پنجاب حکومت کے مطابق متحدہ عرب امارات کی معاونت سے پاکستان میں مصنوعی بارش کا پہلا تجربہ لاہور میں کامیاب ہو چکا ہے۔
گذشتہ شب ایک پریس کانفرنس میں نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا تھا کہ ’یہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے ہمارے لیے ایک تحفہ تھا۔ ان کے دو خصوصی جہاز 10، 12 روز پہلے آ چکے تھے، پہلی پرواز میں 48 فلیئرز فائر کیے گئے۔‘
محسن نقوی نے ان خبروں کی تردید کی جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ لاہور میں مصنوعی بارش کے لیے 35 کروڑ روپے کی لاگت آئی۔
انھوں نے کہا کہ ’35 کروڑ والی خبر جعلی تھی۔۔۔ پانی کے چھڑکاؤ کے سوا ہم نے کوئی خاص خرچہ نہیں کیا۔ اگر خرچہ کرنا بھی پڑتا تو میں کرتا کیونکہ لوگوں کی زندگیاں زیادہ اہم ہیں۔‘
اس کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے سموگ سے نجات مل جائے گی۔ ’اس کا مقصد تھا کہ بارش ہونے سے سموگ بیٹھ جائے جس سے پانچ، سات دن تک اس کا اثر رہتا ہے۔‘
پاکستان میں گذشتہ برسوں کے دوران فضائی آلودگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ لاہور کی ایک کروڑ سے زیادہ کی آبادی موسم سرما کے دوران زہریلے سموگ سے بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔
اس سے پلوٹنڈ مائیکرو پارٹیکلز جیسے پی ایم 2.5 میں اضافہ ہوا ہے جو پھیپھڑوں سے خون میں شامل ہو کر کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ لاہور میں سنیچر کے روز اس کی سطح عالمی ادارۂ صحت کی خطرے کی حد سے 66 گناہ سے زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی۔
فضائی آلودگی کی پیمائش کی امریکی ویب سائٹ ایئر ناؤ کے مطابق لاہور میں اس وقت ایئر کوالٹی انڈیکس 306 ریکارڈ کی گئی ہے جس کے باعث صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
’لاہور کے 10 علاقوں میں بارش ہو گئی‘
محسن نقوی نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ متحدہ عرب امارات کی ٹیم اس آزمائش کے لیے کئی دنوں سے موزوں حالات کا انتظار کر رہی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’10، 12 دن سے ایک بھی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ آج صبح بھی لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر تھا، یہ تجربہ کرنا آسان نہیں تھا۔ ہم یو اے ای حکومت، صدر یو اے ای، وفاقی حکومت اور ادارے سب نے ہمیں سپورٹ کیا۔ اور اس کے بعد یہ ممکن ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ اس تجربے سے ’لاہور کے قریب 10 علاقوں میں بارش ہو گئی ہے۔ ہلکی پھلکی بارش ہے۔ اس کے اثرات جلد آ جائیں گے۔ لاہور میں اکثریت جگہوں پر بارش ہو گئی ہے۔‘
’یہ پاکستان کا پہلا تجربہ تھا، یہ کامیاب ہو گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ٹیم نے ایک، ایک چیز پلان کی۔ آج اس کا رزلٹ آ گیا ہے۔ وفاقی حکومت بھی اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے۔ یہ لوگ دبئی میں اکثر یہ کرتے ہیں، ان کے ملک میں سالانہ ہزار مشن بھی ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے تحفہ تھا، ہمارے لوگ ساتھ شامل ہیں۔ ان کا خصوصی جہاز 10، 12 روز پہلے آ گیا تھا۔۔۔
’یہ ایسا تجربہ تھا جو ہمارے لیے ضروری تھا تاکہ آئندہ سموگ کو روکنے میں مدد ملے۔‘
ساتھ ہی انھوں نے اعلان کیا کہ ’اگلے چند ہفتوں یا مہینوں میں‘ شہر میں سموگ ٹاور بھی نصب ہو جائیں گے۔
مصنوعی بارش کے تجربے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کلاؤڈ سیڈنگ پہلے شاہدرہ اور مریدکے میں کی جائے گی ’کیوںکہ لاہور کی طرف بادل آ رہے ہیں، اسے اثر کرتے کرتے گھنٹہ لگتا ہے۔ انھوں نے ایک، ایک چیز کی کیلکولیشن کی ہوئی ہے کہ کدھر جا کر وہ فائر کریں گے جس سے بادلوں پر اثر آئے گا اور لاہور میں بارش ہو گی۔ بڑا ٹیکنیکل کام ہے۔‘
دوران پریس کانفرنس محسن نقوی سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے لاہور میں سڑکوں کی دھلائی کی، اس سے ایئر کوالٹی پر کس قدر فرق آیا۔ اس پر محسن نقوی نے جواب دیا کہ ’رات کو دھلائی بڑے وسیع پیمانے پر ہو رہی تھی۔۔۔ (اگلے دن) صبح میں نے چیک کیا، اس ٹائم ہم 250 پر آ گئے تھے۔ ان چیزوں سے فرق پڑتا ہے لیکن ہم نے تو اسے 100 سے بھی نیچے لے کر جانا ہے۔ وہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘
مصنوعی بارش کے مضر اثرات کی تردید کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں سالانہ اس کے ایک ہزار مشن ہوتے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی امریکہ سمیت دنیا بھر میں استعمال ہوتی ہے۔ ’اگر یہ صحت میں خرابی کا باعث ہوتا تو دنیا میں کوئی ملک اس کو استعمال نہ کرتا۔‘
مصنوعی بارش کا ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ مشن کیا ہے اور اس سے کتنا فرق پڑتا ہے؟
کلاؤڈ سیڈنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس سے بادلوں کے بخارات کو بارش میں تبدیل کرنے کی رفتار بڑھائی جاتی ہے اور موسم میں یہ مصنوعی تبدیلی لانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے ایسے بادلوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو ممکنہ طور پر شدید بارش کا باعث بن سکیں۔
خصوصی جہاز کی پرواز وہاں کی جاتی ہے جہاں بادلوں سے ٹربیلنس پیدا ہوتی ہے۔ وہاں پہنچ کر ایسے کیمیائی مادے خارج کیے جاتے ہیں جن سے چین ری ایکشن ہو۔ اس سے بادل غیر مستحکم ہوتا ہے اور جہاز کو فوراً وہاں سے باہر نکالنا پڑتا ہے۔
طیاروں یا دیگر ڈیوائسز کی مدد سے بادلوں پر نمک (سلوور آئیوڈائیڈ یا کلورائیڈ) کے چھڑکاؤ سے بادلوں میں آئس کرسٹل بنتے ہیں۔ بادلوں میں موجود نمی ان آئس کرسٹلز کو بارش میں بدل دیتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اوسط چار گھنٹوں کی پرواز کے دوران 24 کلاؤڈز کو ’سیڈ‘ کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں ہلکی پھلکی بارش بھی فضائی آلودگی میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ طریقہ ہمیشہ کارگر ثابت ہو۔
فضائی آلودگی اور صحت کے محقق پولاش مکھرجی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی حالات آپ کے اہداف کے عین مطابق ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ’بادلوں میں نمی کی بالکل ٹھیک مقدار ہونی چاہیے تاکہ آئس کرسٹل بن سکیں۔‘ انھوں نے دلی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ہوا کی رفتار جیسے عوامل بھی اہم ہوتے ہیں جن میں سال کے اس حصے کے دوران کافی رد و بدل آتا رہتا ہے۔
انڈیا میں اس کا پہلا تجربہ 1952 میں کیا گیا تھا۔ 1960 کی دہائی کے دوران امریکی فوج نے ویتنام کے علاقوں میں فوجی سامان کی ترسیل روکنے کے لیے متنازع طور پر یہ تکنیک استعمال کی تھی۔
چین، متحدہ عرب امارات اور بعض انڈین ریاستیں قحط جیسی صورتوں میں بھی کلاؤڈ سیڈنگ کی آزمائش کرتی ہیں۔