میرے کئی مخلص دوستوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ عرفان صدیقی سے میرا ’’کالمانہ مباحثہ‘‘ نہیں بنتا۔ ان کی رائے ہے کہ ایک تو اس طرح کی بحث میری افتادِ طبع کے خلاف ہے اور دوسرا انکی رائے ہے کہ عرفان صدیقی صاحب اپنی پارٹی کے ترجمان ہیں جبکہ آپ صحافی ہیں آپ تو جو چاہے آزادانہ رائے دے سکتے ہیں لیکن عرفان صدیقی صاحب پارٹی پالیسی کے پابند ہیں اور وہ ظاہر ہے وہیں کہیں گے جو ان کے اور ان کی پارٹی کے مفاد میں ہے ایک بے غرض صحافی اور ایک مفاداتی فریق کا مکالمہ بنتا نہیں ہے ان مخلص دوستوں کی رائے صائب ہے لیکن میں عرفان صدیقی صاحب کو پارٹی ترجمان سینئر سابق وزیر اور مستقبل کے سینئر وزیر کے ساتھ ساتھ دانشور بھی سمجھتا تھا اور میرا خیال تھا کہ وہ حق و انصاف کی بات تسلیم نہ بھی کریں تو کم از کم خاموش رہ کر تائید کریں گے مگر افسوس کہ وہ اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ انہیں پارٹی مفاد کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔
اپنے تازہ ترین کالم ’’بوئے خان، کاٹے نواز شریف ‘‘ میں پیر راولپنڈی نے مجھے اور مجھ جیسوں کو ’’مبلغین مفاہمت ‘‘ کا نام دیکر مذاق اڑایا ہے مجھے ان کے طنز کے باوجود یہ خطاب قبول ہے لیکن جواباً اگر انہیں ’’مبلغ محاذ آرائی‘‘ کا خطاب دیا جائے تو انہیں اسے بھی قبول کرلینا چاہئے۔
عرفان صدیقی صاحب لفظوں کی بازیگری اور طعن وتشنیع بھرے استعاروں پر مشتمل کالموں میں کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف، عمران خان سے مصالحت کیوں کرے؟ جبکہ میرا موقف ہے نواز شریف کو وزیر اعظم بن کر اگر کامیاب حکومت چلانی اور سیاسی بحران سے نکلنا ہے تو انہیں عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے عرفان صدیقی صاحب کا استدلال ہے کہ عمران خان کی مقتدرہ سے لڑائی ہے اسلئے عمران جانے اور مقتدرہ جانے، نواز شریف بیچ میں کیوں آئے؟ گویا فاضل دانشور نواز شریف کو 90ء کی دہائی والا تفرقہ باز سیاست دان (PETTY POLITICIAN)رکھنے پر مصر ہیں جبکہ میں چاہتا ہوں کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والا نواز شریف اس دفعہ مدبر سیاست دان STATESMAN کے روپ میں سامنے آئے۔ میرے سامنے فتح مکہ کی مثال ہے کہ جس میں بدترین مخالفوں اور مسلمانوں کے قاتلوں تک کو معاف کر دیا گیا میں سکندر کے پورس سے سلوک کو مثال بنانا چاہتا ہوں جبکہ عرفان صدیقی صاحب نواز شریف کو چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسا انتقام پسند ثابت کرنا چاہتے ہیں جو اپنے مخالفوں کے قتل پر خوش ہوا کرتے تھے۔ تضادستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا ذوالفقار علی بھٹو کو جب مقتدرہ اور عدلیہ مل کر پھانسی چڑھا رہےتھے تو ہمارے محترم عرفان صدیقی جیسے ’’مبلغین محاذ آرائی‘‘ کا خیال تھا کہ اس سے پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان ختم ہو جائے گا لیکن عملاً ہوا کیا؟ پچھلے پندرہ سال سے سندھ میں اسی پارٹی کی حکومت ہے اور آج بھی شہید بھٹو اور شہید رانی کے نام پر ووٹ ملتے ہیں اسی مقتدرہ کو بھٹو کی پھانسی کے بعد تین دفعہ وفاق میں بھٹو کی پارٹی کو حکومت دینی پڑی ہے ثابت یہ ہوا کہ عمران کو جیل بھیجنے ،حتیٰ کہ پھانسی چڑھانےسے اس کا ووٹ بینک ختم نہیں ہوگا اور تو اور نواز شریف کی مثال لے لیں نواز شریف کو مقتدرہ نے 3بار اقتدار سے نکالا ہر دفعہ اس کا ووٹ بینک پہلے سے بڑھا اور ہر بار مقتدرہ کو اس سے صلح کرکے دوبارہ لانا پڑا تاریخ سے یہی سبق مل رہا ہے کہ عمران خان جیل میں رہ کر بھی پاپولر رہے گا۔ عمران خان کی مقبولیت اس دن ختم ہو گی جب اسے سیاسی شکست ہو گی۔ یاد رکھیں کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں تب ختم ہوئی جب گیلانی زرداری حکومت اپنے پانچ سالہ دور میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی۔ عمران خان کے حامیوں کا خیال ہے کہ خان کو مزید موقع ملتا تو وہ سب کچھ بدل دیتا بس اسی آس اور امید پر ان کا ووٹ بینک اب بھی برقرار ہے ۔
عرفان صدیقی صاحب سے عرض ہے کہ محاذ آرائی سے نہ معیشت بہتر ہو گی نہ حکومت چلائی جاسکے گی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے نواز شریف صاحب نے بتایا تھا کہ انکی آخری وزارت عظمیٰ کے دوران ایک دن آرمی چیف جنرل راحیل شریف فائلیں لیکر آئے اور کہا ان فائلوں میں آصف زرداری کے خلاف ثبوت ہیں آپ ان کے خلاف فوراً احتساب شروع کریں ۔بقول میاں نواز شریف اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی تو ملکی معیشت نے چلنا شروع کیا ہے اگر ہم نے یہ شروع کر دیا تو ملکی معیشت پر برے اثرات پڑیں گے۔ گویا میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ سیاسی مخالفوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے سے صرف سیاسی بحران ہی پیدا نہیں ہوتا اس کا ملکی معیشت پر بھی برا اثر پڑتا ہے ۔
میاں صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد کا جو بھی نقشہ بنا رہے ہیں اس میں صلح جوئی اور مفاہمت کو اہم ترین نکتہ ہونا چاہئے میری پہلے بھی رائے تھی اور آج بھی ہے کہ جس طرح میاں صاحب نے جنرل راحیل شریف کو سمجھایا تھا وہ موجودہ مقتدرہ کو بھی سمجھائیں کہ سیاسی بحران اور معاشی بحران تب ہی حل ہونگے جب مفاہمت کا دور چلے گا۔
محاذ آرائی کے وکیلوں کو جان لینا چاہئے کہ عمران خان اور انکی پارٹی کی پہاڑی غلطیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی قبر پر اقتدار کی عمارت کھڑی کی گئی تو وہ ناپائیدار ہو گی بالکل اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی کو ضیاء الحق دور میں دفنا کر جونیجو حکومت لائی گئی کیا وہ چل سکی؟ یا پھر نواز شریف کو نااہل کرکے اور جیل بھیج کر ن لیگ کی قبر کھود کر خان صاحب کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا گیا کیا وہ چل سکے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اکیلا نہیں ہے اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ووٹر ہیں اگر انہیں آزادانہ انتخابات میں مساوی مواقع نہ ملے اور نون لیگ یکطرفہ فتح حاصل کرکے اقتدار میں آ گئی تو کیا وہ حکومت چل سکے گی؟ میری ناقص اور عاجزانہ رائے میں نون کا پارٹی مفاد مقتدرہ کی ہاں میں ہاں ملانا ہے اور یہی کام عرفان صدیقی صاحب کر رہے ہیں حالانکہ انہیں چاہئے کہ جو کچھ ماضی کی مقتدرہ نے ن لیگ اور اسکی قیادت کےساتھ کیا اس سے سبق سیکھیں اور تحریک انصاف اور اسکے کارکنوں کو انصاف دلانے کے لئے آواز بلند کریں مگر ان کا رویہ یہ ہے کہ ہم تو اس میں فریق ہی نہیں ہیں ۔پاکستان کا ہر شہری سیاست میں شریک اور فریق ہے اگر ایک ووٹر یا ایک پارٹی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہےتو یہ سب کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ 75سال کے تجربے کے بعد اب ہمیں بالغ ہو جانا چاہئے اور ایک دوسرے پر محاذ آرائی کی تلواریں چلانے کی بجائے قومی مفاہمت کا راگ الاپنا چاہئے خان صاحب کوبھی لڑائی ترک کرکے ڈائیلاگ کی طرف آنا چاہئے ۔اگر پولیٹکل کلاس نے مفاہمت نہ کی تو یاد رکھئے گا کہ پھر سیاستدانوں کی داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں….