کراچی کے ریستوراں زاہد نہاری کو اس کے پکوان کی مہارت کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے اور اس کا شمار دنیا کے سو مشہور ریستورانوں میں کیا گیا ہے۔
یورپی ملک کروشیا کی کمپنی ٹیسٹ ایٹلس نے سال 2024 کی فہرست برائے دنیا کے سو مشہور ریستوران جاری کی ہے جس میں پاکستان کے شہر کراچی کے ایک ریستوران ’زاہد نہاری‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ فہرست میں زاہد نہاری کا نمبر 89 واں ہے۔
کروشیا کی کمپنی ٹیسٹ ایٹلس دنیا بھر میں اپنے تحقیق کاروں کی مدد سے ہر سال دنیا کے سو بہترین ریستورانوں کی فہرست جاری کرتی ہے۔
بی بی سی اردو کو اپنے بیان میں ٹیسٹ ایٹلس نے بتایا کہ وہ یہ فہرست ریستوران کے قیام کی مدت، اعلیٰ عوامی درجہ بندی اور پکوان کی مقبولیت دیکھ کر بناتی ہے اور کراچی کا ریستوران زاہد نہاری اِن تمام معیارات پر پورا اترتا ہے۔
’ہم نے کبھی بھی معیار اور ذائقے پر سمجھوتہ نہیں کیا‘
زاہد نہاری کی بنیاد 1980 میں صدر کی ایک دکان میں حاجی بخش الٰہی نے رکھی تھی جو تقسیم کے بعد انڈیا کے شہر دلی سے کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ انھوں نے اس دکان کا نام اپنے بیٹے حاجی زاہد میاں کے نام پر رکھا۔
زاہد نہاری کی اب دو شاخیں ہیں۔ ایک ریستوران صدر میں ہی ہے جبکہ دوسری شاخ شہر کے مشہور بازار طارق روڈ پہ 2006 میں کھولی گئی۔ 43 سالوں سے جاری یہ کام اب حاجی بخش الہی کے پوتے ابوبکر اور عمار سنبھالتے ہیں۔
زاہد نہاری کے مالک ابوبکر نے بتایا کہ ’ہمارے دادا حاجی بخش الٰہی انڈیا میں دلی سے پاکستان آئے تھے۔ وہ اور ہمارے والد زاہد میاں اس کام کو جانتے بھی تھے اور انھوں نے اسی پر توجہ دے کر کام شروع کیا۔‘
ٹیسٹ ایٹلس کی فہرست میں زاہد نہاری کا نام آنے پر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہوئے بولے کہ ’ہم نے کبھی بھی معیار اور ذائقے پر سمجھوتہ نہیں کیا۔‘
زاہد نہاری کے مالک ابوبکر نے بتایا کہ ’مسالہ جات، گوشت وغیرہ سب کچھ عمدہ اور بہترین کوالٹی کا ہوتا ہے۔ مسالحے اور گوشت بھی ہم خود خریدتے ہیں، یہاں تک کہ ہم خود ہی نہاری پکاتے ہیں۔‘
’لاہور والے بھی یہاں سے ٹن پیک لے جاتے ہیں‘
ناشتے کا وقت ہو یا دوپہر اور شام کے کھانے کا وقت، زاہد نہاری پہ گاہکوں کا تانتا بندھا نظر آتا ہے اور ریستوران کا عملہ اس ہل چل میں بھی مہارت سے اپنا کام کرتا رہتا ہے۔
ابوبکر کے مطابق صرف طارق روڈ کی شاخ پر تین شفٹوں میں قریباً چالیس ورکرز کام کرتے ہیں۔ کچھ کچن میں تو کچھ ریستوران پہ اپنی اپنی ذمہ داریوں جیسے کہ نہاری نکالنا، سپلائی کرنا، برتن دھونا اور پیش کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک ورکر فیاض نے بتایا کہ وہ 2007 سے زاہد نہاری پر کام کر رہے ہیں جہاں ان کے مطابق شوبز اور مقبول سیاسی شخصیات سمیت دیگر شہروں اور بیرونِ ملک سے بھی لوگ شوق سے نہاری کھانے آتے ہیں۔
لاہور کی نہاری کا ذکر ہوا تو فیاض نے جھٹ کہا کہ ’لاہور والے بھی آتے ہیں اور یہاں سے ٹن پیک بھی لے جاتے ہیں، وہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں کا ذائقہ ہمیں اچھا لگتا ہے۔‘
زاہد نہاری پہ صبح کے وقت بڑی تعداد میں ٹِن کے ڈبوں کی پیکنگ کا کام بھی چل رہا ہوتا ہے۔ فیاض نے بتایا کہ ’لوگ عمرے پہ جاتے ہیں یا باہر جاتے ہیں تو تحفے کے طور پر ہماری نہاری کے ٹِن پیک لے جاتے ہیں۔ اسے پانچ مہینے تک ٹن میں رکھا جاسکتا ہے اور چار سے پانچ لوگ اسے کھا سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ زاہد نہاری کے پاس خاندانی باروچی ہیں۔ ایک دیگ بارہ گھنٹے میں تیار ہوتی ہے۔ اس کی خاص بات یہی ہے کہ لوگ جگہ اور ذائقہ دونوں پسند کرتے ہیں۔ اُن کی مقبول نہاری کون سی ہے۔ اس سوال کے جواب میں بولے کہ ’اپنی اپنی پسند ہے، کوئی سادہ کھانا پسند کرتا ہے، کوئی نلی والی تو کوئی مغز والی اور کوئی سپیشل کھاتے ہیں یعنی بونگ کی بوٹی والی۔ زیادہ تر لوگ بونگ کی بوٹی کھانا پسند کرتے ہیں۔ کچھ صاف بوٹی کھانا پسند کرتے ہیں۔‘
’کھانا بھی اچھا، سروس بھی اچھی، پیسے بھی مناسب‘
روایتی طور پر نہاری بونگ کے گوشت کے ساتھ بنائی جاتی تھی البتہ اب اس کا نسخہ ڈبہ پیک میں دستیاب ہے اور اسے باآسانی گھروں میں مٹن اور چکن کے ساتھ بھی بنایا جانے لگا ہے۔ البتہ رستورانوں پہ بونگ کی نہاری کے ساتھ، نلی اور مغز نہاری بھی بے حد مقبول ہیں۔
نہاری کو عوام دوست پکوان بھی کہا جاتا ہے جس کی مناسب قیمت کی وجہ سے اسے کھانا ہر طبقہ کے لوگوں کی دسترس میں ہوتا ہے۔
عبیر حیدر نے اپنے دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ زاہد نہاری سے کھانا کھانے کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں پہ سروس بہت تیز ہوتی ہے۔ مہینے دو مہینے میں ایک آدھ چکر لگ جاتا ہے۔ میرے خیال میں ان کی کوالٹی برقرار رہتی ہے، کھانا بھی اچھا ہے، سروس بھی اچھی ہے، پیسے بھی مناسب ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سو بہترین ریستورانوں میں آنے کے مستحق ہیں۔‘
حرا نامی صارف دس سالوں سے زاہد نہاری آ رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہم جب بھی طارق روڈ پر شاپنگ کرنے آتے ہیں تو زاہد نہاری ضرور آتے ہیں۔ میرے بچپن سے لے کر آج تک زاہد نہاری کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ باہر جاکے بندہ چٹ پٹی سی نہاری کھائے تو مزہ نہیں آتا ہے۔‘
مسعود فضلی کہتے ہیں کہ ’طارق روڈ والی برانچ کی نہاری بھی اچھی ہے لیکن مجھے صدر کی برانچ کی نہاری زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘
شہریار خان اکثر اپنے دفتر کے ساتھیوں یا خاندان کے ساتھ زاہد نہاری آتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں نہاری اور روٹی گرم گرم پیش کی جاتی ہے، یہ لذید بھی بہت ہے۔ زاہد نہاری کا ذائقہ سب سے منفرد ہے۔ آپ جب بھی یہاں آئیں گے آپ کو الگ ہی مزہ آئےگا۔ گھر کی نہاری میں وہ ذائقہ ہی نہیں آتا جو یہاں کی نہاری میں ہوتا ہے۔‘
کراچی جیسے شہر میں جہاں نہاری کی سینکڑوں دکانوں سمیت دیسی اور بدیسی پکوانوں کی بھرمار ہے وہاں نہاری جیسے روایتی ڈش کے ساتھ اپنی الگ پہچان بنانا کافی مشکل عمل ہے لیکن زاہد نہاری اپنے ذائقہ اور سروس کے معیار کی وجہ سے اپنی منفرد جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔