بذاتِ خود ذات کا رپورٹر ہونے کا دعوے دار ہونے کے باوجود اعتراف کرتاہوں کہ سہیل وڑائچ اس شعبے کی مبادیات مجھ سے بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔عاجزی کے ساتھ اپنائے میٹھے انداز کی بدولت وہ دوسروں کو کھل کر بات کرنے کو مائل کردیتے ہیں۔بولنے سے زیادہ سنتے ہیں اور یوں اپنی رائے بنانے سے قبل ”خبر“ ڈھونڈ لیتے ہیں۔گزشتہ چند دنوں سے وہ طویل وقفے کے بعد تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں۔ان سب کا کلیدی پیغام میری دانست میں یہ ہے کہ عمرا ن خان کو پاکستانی سیاست سے ”مائنس“ کرنے میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔موصوف اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ہماری نوجوان نسل کی کماحقہ تعداد میں بے چینی کی آتش بھڑکا چکے ہیں۔ ریاستی جبر اس آتش کو محض وقتی طورپر دباسکتا ہے۔بہتر یہی ہوگا کہ عمران خان کی خودپرستی اور کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان سے مکالمے کی گنجائش نکالی جائے۔
سہیل وڑائچ نے تواتر سے یہ پیغام دینا شروع کیا تو مسلم لیگ (نون) کے طرحدار نثرنگار اور اردو کے مستند استاد عرفان صدیقی صاحب خفا ہوگئے۔سہیل کو ایک کالم کے ذریعے عمران دور کے وہ تمام ہتھکنڈے یاد دلائے جو سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ مجھ ایسے دوٹکے کے رپورٹر کا مکوٹھپنے کے لئے بھی نہایت سفاکی سے استعمال ہوئے تھے۔عرفان صاحب بھی اس دور میں ایک بودے الزام کے تحت گرفتار کرلئے گئے تھے۔جیل میں انہیں اس تاریک گوشے میں مقید رکھا گیا جو عادی مجرموں کے لئے مختص ہوتا ہے۔شعر ونثر کی دنیا میں تمام عمر کھوئے رہے استاد کو ہتھکڑی لگاکر بے رحم عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔مذکورہ کالم کے ذریعے عرفان صاحب نے عمران خان کے حوالے سے ”جیسی کرنی ویسی بھرنی“ والی حقیقت یاد دلانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ اصرار یہ بھی کیا کہ عمران خان نے اصل بیر یعنی دشمنی نواز شریف سمیت وطن عزیز کے کسی سیاستدان سے مول نہیں لی بلکہ ہماری ریاست کے ایک طاقت ور دائمی ادارے کو للکارا ہے۔ ان کے ساتھ معافی تلافی کی گنجائش نکالنا کسی سیاستدان کے بس سے باہر ہے۔ عرفان صاحب کے جوابی کالم کے جواب میں سہیل وڑائچ نے ایک اور کالم لکھ دیا اور یوں ان دونوں کے مابین ”کالمی جنگ“ چھڑگئی۔ اس جنگ کی بدولت مجھ ریٹائر ہوئے رپورٹر نے آج کی سیاست سے جڑے کئی بنیادی سوالات کو ان کے جواب ڈھونڈے بغیر کم از کم بخوبی جان لیا۔ وہ ”جنگ“ اگرچہ کچھ طے کئے بغیر اب تھم چکی ہے۔
پیر کی صبح تاہم سہیل وڑائچ نے ایک اور کالم لکھ کر پنجابی محاورے والا ”نیا کٹا“ کھول دیا ہے۔ ان کی ذات میں متحرک رپورٹر یہ محسوس کررہا ہے کہ وطن عزیز کی ”مقتدر“ کہلاتی قوتیں فی الوقت اپنی تمام تر توجہ پاکستان کے معاشی استحکام پر مرکوزرکھنا چاہ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ پر ٹھوس عمل داری کے بعد اب خلیجی ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری یقینی بنانے کی کاوشیں ہورہی ہیں۔ ان کی بدولت عام پاکستانی کی زندگی آسان ہوسکتی ہے۔پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے شہباز حکومت نے جو ہنگامی اقدامات لئے تھے انہوں نے ملک میں دیہاڑی دار ہی نہیں بلکہ متوسط طبقے کا جینا بھی محال بنادیا تھا۔آئی ا یم ایف کے ساتھ معاہدے کی بدولت بحالی کا عمل شروع ہوا۔نگران حکومت اس میں تیزی لے رہی ہے۔ ”مقتدرہ“ نے پوری قوت کے ساتھ اسے ڈالر کی قیمت مستحکم رکھنے کے قابل بنایا اور اب خلیجی ممالک کو معاشی اعتبارسے مستحکم ہوئے پاکستان میں بھاری بھر کم سرمایہ کاری کو مائل کیا جارہا ہے۔
سہیل وڑائچ میں موجود رپورٹر کا خیال تھا کہ مقتدرکہلاتی قوتیں یہ محسوس کررہی ہیں کہ ملکی معیشت کی بحالی اور اسے خوش حالی کے راستے پر ڈالنے کا جو سفر شروع ہوا ہے انتخابی عمل اسے سبوتاژ کرسکتا ہے۔آئندہ انتخاب کے لئے تاہم 8فروری 2024ءکی تاریخ طے ہوچکی ہے۔انتخاب البتہ اس تاریخ پر ہی منعقد کروانا پڑے تو ملک ایک بار پھر سیاسی کش مکش اور عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔اسی باعث طاقت ورحلقوں میں یہ سوچاجارہا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب آئندہ برس کے اگست ستمبر تک موخر کردئے جائیں۔
پیر کی صبح چھپے جس کالم کا میں ذکر کررہا ہوں اس کا عنوان ”کھلاڑی“ پر توجہ دلاتا تھا۔ سہیل وڑائچ نے تاہم ”کھلاڑی“ کا ذکر اپنے کالم کے اختتامی حصے میں کیا۔انتخاب موخر ہونے کے امکان کی بنیادی وجہ تو معاشی استحکام کی تمنا ہی بتائی مگر بالآخریہ ”راز“ بھی کھول دیا کہ مقتدر کہلاتی قوتوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ کھلاڑی اور اس کی جماعت کو آئندہ انتخابات میں ناکام کیسے دکھانا ہے۔ مجھ جاہل کو سادہ ترین الفاظ میں نہایت ہوشیاری سے سہیل وڑائچ یہ کہتے سنائی دئے کہ پاکستان کو اب قومی اور صوبائی اسمبلیاں تشکیل دینے والے انتخاب فقط اس صورت نصیب ہوسکتے ہیں اگر کھلاڑی اور اس کی جماعت کی شکست ان میں یقینی (اور قابل اعتبار) دکھائی دے سکے۔
سہیل وڑائچ کے کالم سے اپنے تئیں یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بعد مجھے جنرل ضیائ کے بیان کردہ ”مثبت نتائج“ یاد آ گئے۔جولائی 1977ءمیں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد انہوں نے ”نوے روز میں“ نئے انتخابات کا وعدہ کیا تھا۔اس کے بعد مگر اس فکر میں مبتلا ہوگئے کہ نئے انتخاب ان کے وعدے کے مطابق ہوگئے تو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت دوبارہ برسراقتدار آجائے گی۔انتخاب سے پہلے لہٰذا ”احتساب“ کا تقاضہ ہوا اور قوم کو امید دلائی گئی کہ انتخاب فقط اسی صورت ہوں گے جب ان کے نتائج کا ”مثبت“ ہونا یقینی نظر آئے۔
اپریل 1979ءمیں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل قرار دلواکر پھانسی پر لٹکوادیا۔یہ سارا عمل لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی بدولت ہوا۔ بھٹو کو پھانسی دلوانے کے باوجود جنرل ضیائ انتخابات کروانے کو رضا مند نہ ہوئے۔”مثبت نتائج“ کے حصول کے لئے 1985ئ تک انتظار کیا۔ اس برس بھی جو انتخابات کروائے وہ ”غیر جماعتی “بنیادوں پر منعقد ہوئے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ جنرل ضیاءکے لئے ان انتخابات کے نتائج بھی ”مثبت“ ثابت نہ ہوئے کیونکہ ان ہی کے نامزد کردہ محمد خان جونیجو نے خود کو سچ مچ کا اور بااختیار وزیر اعظم سمجھنا شروع کردیاتھا۔
کھلاڑی کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم نہیں ہوا۔موصوف کے خلاف جو مقدمات بنائے اور چلائے جارہے ہیں وہ ہماری سیاسی تاریخ کے تناظر میں مضحکہ خیز تو ہیں مگر انہونے نہیں۔نواز شریف کی طرح وہ سپریم کورٹ کی ازخود کارروائی کے ذریعے سیاسی عمل میں حصہ لینے کے نااہل بھی قرار نہیں پائے ہیں۔کھلاڑی اور اس کی جماعت کو لہٰذا انتخابی اعتبار سے بے اثر بنانے کے لئے مقتدر کہلاتی قوتوں کو ان برسوں سے تقریباََ دوگنا وقت درکار ہوگا جو جنرل ضیاءاور ان کے ہم نوا?ں کو ”مثبت“ نتائج کے حصول میں گزارنا پڑا تھا۔
یہ کہنے کو مجبورہوں کہ اگر اب کی بار ”مثبت“ نتائج کے حصول یعنی عمران خان کی انتخابی شکست یقینی بنانے کے لئے انتظار کا سلسلہ شرو ع ہوگیا تو آئندہ انتخابات 2024ءکے اگست ستمبر میں بھی نہیں ہوپائیں گے۔اس امر کو یقینی بنانے کے لئے مگر ”آدھا تیتر-آدھا بٹیر“ والا جھانسہ بھی برقرار نہیں رہ پائے گا۔وطن عزیز کو 1958ءمیں لوٹنا ہی پڑے گا۔