میرے پسندیدہ سائنسی تجربوں میں سے ایک میں چار گھڑیوں کے ساتھ دو بار دنیا کا چکر لگایا گیا۔
سنہ 1971 میں ماہر طبیعیات جوزف ہافیلے اور ریچرڈ کیٹنگ اپنے ساتھ ایک کمرشل پرواز پر اٹامک گھڑیاں لے گئے۔ اٹامک گھڑیاں اتنی مستحکم ہوتی ہیں کہ یہ تین کروڑ سال میں صرف ایک سیکنڈ پیچھے رہتی ہیں۔
ان گھڑیوں کے ساتھ پہلے مغرب اور پھر مشرق کی طرف سفر کیا گیا۔ وہ بعد میں انھیں واپس واشنگٹن ڈی سی میں اپنی لیب میں لے آئے۔
انھوں نے اِن اٹامک گھڑیوں کا موازنہ اُن گھڑیوں کے ساتھ کیا جو سارا وقت ایک ہی جگہ پر موجود تھیں مگر اِن گھڑیوں کا وقت ایک جیسا نہیں تھا۔ سفر کرنے کے عمل نے بظاہر وقت کے گزرنے پر اثر ڈالا۔
یہ تجربہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹیویٹی) کے بنیادی اصول کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے تحت ٹائم یونیورسل یعنی یکساں نہیں۔
آپ جتنا تیز سفر کریں گے، آپ کے لیے وقت اتنا ہی آہستہ سے چلے گا۔
اگر آپ طیارے کے ذریعے لندن سے نیویارک جاتے ہیں تو آپ کی گھڑی زمین پر چھوڑی گھڑی کے مقابلے میں ایک سیکنڈ کا ایک کروڑواں حصہ پیچھے ہوتی ہے۔ فرق بہت کم ہوتا ہے لیکن بہرحال آپ کی عمر اس سے کہیں زیادہ آہستہ ہو جائے گی اگر آپ گھر پر رہتے ہیں۔
ایک اور پیشگوئی کہتی ہے کہ کشش ثقل کا بھی وقت پر اثر ہوتا ہے۔ زمین کے کشش ثقل کی کھینچ سے جتنا دور جایا جائے وقت کی رفتار تیز ہوتی جاتی ہے۔ یہ ہمارے جسم پر بھی اثر کرتا ہے، جس کا مطلب ہے ہمارے سر کی عمر پیروں سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بار پھر بات وہی ہے کہ اثر بہت کم ہوتا ہے لیکن جب زمین سے فاصلہ بہت دور ہو جاتا ہے تو یہ فرق اہم ہو جاتا ہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود زمین ایک بڑی کائنات میں ایک چھوٹا سیارہ ہے۔ بلیک ہولز کے گرد ایسی بڑی اشیا ہیں جن کی کشش ثقل کے کھینچنے کی قوت کسی بھی سیارے سے بہت زیادہ ہے اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے اضافیت کے اثرات کہیں زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔
فرض کریں کہ آپ بلیک ہول میں گر رہے ہیں (فرض کریں کہ آپ کسی جادوئی طیارے میں ہیں جو آپ کو ’سپیگیٹیفیکیشن‘ کے اثر سے بچا لیتی ہے یعنی جو چیزیں بلیک ہول کے قریب آتی ہیں وہ سپیگیٹی کی طرح کِھچ جاتی ہیں)
جیسے جیسے آپ بلیک ہول میں گر رہے ہوتے ہیں آپ اپنے قریب میں زیادہ فرق نہیں دیکھتے۔ آپ کی گھڑی اور آپ کی نبض چلنے میں آپ کو زیادہ فرق محسوس نہیں ہو گا۔ ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ آپ اپنی زندگی کے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہوں گے۔
اگر آپ کے طیارے میں ایسا آلہ ہے جو آپ کو بلیک ہول سے باہر کائنات کو دیکھنے کی سہولت دے تو آپ ایک عجیب چیز دیکھیں گے۔ آپ دیکھیں گے واقعات بہت تیزی سے گزر رہے ہوں گے۔
اگر آپ کے طیارے میں ایسا آلہ ہے جو آپ کو بلیک ہول سے باہر کائنات کو دیکھنے کی سہولت دے تو آپ ایک عجیب چیز دیکھیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ واقعات بہت تیزی سے گزر رہے ہوں گے۔
اگر آپ زمین کو ٹیلی سکوپ سے دیکھیں گے تو آپ زمین اور انسانوں کا مستقبل دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہوں گے، ایسے لگے گا کہ آپ تیز رفتار سے چلنے والی فلم دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ کو زمین سے کسی ٹی وی چینل کا سگنل ملے تو آپ دنیا کے اختتام تک سارے پروگرام دیکھ سکیں گے۔
اس کے ہٹ کر فرض کریں کہ آپ بلیک ہول سے محفوظ فاصلے پر ایک سپیس سٹیشن ہر ہیں اور آپ اپنے ساتھی کو بلیک ہول میں گرتے دیکھ رہے ہیں۔
آپ زیادہ عجیب چیز دیکھیں گے، اگر وہ آپ کی جانب ہاتھ ہلائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے وہ بلیک ہول کے قریب جائیں گے، ان کے ہاتھ ہلانے کی رفتار آہستہ سے آہستہ ہوتی جائے گی۔ سپیس سٹیشن سے باہر لگائی ہوئی گھڑی اس کے اندر لگی ہوئی گھڑی کے مقابلے میں آہستہ چل رہی ہوگی۔
اس اثر کو ہالی وڈ کی فلم ’انٹرسٹیلر‘ میں دیکھایا گیا ہے جہاں خلاباز بلیک ہول کے قریب ایک سیارے پر جاتے ہیں اور انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران کائنات ان کے بغیر آگے بڑھ گئی اور اس سوال کی منطق نہیں بنتی کہ وقت بلیک ہول کے قریب یا دور ٹیک والا وقت ہے، نظریہ اضافیت کے مطابق ’درست‘ وقت جیسی کوئی چیز نہیں۔
ہم باہر سے تو یہ نہیں دیکھ سکیں گے لیکن بلیک ہول میں گرنے والا ہمارا ساتھی جب بلیک ہول کے اس مقام تک پہنچ جائے گا جہاں سے واپس آنا ناممکن ہوگا اور اس سے آگے یہ مسافر بلیک ہول کے درمیان میں کھینچا جائے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ ان کا وقت کا تجربہ بنیادی طور پر تبدیل ہو سکتا ہے، وہ شاید ماضی اور مستقبل میں جانے کے قابل بھی ہوسکتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ بلیک ہول سے باہر ہماری عام زندگی میں ہم اپنی مرضی سے خلا کے تینوں ڈائمینشنز میں چل سکتے ہیں لیکن چوتھی ڈائمینشن میں مسلسل ہم آگے ہی چلتے ہیں جو کہ وقت ہے لیکن بلیک ہول کے کنارے پر جس مقام سے واپس آنا ممکن نہیں ہوتا، چیزیں الٹی ہوتی ہیں۔
اس کے اندر خلاباز مسلسل خلا میں بلیک ہول کے مرکز کی جانب صفر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ خلاباز ماضی یا مستقبل میں جانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
اس لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ بلیک ہول ایک ٹائم مشین کی طرح ہو سکتا ہے جو اس میں داخل ہو گا۔ وہ اس لمحے جب وہ بلیک ہول میں داخل ہوا وہاں سے لے کر ماضی میں جب بلیک ہول وجود میں آیا وہاں تک کا سفر کر سکے گا۔
لیکن اس سب میں مسئلہ یہ ہے کہ جتنا ہم اس سب کو سمجھ سکے ہیں بلیک ہول کے اندر جانے والا وہاں سے باہر نہیں نکل سکتا لہذا مستقبل سے کوئی بھی شخص اس طریقے کا استعمال کر کے ہمارے پاس زمین پر نہیں آ سکتا۔
لیکن جو کچھ ممکن ہے اس کو سمجھنا ماہر طبیعیات کو آئن سٹائن کے نظریات کے انتہائی درست ٹیسٹ فراہم کر سکتا ہے، اور ’وقت‘ کہلائے جانے والی چیز کو مزید گہرائی سے سمجھنے کا باعث بن سکتا ہے۔