا جا سکتا ہے اس صورتحال سے سب سے زیادہ خوش میرا وہ دوست ہے جو ہنسے یا روئے، دونوں صورتوں میں اس کی آنکھ سے آنسو بہنے لگتے ہیں بلکہ سچ پوچھیں تو ان دنوں پوری قوم کا یہی حال ہے اگر آپ کو قوم ہنستی نظر آئے تو اس کی ہنسی پر نہ جائیں اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو بھی ضرور دیکھ لیا کریں۔ (قند مکرر)