بہت سی وجوہات کی بنا پر لگتا ہے کہ آبنائے باسپورس جو استنبول کو تقسیم کرتی ہے خود ترکی کے دارالحکومت کا ایک استعارہ ہے۔ اس کا پیشرو شہر، قسطنطنیہ، باسپورس کے کنارے سے اٹھ کر رومی، بازنطینی اور عثمانی سلطنتوں کا مرکز بنا، اور تاریخ کی وہ واحد جگہ بنا جو لگاتار مسیحی اور اسلامی سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ اس آبنائے کی بدولت، استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک ایسا ثقافتی اور جغرافیائی پل جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔
اگرچہ بہت سے عثمانی سلطانوں نے باسپورس کے پار ایک اصلی پل بنانے کی تجویز پیش کی، لیکن کشتیوں اور بعد میں فیریز نے شہر کو جوڑنے کا ذمہ اٹھائے رکھا۔ پہلا پل جس نے دونوں براعظموں کو ملایا وہ 1973 تک نہیں بنایا گیا تھا۔ ہر وقت، فیریز آبنائے کے آر پار آتی جاتی رہتی تھیں۔ جو شہر کی متنوع ترک، یونانی، آرمینیائی، عرب، بلغاریائی، یہودی اور روسی آبادی کو آپس میں جوڑے رکھتی تھیں۔
آج، استنبول ایک وسیع و عریض، ایک کروڑ پچپن لاکھ افراد پر مشتمل شہر ہے، جو یورپ میں سب سے بڑا ہے، اور جو چاروں طرف سے آبی گزرگاہوں کے نیٹ ورک سے گھرا ہوا ہے۔ یہ شہر سات پہاڑیوں پر بسا ہوا ہے، جس میں بازنطینی محلات اور خربوزے کے رنگ کی عثمانی مساجد سے لے کر آرمینیائی طرز کے اوپیرا ہاؤسز، اینگلیکن گرجا گھروں اور دھاتی جدید آرٹ میوزیم تک ہر چیز ملتی ہے۔ ایک طرف ریڑھی بان شہر کی پتھریلی گلیوں میں لکڑی کی گاڑیوں کو دھکیلتے ہیں، وہیں ہپسٹر اور سیاح صبح سویرے تک نائٹ کلبوں اور پبوں کے اندر اور باہر گھومتے ہیں۔ یہاں ماضی، حال، یورپ اور ایشیا سب ایک ہیں۔
اپنے منفرد محل وقوع اور بڑے سائز کی وجہ سے استنبول ہمیشہ پانی سے باہر بہترین نظر آنے والی جگہ رہی ہے۔ درحقیقت، شہر کی بہت سی فیریز میں سے ایک کے اوپر والے ڈیک سے ہی آپ شہر کی وسعت کی تعریف کرنا شروع کر سکتے ہیں اور اس میں موجود ثقافتوں کے سنگم کو اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔
یہ زمین پر کھڑے ہو کر سمجھنے کے لیے بہت بڑا ہے۔ لہٰذا، جب کہ بہت سے سیاح استنبول کے تاریخی جزیرہ نما میں قسطنطنیہ کے ہپوڈروم، آیا صوفیہ کی مسجد اور توپکاپی محل کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں، فیری پر سوار ہونے سے نہ صرف آپ کو ان میں سے بہت سے مقامات کے صاف نظارے کا موقع ملتا ہے، بلکہ اس سے زائرین کو یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ کس طرح شہر کا پرتوں والا ماضی اس کے متحرک حال میں فٹ بیٹھتا ہے۔
چونکہ بہت سے سیاح تاریخی طور پر پانی کے راستے استنبول آتے ہیں، اس لیے اس کی فیریز مسافروں کو شہر کے بہت سے مشہور مقامات کو دیکھنے کی اجازت دیتی ہے جیسا کہ وہ کبھی دیکھے گئے ہوں گے۔ ان میں ترکی کے روکوکو طرز کے ڈولمابہس محل کے نظارے، تقریباً 2,400 سال پرانا میڈن ٹاور اور شاندار حیدر پاشا ریلوے سٹیشن شامل ہے۔
استنبول کی فیریز نے بھی شہر کی منفرد ثقافت اور ترقی کو تشکیل دینے میں مدد کی ہے۔ جیسا کہ 19ویں صدی کے وسط میں استنبول کی آبادی میں اضافہ ہوا، 1844 میں عوامی فیریوں کی وجہ سے آبنائے باسپورس، مارمارا سی انلیٹ اور گولڈن ہارن ایسٹوری کے ساتھ ساتھ رہنے والے لوگوں کو استنبول کے مختلف آبی علاقوں کے درمیان آسانی سے سفر کرنے میں مدد ملی۔ 1970 کی دہائی میں جب وسطی اور مشرقی اناطولیہ کے باشندے روزگار کی تلاش میں استنبول کی طرف ہجرت کر گئے تو وہ اپنی مختلف زبانیں اور کھانے پینے کے رسم و رواج کو بھی اپنے ساتھ لے کر آئے، بہت سے پہلی بار شہر کی ایک فیری پر یوروپی براعظم میں داخل ہوئے۔
آج، سیاح ایشیائی گھاٹ کادیکوئے سے یورپی کنارے کاراکوئے تک فیری پر سفر کر سکتے ہیں۔ مشہور گلاٹا ٹاور اور پل کے ساتھ ساتھ، سواری سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح استنبول دنیا کے عظیم ثقافتی مراکز میں سے ایک ہے۔ جہاز پر آپ کو قفقاز کی مختلف زبانوں کے علاوہ یونانی اور آرمینیائی زبانیں سننے کو بھی مل سکتی ہیں۔
فنکار اکثر اپنے دربوکا ڈرموں پر عربی دھنیں بجاتے ہیں، جب کہ کرد موسیقار براعظموں سے گزرنے والے مسافروں کے لیے الیکٹروبالاما پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شاید دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ، یہاں فیری کی سواری آپ کو پوری توجہ کے ساتھ استنبول کی گہری اور متنوع جڑوں کو دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔
فیریز بڑی آسانی سے مسافروں کو دور دراز کے محلوں میں بھی لے جا سکتی ہیں جہاں جانا زمینی راستے سے مشکل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، تاریخی جزیرہ نما سے زمینی راستے کے ذریعے کانلیکا کے خوبصورت ساحلی گاؤں تک پہنچنے میں دو گھنٹے سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن چونکہ کانلیکا کا اپنا فیری کا گھاٹ ہے، جہاں آپ ایک خوبصورت کیفے میں بیٹھ کر علاقے کے مشہور دہی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس دہی کے اوپر باریک چینی ڈالی ہوتی ہے اور اس کا نام بھی کانلیکا دہی ہے۔
مسافر تاریخی جزیرہ نما سے استنبول کی پرہجوم ٹریفک سے بچ کر یہاں صرف ایک گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں۔ بحیرہ مرمرہ میں واقع چاروں پرنسز جزائر کے لیے فی گھنٹہ کے سفر بھی ہیں، جہاں زمینی راستے سے پہنچنا ناممکن ہے۔ وہاں، آپ سائیکل کرائے پر لے سکتے ہیں، تیراکی کے لیے جا سکتے ہیں اور تلی ہوئی مچھلی کھا سکتے ہیں اور سونف کے ذائقے والی راکی (ترکی کا قومی مشروب) پی سکتے ہیں اور شام سے پہلے پہلے شہر بھی واپس آ سکتے ہیں۔
برسوں کے سفر کرتے ہوئے مسافروں نے شہر کی فیریز پر اپنی طور طریقے اور ردھمز بھی تیار کیے ہیں۔ اگر آپ صبح سواری کریں تو امکان ہے کہ آپ کو فیریز پر سوار ہونے سے پہلے مسافروں کے ہاتھ میں ایک خاص طرح کا بیگل یا پوگاکا پیسٹری نظر آئے۔ اس کے بعد وہ اجنبیوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور کام کا دن شروع ہونے سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ چائے پیتے ہیں اور اخبارات پڑھتے ہیں۔
ایک مقامی صحافی عادل بالی نے لکھا کہ ’فیریز استنبول کی علامت بنی ہوئی ہیں۔ فیریز نہ صرف مسافروں کو بلکہ معاشرے کی ثقافت، روایات اور عادات کو بھی لے کر چلتی ہیں۔ فیری کی گھاٹ پر سٹریٹ موسیقاروں کا کنسرٹ سننا، فیری کی ریلنگ پر ٹیک لگانا۔۔۔ چائے کی گھونٹ لیتے ہوئے اخبارات یا کتابیں پڑھنا اور استنبول کی پینٹنگ دیکھنا جہاں بگلے ناچتے ہیں، یہ سب اس ثقافت کا حصہ ہیں۔‘
استنبول کی فیریز پر سالانہ تقریباً چار کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں، جو باسپورس کو دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک بناتا ہے۔ لیکن ساحلوں پر کھڑی کئی مساجد اور میناروں کے علاوہ، مسافروں کو ڈولفنز کے گروہ، شیئر واٹر پرندے اور شہر میں ہر جگہ موجود بگلے بھی نظر آتے ہیں۔ پرندے فیریز کے ساتھ ساتھ اڑتے رہتے ہیں اور وہ کشتیوں کے ساتھ اس قدر جڑ گئے ہیں کہ فیری چلانے والی کمپنی سحر ہٹلاری نے اپنے لوگو پر بگلوں کے سیاہ، سفید اور ان کی چونچ کے پیلے رنگ کو اپنایا ہے۔
مقامی ٹور گائی آئسے گل ایلف سوفوگلو کہتے ہیں کہ ’اگر آپ فیری ٹرپ کے بارے میں مقامی رواج کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں، تو اسے شروع کرنے سے پہلے کم از کم دو ’سمٹس‘ (بیگل) خریدنا نہ بھولیں۔ ایک اپنے لیے اور دوسرا بگلوں کے لیے۔ سمٹ کے ٹکڑوں کو پھینکیں اور دیکھیں کہ باسپورس کے بگلے انھیں ہوا میں ہی اڑتے ہوئے کیسے پکڑتے ہیں۔
سیر و تفریح اور جنگلی حیات کو دیکھنے کے علاوہ، استنبول کی فیریز لاجواب لوگوں کو دیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور آپ کو لامحالہ بہت سے لوگ نظر آئیں گے جو استنبول کو اپنا گھر کہتے ہیں۔ ان میں سوٹ بوٹ پہنے ہوئے تاجر، ایرانی سیاحوں کو بندے یا چھلے بیچنے کی کوشش کرتے ہوئے اناطولیہ کے ہاکر، موتیوں کے ہار اور سکارف پہنے ہوئے بوڑھی ترک عورتیں جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوکیز بانٹتی ہیں، اور بہت دوسرے بھی شامل ہیں۔
استنبول کی فیریز میں ہفتے میں کئی مرتبہ سفر کرنے والے یوروک اسیک کہتے ہیں کہ ’بدلتے ہوئے وقت کے باوجود، جیسا کہ معاشرہ ثقافتی مسائل پر تقسیم ہو رہا ہے، نظریاتی طور پر بائیں یا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے، مذہبی یا نہیں، شہر کے باشندوں کے لیے فیریز کی محبت ایک اہم موضوع رہتی ہے۔‘
ایک ایسے شہر میں جہاں سڑکوں پر دکاندار چیخ چیخ پر اپنا مال بیچتے ہیں، باسپورس سے ہارن بجاتے ہوئے گزرنے والے تیل کے ٹینکرز اور ہزاروں مساجد سے روزانہ پانچ وقت آنے والی آذانوں کی اونچی آوازوں کے باوجود فیریز استنبول کے شور سے دھیان سے ہٹانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ حکمت شرلک فیری پر ٹھنڈی ہوا اور نمکین سمندری پانی کا مزہ محسوس کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں۔ انھیں فیریوں سے اتنا پیار ہے کہ انھوں نے شہر کے ایشیائی بینکوں میں جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ کشتی کے ذریعے گرینڈ بازار تک سفر کر سکیں، جہاں وہ قدیم قالین اور غالیچے فروخت کرتے ہیں۔
انھوں نے غروب آفتاب کے ڈھلتے پیلے اور نارنجی رنگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ’لوگ کام پر آتے جاتے وقت عموماً نیچے کی طرف دیکھتے ہیں، لیکن یہاں مجھے اوپر دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔‘
استنبول کی کچھ پرانی اور ناقابلِ استعمال فیریز کو اب کیفے، میوزیم، ہوٹل اور شادی ہال بنا دیا گیا ہے۔ دوسروں کی تزئین و آرائش تاریخی ہیلک شپ یارڈ میں کی گئی ہے، جو 1455 سے فعال ہے اور دنیا کا قدیم ترین ہے۔ اور ایک ایسے شہر میں جہاں واٹر فرنٹ رئیل اسٹیٹ کو ڈویلپرز نے چھین لیا ہے، عوام کے لیے سمندر تک آسان رسائی کے لیے فیریز کے گھاٹ ہی رہ گئے ہیں اور اس کے علاوہ پانی میں بنائی گئی نمائش کی جگہیں اور لائبریریاں۔
کسی بھی یادگار، عجائب گھر یا ٹور سے زیادہ، فیری پر سفر کرنے سے سیاحوں کو نہ صرف استنبول کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بلکہ اس سے پیار ہو جاتا ہے۔ استنبول کی فیری لائن کی سربراہ صنم دیدتاس کا خیال ہے کہ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 200 سالوں سے کشتیوں سے متاثر ہو کر نظمیں، پینٹنگز، ناول، گانے اور فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ ’استنبول کو دریافت کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ فیری پر چڑھیں اور باسپورس دیکھیں۔‘