انڈیا کے ارب پتی تاجر گوتم سنگھانیہ اپنی اہلیہ کو طلاق دیتے ہی اپنی دولت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
ٹیکسٹائل کی صنعت کے جانے پہچانے گوتم سنگھانیہ کو اپنی اہلیہ نواز مودی کو کڑی شرائط کے ساتھ طلاق دینے کے بعد اپنی 75 فیصد دولت سے محروم ہو جائیں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ گوتم سنگھانیہ اور نواز مودی دونوں اپنی ’پبلک لسٹڈ‘ کمپنی ریمنڈ گروپ کے بورڈ ممبر ہیں۔ یہ کمپنی انڈیا کا جانا پہچانا برینڈ ہے۔
گوتم سنگھانیہ کی اہلیہ فٹنس کوچ ہیں جو اپنی لگژری کشتیوں، سپورٹس کاروں اور ذاتی جہازوں میں سفر کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ اب طلاق کے لیے کم شرائط پر راضی ہونے پر تیار نہیں ہیں۔ نواز مودی کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ میڈیا پر ایسی خبروں کی تردید کرتی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ کسی معاہدے کے تحت آمادہ ہونے کے لیے تیار ہیں۔
دونوں خاندانوں کے دو دو افراد ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ 75 فیصد دولت والی بات پر ہی بات ہو رہی ہے۔
ایک ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ نواز مودی کا کہنا ہے کہ گوتم نے متعدد لوگوں، دوستوں، ثالثوں، وکلا اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کے سامنے 75 فیصد دولت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اور اب اس بات سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ذریعے نے مزید بتایا کہ نواز مودی کا اصرار ہے کہ ان کی دو بیٹیوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے دولت کو ایک ایسے ٹرسٹ میں متقل کیا جائے جسے بعد میں ختم نہ کیا جا سکے۔
ریشبھ شیروف ممبئی کی لا فرم سیرل امرچند منگلداس کے پارٹنر ہیں وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کے امیر ترین خاندانوں کی دولت کا 96 فیصد حصہ ٹرسٹس میں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اپنے کاروبار کو دیوالیہ ہونے، خاندان اور قرض دہندہ کے تنازعات سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ طریقہ امیر کاروباری خاندانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔‘
گوتم سنگھانیہ چاہتے ہیں کہ ایسے ٹرسٹ بنایا جائے جس کے واحد ٹرسٹی اور منتظم وہ خود ہوں لیکن نواز مودی نے اس کی مخالفت کی ہے۔
ریشبھ شیروف کہتے ہیں ’بطور غیر جانبدار تیسرے فریق مجھے نہیں لگتا نواز مودی ایسے ٹرسٹ کو قبول کریں گی جس میں اسے کیسے چلایا جاتا ہے اس کے متعلق ان کی رائے یا آواز معنی نہ رکھتی ہو۔ وہ چاہیں گی کہ وہ شریک ٹرسٹی ہوں اور ان کے پاس کچھ مخصوص حقوق ہوں اور اس کے ساتھ انھیں اس سے فائدہ بھی ملے۔‘
نواز مودی کے قریبی ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زیادہ تر کمپنیاں تیسری نسل کے بعد تک قائم نہیں رہتیں۔ ریمنڈ کو پانچویں نسل چلا رہی ہے اور نواز کی خواہش ہے کہ اس میں ان کی بیٹیوں کا مستقبل ہو۔‘
نواز مودی کی یہ بھی خواہش ہے کہ وہ بورڈ کی ممبر رہیں اور انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ان کے شوہر طلاق کے بعد بھی کاروبار کو سنبھالیں۔
گوتم سنگھانیہ کے والد اور معروف کاروباری شخصیت ویجیپت سنگھانیہ نے عوامی سطح پر نواز مودی کی حمایت کی ہے۔
ویجیپت سنگھانیہ نے ماضی میں اپنے بیٹے پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے انھیں 2017 میں اپنے ہی گھر سے نکالا تھا اور انھیں بہت کم پیسوں پر گزارا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ گوتم سنگھانیہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
تعلقات میں دوری
جوڑے کے خراب تعلقات نومبر میں اس وقت سامنے آئے جب نواز مودی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انھیں کمپنی کی دیوالی کی تقریب میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا۔
اس واقعے کے بعد انھوں نے ایک سو سال پرانی ریمنڈ گروپ کے مالک کے خلاف اپنے اور اپنی چھوٹی بچی پر تشدد کے الزامات لگائے۔
گوتم سنگھانیہ نے بی بی سی کو انٹرویو دینے سے انکار کر دیا ہے جبکہ ان کے ترجمان نے بی بی سی کو ان کا بیان دیا جس میں انھوں نے کہا ’میں نے اپنی ذاتی زندگی سے متعلق معاملات کے بارے میں میڈیا میں آنے والی رپورٹس پر تبصرہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اپنے خاندان کے وقار کو برقرار رکھنا میرے لیے سب سے اہم ہے۔‘
سلیبریٹی صحافی سنگیتا ودھوانی کو انٹرویو دیتے ہوئے نواز مودی نے کہا کہ انھیں اپنے خاوند کے ہاتھوں ’شدید دکھ اور چوٹیں‘ ملی ہیں اور دعویٰ کیا کہ انھوں نے ان ریرڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں پولیس کو بلانے کے لیے ایشیا کے سب سے امیر شخص مکیش امبانی کے خاندان سے مدد لینا پڑی۔
ممبئی کے دو محتلف پولیس تھانوں میں گوتم سنگھانیہ کے خلاف تین ایسی شکایات درج کی گئی ہیں جن میں گرفتاری کے لیے وارنٹ اور تحقیقات کے لیے جج کی اجازت چاہیے ہوتی ہے۔
سنگیتا ودھوانی نے بی بی سی کو بتایا کہ چوٹوں کی وجہ سے نواز مودی اپنے کام نہیں کر پا رہیں۔
گوتم سنگھانیہ نے کمپنی کے شراکت داروں اور ملازمین کو ایک ای میل میں بتایا کہ ان مشکل وقتوں میں بھی ریمنڈ میں معمول کے مطابق کام ہو رہا ہے۔
جب یہ تنازعہ پہلی بار منظر عام پر آیا تو کمپنی کے حصص کی فروخت کے لیے شدید دباؤ آیا لیکن اب اس کی قدر میں دوبارہ تیزی آنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن اس کہانی نے ہندوستانی معاشرے کے اعلیٰ ترین گھرانوں میں گھریلو تشدد کے الزامات اور ملک کے سب سے بڑے کاروباری خاندانوں میں کارپوریٹ گورننس میں ممکنہ خامیوں کے بارے میں سخت سوالات اٹھائے ہیں۔
ذاتی تنازعے کے کاروبار پر اثرات
اس ماہ کے آغاز میں یہ تمام تنازعات سامنے آنے کے بعد ریمنڈ کمپنی کے انڈیپینڈنٹ ڈائریکٹر نے بیان دیا تھا کہ وہ اقلیتی شیئر ہولڈرز کے مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈائریکٹرز کے درمیان تنازعات نے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) گوتم سنگھانیہ کی کمپنی کے معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت کو متاثر نہیں کیا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ازدواجی تنازعات کی تحقیقات انڈیپینڈنٹ ڈائریکٹرز کے ’دائرہ کار سے باہر‘ ہیں۔
لیکن کارپوریٹ گورننس اور پراکسی ایڈوائزری فرموں جیسے انسٹیٹیوشنل انویسٹر ایڈوائزری سروس کی طرف سے ریمنڈ کے بورڈ کو لکھے گئے ایک خط میں کیے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا گیا۔
اس میں ان واقعات کی روشنی میں کمپنی پر ممکنہ ذمہ داری کے بارے میں پوچھا گیا ہے اور پوچھا گیا ہے کہ موجودہ تنازعے میں کیا گوتم سنگھانیہ بطور ایم ڈی اور چیئرمین اپنی ذمہ داریاں صحیح سے نبھا سکتے ہیں۔
اس بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ آیا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات موجود ہیں جن کی مدد سے کمپنی کے فنڈز کی حفاظت کی جا رہی ہے۔
نواز مودی نے الزام لگایا ہے کہ ان کے شوہر ذاتی فائدے کے لیے کمپنی کے فنڈز کو استعمال کر رہے ہیں۔ ریمنڈ نے اس الزام پر بی بی سی کو جواب نہیں دیا ہے۔
انسٹیٹیوشنل انویسٹر ایڈوائزری سروسز کی صدر ہیتل دلال کہتی ہیں کہ وہ کمپنی کے جواب سے مایوس ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نواز مودی نے ’وسل بلوئر‘ کا کردار ادا کیا اور ریمنڈ کی آڈٹ کمیٹی کو اس مسئلے کو حل کرنے کا پابند بنایا جائے گا وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتے کہ یہ صرف ایک ازدواجی تنازعہ ہے۔
بورڈ نے برجیس دیسائی کو مشاورت کے لیے غیر جانبدار سینیئر قانونی مشیر تعینات کیا ہے۔ ذریعے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ نواز مودی اس تعیناتی سے خوش نہیں ہیں۔
کمپنی کے شیئرز کی قیمت میں کمی رک گئی ہے لیکن ایک وقت اس میں 20 فیصد کمی آ گئی تھی۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ منڈی کی اعلیٰ سطح کی سرگرمی کی وجہ سے ہوا یا یہ ریکوری بورڈ کے خط کی وجہ سے ہوئی۔
توقع ہے کہ گوتم سنگھانیہ اور ان کی اہلیہ کے درمیان تنازع کاروبار پر لٹکتا رہے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاروباری تقسیم کئی ایسے منظرناموں کا باعث بن سکتی ہے جو شیئر ہولڈرز کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ایک سینئیر کارپوریٹ وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ معاملہ جلد حل ہونے والا نہیں ہے اور گوتم سنگھانیہ کی دولت کا 49 فیصد ریمینڈ میں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کسی کاروباری شخص کے لیے یہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ بنا کچھ بیچے یا کسی سے رقم لیے بنا کاروبار میں اپنے شیئرز کی تعداد کو بھی برقرار رکھ سکے اور دوسری طرف ایک بھاری رقم والا معاہدہ بھی طے کر سکے۔
ہیتل دلال کہتی ہیں کہ کمپنی کو فوری طور پر گوتم سنگھانیہ سے ’خود کو الگ کر کے‘ کاروبار پر حد مقرر کرنی چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ گھریلو زیادتی کے الزام میں چیئرمین کو برقرار رکھنے سے تنظیم کے اندر کارپوریٹ کلچر کے بارے میں بھی وسیع تر سوالات اٹھتے ہیں، بورڈ کو جنھیں حل کرنے کی ضرورت تھی۔
’امیر خاندانوں کا راز ‘
ایک معروف مصنف شوبھا دی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈیا کے امیر ترین خاندانوں میں خواتین پر تشدد کے معاملے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور یہ انڈیا کے کاروباری خاندانوں کا ایک راز ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کیسے حل کیا جاتا ہے اس بارے میں ان کے تحفظات ہیں کیونکہ طاقتور افراد کے پاس بہت سی مراعات حاصل ہوتی ہیں اور وہ اس ملک میں احتساب کے عمل کو خاموش کروا دیتے ہیں۔
کمپنی کے پروموٹر ڈائریکٹرز وہ ہوتے ہیں جو عموماً انڈیا میں کمپنیوں کے حصص کے انتظام کو دیکھتے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بورڈ ممبرز کی تعیناتی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس نے ان کے کمپنی پر اثر رسوخ اور آزادانہ پالیسی کے حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
شوبھا دی کہتی ہیں کہ یہ آسان لڑائی نہیں ہو گی اور طویل چلے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ اس لڑائی میں یہ اہم ہوگا کہ نواز مودی اپنے شرائط منوانے کی کیا طاقت استعمال کرتی ہیں۔ اور انھوں نے ریمنڈ کی ٹیگ لائن کا حوالہ دیتے ہوئے طنزاً کہا کہ ’ایک مکمل مرد کی کہانی مکمل ہی رہے گی۔‘