تحریک انصاف کی انتخابات کے لیے حکمت عملی
8فروری 2024ء کے انتخاب کے لیے اتوار کی شام کاغذات نامزدگی داخل کرنے کاعمل مکمل ہوا تو میرے وسوسوں بھرے دل میں خدشہ ابھرنا شروع ہوگیا کہ تحریک انصاف انتخابی عمل کو درحقیقت احتجاجی تحریک میں بدلنا چاہ رہی ہے۔ اسے یقین ہے کہ مقتدر کہلاتی قوتیں عمران خان کو اقتدار میں لوٹتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتیں۔ ان سے جند چھڑانے کے لیے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کے ساتھ کچھ ’بندوبست‘بھی طے ہوچکا ہے۔ مبینہ طورپر جو ’بندوبست‘ طے ہوا ہے وہ تحریک انصاف کے دیرینہ مداحوں کو ان دنوں کارفرما ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس کو ’سبوتاژ‘ کرنے کے لیے لہٰذا پنجابی محاورے کا ’کھیڈاں گے نا کھیڈن دیاں گے‘ والا حربہ اختیار کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔
کاغذات نامزدگی جمع کروانے میں کامیاب ہونے والوں کی فہرست کا بغور جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ 2013ء سے ہم تحریک انصاف کی صف اوّل کی جس قیادت کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں متحرک دیکھتے رہے ہیں ان کی نمایاں تعداد اگر کسی اعترافی پریس کانفرنس یا ٹی وی انٹرویو کے ذریعے ’توبہ تائب‘ کا اظہار نہیں کر پائی تو عملی طورپر اب بھی روپوش ہے۔ مراد سعید، عمر ایوب خان اور حماد اظہر اس ضمن میں فوری طورپر میرے ذہن میں آئے۔ سپریم کورٹ سے سائفر کیس میں ضمانت کے حصول کے باوجود شاہ محمود قریشی کا غذات نامزدگی جمع کروانے کے دن تک جیل ہی میں تھے۔ عمران خان کی رہائی دیگر مقدمات کی وجہ سے فی الحال ممکن نہیں۔ یہی عالم چودھری پرویز الٰہی کا ہے۔
شاہ محمود قریشی سے کہیںزیادہ چودھری پرویز الٰہی انتخابی حکمت عملی تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ 1985ء سے نوازشریف نے انھیں پنجاب کی بلدیاتی سیاستدان میں اپنی ترجیح کے نتائج حاصل کرنے کے لیے کھلاہاتھ دے رکھا تھا۔ اس طرح جب بھی 1990ء کی دہائی میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کے خلاف ضمنی انتخاب ہوئے تو ان کے لیے امیدوار کے چنائو کے علاوہ انتخابی مہم کی قیادت بھی پرویز الٰہی کے ہاتھ ہی میں رہی۔ ان کے علاوہ شاہ محمود قریشی کی قید اور دیگرصف اوّل کے قائدین کی روپوشی نے تحریک انصاف کی مقامی قیادت کو وسیع تر تناظر میں تجربہ کار رہنمائوں کی لمحہ بہ لمحہ رہنمائی سے محروم کررکھا ہے۔
اپنے خلاف چلی تندوتیز ریاستی قوت کی ہوا کا سامنا کرنے کے لیے تحریک انصاف نے نظر بظاہر یہ حکمت عملی تیارکی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تقریباً ہر حلقے سے اس جماعت سے وابستہ کارکن زیادہ سے زیادہ تعداد میں انتخاب میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے پر توجہ دیں۔ کاغذات نامزدگی جمع کروانے والے بے تحاشا حامی اور کارکن تقریباً گم نام ہیں۔ ریاستی کارندوں کی ’توجہ‘ سے ’اب تک‘ محفوظ بھی۔ ان کی بے پناہ تعداد کاغذات نامزدگی کے حصول میں کامیاب رہی اور وہ انھیں جمع کروانے سے روکنے کے لیے’چھینا جھپٹی‘ جیسے واقعات سے بھی بچ گئے۔ اسی باعث ایک محتاط ترین اندازے کے مطابق اتوار کی شام تک کاغذات نامزدگی جمع کروانے والے امیدواروں کی سب سے زیادہ تعداد تحریک انصاف سے تعلقی رکھنے والی نظر آرہی ہے۔ یہ تعداد بالآخر24سو کی حد بھی پارکرگئی۔
میرے چند باخبردوست یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ تحریک انصاف کی جانب سے بھاری بھرکم تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی حکمت عملی درحقیقت ’چکوال‘ میں تیار ہوئی ہے۔ چونکہ میں اس دعویٰ کی تصدیق کے حصول میں اب تک کامیاب نہیں ہوپایا اس لیے فقط ’چکوال‘کہنے تک محدود رہوں گا۔ یہ لکھنے کے بعد البتہ اعتراف کرنا ہوگا کہ مذکورہ حکمت عملی جس نے بھی تیار کی وہ دادکا مستحق ہے۔ فرض کیا کہ قومی اسمبلی کے کسی ایک حلقے کے لیے تحریک انصاف سے وابستہ افراد کے اوسطاً دس افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیںتو ان میں سے تین سے چار سکروٹنی کا عمل مکمل ہوجانے کے بعد انتخاب میں حصہ لینے کے حقدار ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت ان میں سے بالآخر ایک کو انتخابی نشان الاٹ کرے گی اور اس امیدوار کا مقابلہ وسطی پنجاب کے کئی حصوں میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں ون آن ون ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ بے شمار حلقوں میں تحریک انصاف کا امیدوار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ان دو جماعتوں کے علاوہ جے یو آئی اور اے این پی مقابلے میں بھی تنہاکھڑا نظر آئے۔ تحریک انصا ف کے ووٹ یوں ’یکجا‘ رہیں گے جبکہ اس کا مخالف ووٹ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوا نظر آئے گا۔ اس حقیقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کامیابی کی جانب بڑھتی نظر آئے گی۔
تحریک انصاف نے یہ منصوبہ بھی بنارکھا ہے کہ پولنگ کے روز اس سے وابستہ نوجوانوں کی کثیر تعداد واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے ہمہ وقت متحرک رکھی جائے۔ وہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں تحریک انصاف کے پرچم لہراتے ہوئے موٹرسائیکلوں پر نکالے جلوسوں کو مصروف ترین سڑکوں پر رواں رکھیں۔ یوں بصری اعتبار سے یہ تاثر پھیلایا جائے کہ نوجوانوں کو بھرپور انداز میں متحرک رکھنے کی وجہ سے تحریک انصاف 8 فروری کے روز ہوا انتخاب ’جیت رہی ہے‘۔ شام گزرنے کے بعد انتخابی نتائج کا اعلان شروع ہواور ٹی وی سکرینوں پر سنائے اور دکھائے نتائج مذکورہ بالا تاثر کی تصدیق کرتے نظر نہ آئے توتحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کے لیے ٹھوس جواز میسرہوجائے گا۔
1977ء میں لاہور، کراچی، فیصل آباد اور حیدر آباد میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قائم ہوئے نو جماعتی اتحاد نے بھی پولنگ روز سے قبل انتخابی عمل کے دوران ایسی ہی فضا بنائی تھی۔ نتائج اس کے برعکس نظر آنے لگے تو احتجاجی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ مجھے خبر نہیں کہ تحریک انصاف بھی 8 فرروری کی شام سے ایسی ہی فضا بناپائے گی یا نہیں۔ میر ی دانست میں وہ کاغذات نامزدگی ’چھینے جانے‘ کے واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے ’تحریکی مزاج‘ بھڑکاسکتی تھی۔ جمعہ کے دن مگر سپریم کورٹ سے دو فیصلے آئے۔ ایک نے عمران خان کی سائفر کیس کی ضمانت اس انداز میں منظور کی کہ ان کے خلاف بنائے اس مقدمے کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا۔ دوسرے فیصلے نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ تحریک انصاف کے متوقع امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی کا حصول یقینی بنایا جائے۔ چند افراد کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کا حصول یقینی بنانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ بھی بھرپور انداز میں متحرک ہوا۔
عدلیہ کے مشفقانہ رویے اور عمران خان کے خلاف بنائے سائفر کیس کی بے وقعتی نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو نیا حوصلہ دیا اور کاغذات نامزدگی ’چھینے جانے‘ کی بنیاد پر احتجاجی بیانیہ مرتب کرنے اور اسے پھیلانے پر وہ توجہ نہیں دے پائے۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں وہ ’تحریکی مزاج‘ کیسے برقرار رکھیں گے۔