Site icon DUNYA PAKISTAN

امریکہ بمقابلہ ایران: پاکستان کس کا ساتھ دے گا؟

Share

پاکستان نے امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرانے کے لیے مصالحتی کوششوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور اِس سلسلے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بدھ کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور آئندہ روز امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سمیت دیگر اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔

ان کوششوں کے پہلے مرحلے میں پاکستانی وزیرِ خارجہ اتوار کو ایک وفد کے ہمراہ ایران پہنچے اور ایرانی ہم منصب جواد ظریف اور ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد انھوں نے سعودی عرب کا بھی دورہ کیا۔

پاکستان کی جانب سے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوششیں تو جاری ہیں لیکن پاکستان کس کی درخواست پر یہ مصالحتی کردار ادا کر رہا اور کیا پاکستان ایران اور امریکہ کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے بھی یا نہیں؟

اور پاکستانی پس منظر میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس تنازعے میں پاکستان آخر کب تک غیرجانبدار رہ سکتا ہے ؟

پاکستان کی مصالحتی کوششیں

ایران میں پاکستان کے سفیر رہنے والے آصف درانی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ایران اور امریکہ کے درمیان باقاعدہ ثالث کا کردار نہیں اپنایا بلکہ پاکستان کی مصالحتی کوششیں اس کی اپنی سکیورٹی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیں۔

آصف درانی کہتے ہیں کہ بطور پڑوسی ملک ایران میں ہونے والے کسی بھی فوجی تنازعے کا اثر پاکستان پر براہ راست پڑے گا، اس لیے پاکستان یہ مصالحتی کوششیں کسی کے کہنے پر نہیں کر رہا بلکہ خطے کی سکیورٹی سے جڑی اپنی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کر رہا ہے۔

آصف درانی کے خیال میں جہاں تک پاکستان کی مسئلہ کو حل کرنے کی استطاعت کی بات ہے تو اس وقت امریکہ، ایران اور سعودی عرب سمیت کوئی بھی ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اکیلے اس کشیدگی کو کم کر سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو وہی ملک حل کرنے میں مدد دے سکتا ہے جو اس مسئلے میں پارٹی نہ ہو۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور اس سے قبل پاکستان فوج کے ترجمان آصف غفور امریکہ ایران تنازعے میں غیرجانبدار رہنے کی پالیسی کا اعلان کر چکے ہیں لیکن آخر پاکستان کب تک اپنی غیرجانبداری کو قائم رکھ سکے گا؟

آصف درانی کے مطابق پاکستان موجودہ صورت حال میں ایک غیرجانبدار فریق کا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن مستقبل میں کیا ہوگا یہ اس وقت کے حالات پر منحصر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ایران امریکہ کشیدگی بڑھ کر جنگ کی شکل اخیتار کرتی ہے اور امریکہ ایران پر فوجی حملہ کرتا ہے تو پاکستان کو ہرگز امریکہ کا ساتھ دینے سے گریز کرنا ہوگا۔

تاہم اگر ماضی میں امریکی فوجی تنازعات میں پاکستان کے کردار کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے تقریباً ہر دفعہ ہی امریکی کیمپ کا حصہ بننے میں آفیت جانی ہے۔

امریکی تنازعات میں پاکستان کا کردار

مؤرخین اور تجزیہ کار امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو ‘میریج آف کنوینیس’ یعنی سیاسی اور مالی فائدے کے لیے کی جانے والی شادی کا نام دیتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک نے سوویت یونین اور طالبان جیسے چیلنجز کا مل کر مقابلہ تو کیا لیکن اپنے اپنے مفادات کے تحت۔

سرد جنگ کے دوران پاکستان نے فریق نہ بننے کے غرض سے نان الینمنٹ موومنٹ کی تشکیل کے ابتدائی مرحلے میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیا لیکن جہاں کمیونسٹ جھکاؤ رکھنے والے انڈیا، کیوبا اور یوگوسلاویا جیسے ممالک اس کا باقاعدہ حصہ بن گئے، پاکستان اپنی غیر جانبدار پوزیشن سے دستبردار ہوتے ہوئے امریکی بلاک میں شامل ہو گیا۔

لیکن جب پاکستان کی جانب سے امریکی امداد کو مبینہ طور پر انڈیا کے خلاف 1965 کی جنگ میں استعمال کیا گیا تو امریکہ کو یہ بات زیادہ پسند نہ آئی اور اس نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں جو امریکہ پاکستان تعلقات میں پہلی دراڑ ثابت ہوئیں۔

دونوں ممالک میں تعلقات کا سرد دور کچھ سال یوں ہی چلا اور 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے نتیجے میں امریکہ کے حامی شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت کا خاتمہ اور پھر افغانستان پر سویت فوج کی چڑھائی نے، امریکہ پاکستان تعلقات کی گرم جوشی کو ایک بار پھر بحال کر دیا۔

پاکستان پر لگائی گئی امریکی پابندیاں اٹھالی گئیں اور پاکستان میں امریکی امداد کی ایک بار پھر فراوانی ہوگئی۔

امریکہ اور پاکستان نے افغان ’مجاہدین‘ کی مدد سے سویت یونین کو دس سال کے بعد بالآخر شکست دے دی لیکن اس جنگ کے ساتھ ہی پاکستان امریکہ قربت بھی اختتام پزیر ہوئی اور امریکہ نے پاکستان پر اس کی دی گئی امداد سے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک بار پھر پابندیاں عائد کر دیں۔

لیکن 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد جب امریکہ نے اسامہ بن لادن کے تعاقب میں افغانستان فوجیں بھیجنے کا سوچا تو ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہوئے اور پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکہ کا اتحادی بن گیا۔

پاکستان ایران امریکہ تنازعے میں اب غیر جانبدار کیوں رہنا چاہتا ہے ؟

تو ماضی میں امریکی کے فوجی تنازعات میں اس کا قریبی اتحادی رہنے والا ملک پاکستان ایران امریکہ تنازعے میں غیر جانبدار رہنے پر کیوں زور دے رہا ہے؟

جارج میسن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر احسن بٹ کے خیال میں پاکستان کے اس تنازعے میں غیر جانبدار رہنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اس کے داخلی حقائق ہیں۔

’پاکستان میں 20 سے 25 فیصد مسلم آبادی کا تعلق شیعہ برادری سے ہے جس کی ایک بڑی تعداد ایران سے مذہبی وجوہات کی بنا پر قربت رکھتی ہے اور پاکستانی فوج ہرگز یہ نہیں چاہے گی اس میں فرقے کی بنیاد پر تفریق پیدا ہو۔‘

احسن بٹ کے مطابق پاکستان کا غیرجانبدار پوزیشن لینے کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کا بڑا جانی اور مالی نقصان ہے اور پاکستان اتنی جلدی اپنے پڑوسی ملک کی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا جبکہ افغان جنگ ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔

کیا پاکستان امریکی جنگ میں غیرجانبدار رہ سکتا ہے ؟

اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ریکاڈ دیکھا جائے تو پاکستان نے اکثر ابتدا میں امریکی تنازعات میں غیرجانبدار رہنے کی کوشش کی ہے۔

لیکن امریکی دباؤ، پاکستان کی خراب اقتصادی صورت حال اور انڈیا کے ساتھ تعلقات کے باعث بالآخر امریکہ کے ساتھ اتحادی بننے میں ہی آفیت جانی جس کی حالیہ مثال 2001 افغان جنگ بھی ہے۔

لیکن بروکنگز انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ فیلو مدیحہ افضل کا ماننا ہے کہ امریکہ افغان جنگ کے وقت کا موازانہ ایران امریکہ کشیدگی سے نہیں کیا جا سکتا۔

’امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کا غیرجانبدار رہنا اس لیے مشکل تھا کیونکہ وہ اس تنازعے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک فریق تھا۔ صرف اس لیے نہیں کیونکہ افغانستان پاکستان پڑوسی ملک تھا بلکہ اس لیے کہ وہ جنگ پاکستان میں پھیل گئی تھی۔‘

مدیحہ افضل کے مطابق اگر امریکہ ایران گشیدگی کل کو جنگ کی شکل اختیار کرتی ہے تو یہ اُس طرح پاکستان نہیں پہنچے گی جس طرح افغان جنگ نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔

احسن بٹ اور مدیحہ افضل دونوں کے مطابق موجودہ حالات میں پاکستان غیرجانبدار رہ سکتا ہے اور کشیدگی کو کم کروانے میں کردار بھی ادا کر سکتا ہے لیکن جوں جوں امریکہ ایران کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور یہ جنگ کی صورت اختیار کرے گا پاکستان کے لیے غیرجانبدار رہنا مشکل ہو جائے گا۔

امریکہ ایران جنگ میں پاکستان کس کو چنےگا؟

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان امریکی جنگوں میں پاکستان کی مداخلت کے شدید مخالف رہے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ سابق صدر جنرل پرویز مشروف کے افغانستان میں امریکی جنگ میں پاکستان کو شامل کرنے کی پالیسی کو شدید تقید کا نشانہ بنایا ہے۔

لیکن آج جب وہ خود وزیراعظم ہیں تو کیا وہ ملک کو امریکہ اور ایران تنازعے سے دور رکھ پائیں گے؟

پاکستان کی تاریخ اور پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر حامد حسین کے مطابق پاکستان اس تنازعے میں کتنی مداخلت کرے گا اس کا فیصلہ وزیراعظم سے زیادہ پاکستان فوج کرے گی۔

ڈاکٹر حامد حسین کے خیال میں دباؤ پڑنے کی صورت میں پاکستان اپنی غیرجانبداری کی پالیسی بھی تبدیل کر سکتا ہے اور اس کی حالیہ مثال کوالالمپور اجلاس سے پاکستان کی سعودی عرب کی جانب سے مبینہ دباؤ کے بعد دسبرداری ہے۔

ڈاکٹر حامد حسین کے مطابق پاکستان حکومت نے جب یمن جنگ میں غیرجابندار رہنے کا فیصلہ کیا تھا تب حالات مختلف تھے کیونکہ اس وقت پاکستان کی اقتصادی صورت حال اتنی کمزور نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ’اس لیے اگر پاکستان پر امریکہ کی جانب سے اسی قسم کا دباؤ ڈالا گیا جو 2001 میں افغان جنگ کے موقع پر ڈالا گیا تھا تو پاکستان برداشت نہیں کر پائے گا۔‘

’لیکن ایران کے ساتھ تنازعے میں امریکہ پاکستان پر اتنا دباؤ نہیں ڈالے گا کیونکہ امریکہ کے پاس خطے میں سعودی عرب، اسرائیل اور خلیجی ممالک جیسے اور بہت اتحادی ہیں۔‘

مدیحہ افضل اور ڈاکٹر حامد حسین دونوں کے خیال میں اگر امریکہ یا ایران میں سے کسی ایک کو چننے کی نوبت آئی تو پاکستان یقیناً امریکہ کا ساتھ دے گا کیونکہ بے شک پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات پر امن رہے ہیں لیکن ایران سعودی عرب تنازعے میں پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کو ترجیح دی ہے اور ایران امریکہ تنازعے میں بھی پاکستان نے امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونا بہتر سمجھا ہے جس کی مثال ایران پاکستان گیس پائپ لائن سے امریکی دباؤ کے باعث پاکستان کی دسبرداری ہے۔

Exit mobile version