ضیا ء الدین صاحب کے بعد بابر ایاز میرے لئے وہ آخری سینئر رہ گئے تھے جن کی صورت اخبار کے لئے لکھتے یا ٹی وی کے لئے بولتے ہوئے ہمیشہ ایک نگہبان یا مانیٹر کی طرح ذہن میں رہتی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے وہ جسمانی اعتبار سے مفلوج ہوجانے کے بعد بتدریج اپنے ذہن میں آئے خیالات دوسروں تک پہنچانے کی سکت سے محروم ہوچکے تھے۔ ٹیلی فون پر براہِ راست رابطہ کرنے کی طاقت کھودینے کے باوجود وہ ہماری بھابھی یا اپنے بھائی سے اشاروں کی زبان میں مجھ سے رابطہ کے ذریعے حال احوال جاننے کی کوشش کرتے۔ جب تک قوی سلامت رہے انہیں یہ فکر لاحق رہی کہ میں کسی ٹی وی پر کوئی شو کررہا ہوں یا نہیں۔
ان کا تعلق تیزی سے معدوم ہوئی صحافیوں کی اس نسل سے تھا جو مصررہتے کہ خبریں تلاش کرنے کا ہنر متقاضی ہے کہ صحافی تجسس کو اپنی فطرت کا حصہ بنائے رکھے۔ملکی امور پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے خلق خدا کو کسی نہ کسی طرح اس پہلو سے بھی مسلسل آگاہ رکھے کہ ریاست واشرافیہ کے کونسے کلیدی کردار انہیں مطیع وفرماں برادر رکھنے کے لئے کس نوعیت کے اَن دیکھے ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں۔اس ضمن میں اہم ترین وہ کسی بھی حکومت کی اپنائی معاشی پالیسیوں کو گردانتے تھے۔اسی باعث میں ’’سیاسی رپورٹر‘‘ ہمیشہ ان کی شفقت بھری ڈانٹ ڈپٹ کی زد میں رہتا۔انہیں گلہ تھا کہ ہماری سیاست وریاست کے بے شمار صف اوّل کے سیاسی رہ نمائوں تک رسائی میسر ہونے کے باوجود میں ’’کام کی خبر‘‘ یعنی عوام کے معاشی استحصال کو مزید ناقابل برداشت بنانے والی پالیسیوں کی تشکیل اور انہیں مسلط کرنے والوں کی تلاش پر توجہ نہیں دیتا۔
بابر ایاز اس سوچ کے بھی شدت سے پرچارک تھے کہ صحافی کو بطوررپورٹر فقط ’’تاریخ کے لئے مواد‘‘ ہی جمع کرنا نہیں ہوتا۔صحافت میں چند دہائیاں گزارنے کے بعد اسے اپنے تجربات کو تاریخی تناظر میں رکھ کر ریکارڈ کا حصہ بھی بنانا چاہیے تانکہ آنے والی نسلوں کے ذہن صاف رہیں۔وہ اپنے حال کو ماضی کے حقائق کی ر وشنی میں جاننے کے قابل ہونے کے بعد ہی بہتر مستقبل کی راہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔میری بدقسمتی کہ اس ضمن میں بھی میں نے بابر بھائی کو بے حد مایوس کیا۔ فطری طورپر کاہل ہوں۔آج سے چند ہی برس قبل تک دوستوں کے ساتھ محفل بازی اور پھکڑپن کی علت میں لاحق تھی۔محفل بازی کے پھکڑپن کو وہ مگر کتاب نہ لکھنے کا قابل قبول جواز تصور کرنے سے انکاری تھے۔ بذاتِ خود صحرا کے قبائلی سرداروں کی مانند فیاض میزبان تھے۔جب بھی میں کراچی جاتا تو چاہے ایک دن اس شہر میں ہوں یاہفتے دس دن کے لئے رات کا کھانا صرف ان ہی کے ہاں کھانا ہوتا تھا۔ وہاں دیگر دوستوں کے علاوہ وہ چند ایسے افراد کو مدعو کرنا بھی یقینی بناتے جو ان کی دانست میں میرے ’’دورئہ کراچی‘‘ کو خبروں کے حوالے سے بارآور بنانا یقینی بناسکتے تھے۔ مجھ پر ایسی شفقت کا واحد سبب ان کی فطری نیک نیتی پر مبنی خوش گمانی تھی جو طے کرچکی تھی کہ اگر میں تھوڑے نظم وانہماک کا عادی ہوجائوں تو کم از کم دو ایسی کتابیں ضرور لکھ سکتا ہوں جو میرے مرنے کے بعد تحقیق کو بے قرار افراد کے کام آسکتی ہیں۔ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کی خبر ملنے کے بعد سے اس ضمن میں بھی انہیں مایوس کرنے کے باعث بے حد شرمندگی ہورہی ہے۔
عمر تمام نہایت مشقت سے صحافت کی نذر کردینے کے باوجود مسکراہٹ بابر ایاز کے چہرے کا مستقل فیچر تھی۔ سخت ترین حالات میں بھی انہیں شکوہ کناں کبھی نہیں سنا۔دوستوں کے درمیان اہم معاملات پر بحث ومباحثے کی وہ پرخلوص سہولت فراہم کرتے۔ان کی آواز مگر ایک بار بھی گرما گرم مباحث کے دوران میں نے کبھی بلند ہوتے نہیں سنی۔ اپنی بات پر ڈٹے افراد کو بالآخر مجبور کرنے میں کامیاب ہوجاتے کہ وہ دوسروں کی بات بھی سننے کا حوصلہ دکھائیں۔
بابر بھائی نے صحافتی عمر کا بیشتر حصہ معاشی امور پر رپورٹنگ کی نذر کیا تھا۔کراچی میں رہتے ہوئے اس موضوع پر طرحدار رپورٹنگ کی وجہ سے ہمارے تمام سیٹھوں اور اجارہ دار خاندانوں سے ان کے نظر بظاہر ’’دوستانہ‘‘ مراسم تھے۔ انگریزی زبان کے اہم ترین روزناموں اور جرائد کے لئے رپورٹنگ اور کالم نویسی کی وجہ سے ان کی حکومتی پالیسی سازوں سے بھی خوب شناسائی تھی۔ سیٹھوں سے تقریباََ ’’دوستی‘‘ اور ایوان ہائے اقتدار تک رسائی کو وہ ذاتی زندگی خوشحال بنانے کے لئے استعمال کرسکتے تھے۔ اس پہلو سے مگر مستقل مزاجی سے گریز اختیار کیے رکھا۔ بالآخر جب یہ جان لیا کہ محض صحافت ہی دیانتدار رپورٹر کو آج کے دور میں قابلِ عزت زندگی گزارنے کے قابل نہیں بناتی تو عملی صحافت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اس کے بعد پاکستان کی شاید پہلی کمپنی بنائی جو ایڈورٹائزنگ کے بجائے کاروباری دنیا میں متعارف ہوئے کسی نئے اور بڑے منصوبے کے خدوخال سے لوگوں کو ا ٓگاہ رکھتی۔ اس ضمن میں لوگوں کو ’’چکمہ‘‘ دینے والے ’’ڈبل شاہ‘‘ نوعیت کے افر اد کو خدمات فراہم کرنے کی عادت تب بھی نہیں اپنائی۔
بابر ایاز دیانتدار اور محنتی صحافی ہی نہیں اپنے شعبے میں نت نئے تجربات کو بضد شخص بھی تھے۔ ان کی تخلیقی پیش قدمی نے انگریزی کے ایک مؤقر روزنامے کو قائل کیا کہ وہ فنانشل ٹائمز کی طرز پر ’’پیلے صفحات‘‘ پر مشتمل چار صفحات چھاپے جو فقط معاشی معاملات پر فوکس کریں۔ یہ خیال صحافتی دنیا میں 1980ء کی دہائی میں خوش نما مگر دھماکہ خیز ایجاد ثابت ہوا۔ بابر بھائی کی کاوشوں کے طفیل محترمہ بے نظیر کی پہلی حکومت کے دوران پاکستان ٹیلی وژن کے ’’خبرنامے‘‘ میں معاشی اور تجارتی خبریں سرکاری کنٹرول سے آزاد نجی طورپر چلائے بندوبست کی بدولت پیش کرنے کا چلن بھی متعارف ہوا۔ بعدازاں اسی کی وجہ سے حکومت نے CNNکو ہمارے ہاں STNکے ذریعے لائیونشریات کی اجازت دی۔1980ء کی دہائی کے آخری سالوں میں متعارف کروائے اس چلن کی بدولت ہی بالآخر 2002ء میں جنرل مشرف کو یہ حوصلہ نصیب ہوا کہ وہ نجی شعبے کو ہمارے ہاں نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز چینل قائم کرنے کی اجازت دیں۔