افغانستان میں ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ ان کے پاس فنڈنگ کی قلت ہے، جس کے سبب وہ پاکستان سے آنے والے افغان خاندانوں کی مدد جاری نہیں رکھ سکیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایف پی افغانستان کے کنٹری ڈائریکٹر ہسیو وائی لی نے ایک بیان میں بتایا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام ایک کروڑ افراد کے لیے خوراک کی ہنگامی امداد نہ کرنے پر مجبور ہے، اور اب صرف 5 میں سے ایک کی مدد کرسکتی ہے، جنہیں بقا کے لیے سپورٹ کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے کنٹری ڈائریکٹر نے بتایا کہ صورتحال سنگین ہے کیونکہ چند ہفتے بعد سخت سردی آ جائے گی اور ملک پہلے ہی زلزلوں کے تباہ کن اثرات، خراب معیشت اور بگڑتے موسمیاتی بحران سے متاثر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار کرکے آنے والے زیادہ تر خاندان بھوکے ہیں، اور انہیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام ان تمام فیملیز کو بسکٹس اور نقدی فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ خوراک و دیگر اشیائے ضروریہ خرید سکیں، مزید کہا کہ نومبر میں ڈھائی لاکھ افراد کی مدد کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں فوری طور پر 2 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان سے واپس افغانستان آنے والے دس لاکھ افراد کی مدد کی جاسکے اور وہ موسم سرما گزار سکیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ یہ خاندان ایسے بدترین وقت میں واپس آ رہے ہیں اور اس ملک میں انہیں تاریک مستقبل کا سامنا ہے، جہاں ایک تہائی افراد کو نہیں پتا کہ ان کی اگلی خوراک کہاں سے آئے گی۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی نے بتایا کہ بغیر دستاویز کے 13 لاکھ افغان شہری پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، تقریبا 7 لاکھ 20 ہزار اور رضاکارانہ واپس آنے والے 50 ہزار افراد کو جولائی 2024 تک سرحد پر امداد کی ضرورت ہونے کی توقع ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق حالیہ ہفتوں میں واپس آنے والے افراد کی تعداد میں اضافے نے ان کے محدود وسائل پر دباؤ بڑھا ہے۔