Site icon DUNYA PAKISTAN

موروثی سیاست: پاکستان کی سیاست پر چند خاندانوں ہی کا راج کیوں ہے؟

Share

آئندہ ماہ 8 فروری کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد کردہ امیدواروں کی حتمی فہرستوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک بھر میں درجنوں ایسی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ہیں جہاں ایک ہی گھر یا خاندان کے افراد کو میدان کو اُتارا گیا ہے۔

اگر کسی سیاسی خاندان کے سربراہ قومی اسمبلی کی نشست پر کسی جماعت کے امیدوار ہیں تو انہی کے بھائی، بیٹے، بیٹی، بہو یا بیگم اُسی شہر یا علاقے سے دیگر قومی و صوبائی نشستوں سے امیدوار نظر آتے ہیں۔ اور پاکستانی سیاست میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ دہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے اور اس میں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو بھی استثنیٰ نہیں ہے۔

موروثی یا خاندانی سیاست پاکستان میں ایک منفی اصطلاح کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ موروثی سیاست کا یہ معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک، خاص کر جنوبی ایشیائی ممالک میں خاندانی سیاست کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ تاہم دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں موروثی سیاست کی شرح بہت حد تک بلند ہے۔

بی بی سی کی جانب سے سنہ 2018 میں شائع کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لاہور کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹیوز نے پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیا تھا۔

اس تحقیق کے مطابق امریکی کانگریس میں 1996 میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً چھ فیصد تھا، انڈیا کی لوک سبھا میں 2010 تک 28 فیصد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔

اسی تحقیق کے مطابق پاکستان میں موروثی یا خاندانی سیاست کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 400 خاندان ہیں جو مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور بظاہر تاحال یہ حالات آج بھی نہیں بدلے۔

اسی تحقیق میں یہ بھی نظر آیا کہ موروثی سیاست جاگیرداروں کے طبقے تک محدود نہیں رہی بلکہ سیاست میں آنے والے صنعت کاروں اور کاروباری طبقے بھی اپنے اپنے وارث سیاست میں لے کر آئے اور اس طرح انھوں نے ملک میں پہلے سے جاری موروثی سیاست کی روایت کو جلا بخشی۔

بی بی سی نے اسی ضمن میں موروثی سیاست کرنے والے پاکستان کے چند بڑے سیاسی خاندانوں کے ایسے افراد سے بات کی ہے، جو آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں مختلف جماعتوں کے امیدوار ہیں، تاکہ یہ جاننا جا سکے کہ یہ خاندان دہائیوں سے اپنے آپ کو ہی عوام کی نمائندگی کا حقدار کیوں سمجھتے چلے آ رہے ہیں اور، اُن کی رائے میں، اُن کا یہ طرز سیاست کیا پاکستان میں جمہوریت کے پنپنے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث تو نہیں ہے؟

تاہم اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو پاکستان میں موروثی سیاست کے ٹرینڈ کو فروغ دیتی ہیں۔

وہ وجوہات جو خاندانی سیاست کو دوام بخشتی ہیں

صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی سیاست پر آج بھی فیوڈل سسٹم (جاگیردارانہ نظام) حاوی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 70 کی دہائی میں اعلان تو کیا تھا کہ وہ اس کا خاتمہ کریں گے مگر اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں یہ سلسلہ پاکستان میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔‘

جب ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ عوام تین تین نسلوں سے ایک ہی خاندان کے افراد کو اسمبلیوں تک پہنچانے کے لیے ووٹ دیتے آ رہے ہیں تو مظہر عباس کا کہنا تھا کہ موروثی سیاست کرنے والے سیاست دانوں کو ہر الیکشن میں ووٹ ملنے کے پیچھے بہت سے عناصر ہوتے ہیں، جیسا کہ پنجاب میں مضبوط برادریوں کا نظام یا بلوچستان میں سرداری سسٹم۔

مظہر عباس کے مطابق صوبہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ’پیری مریدی‘ اور بڑی گدیاں بھی ہیں جہاں اگر پیروں کے خاندان کا کوئی فرد الیکشن لڑ رہا ہو تو ایسا ممکن نہیں ہو پاتا کہ مرید الیکشن والے دن کسی اور کو ووٹ دے آئیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق موروثی سیاست ان معاشروں میں بھی زیادہ مضبوط ہوتی ہے جن میں جمہوری روایات پھلی پھولی نہیں ہوتی ہیں اور غیر جمہوری قوتیں گاہے بگاہے جمہوری نظام میں مداخلت کرتی رہتی ہیں۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے محققین، عبدالقادر مشتاق، محمد ابراہیم اور محمد کلیم کے مطابق موروثی سیاست کے بارے میں ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کیونکہ تاریخی لحاظ سے بڑے سیاسی خاندان ریاستی وسائل، اپنی خاندانی دولت، حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اور مخالفین کو دبانے کی صلاحیت پر اجارہ داری رکھتے ہیں اس لیے انہی خاندانوں کی اگلی نسل کے لیے سیاست میں اپنی حیثیت بنانا یا منوانا آسان ہوتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سہیل ورائچ کہتے ہیں کہ موروثی سیاست صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک جہاں جدید جمہوری نظام رائج ہے وہاں بھی خاندانی سیاست موجود ہے۔

امریکہ، انڈیا اور بنگلہ دیش کی مثالیں دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان سمیت دنیا میں کوئی جمہورت ابھی اتنی ’میچور‘ نہیں ہوئی اور نہ ہی کہیں سیاسی پارٹیاں اتنی مضبوط ہوئی ہیں کہ صرف پارٹی کے نام کی بنیاد پر الیکشن میں ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ سہیل وڑائچ کے مطابق ’خاندانوں کا بھی اثر ہوتا ہے، شخصیات کا بھی اثر ہوتا ہے۔ مگر یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں جتنی زیادہ موروثی سیاست ہے اس کو کم ہونا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ یکسر ختم ہو جائے۔‘

اگرچہ پاکستان میں موروثی سیاست کی جڑیں کافی گہری ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب بہت سے ووٹرز، بالخصوص شہری علاقوں میں‘ کی جانب سے اس نظام کے خلاف تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔

ملتان سے تعلق رکھنے والے شہری حسین کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں خاندانی سیاست ہی چل رہی ہے! ایک سیٹ پر باپ ہے، تو اس کے بعد اُس کا بیٹا آ جاتا ہے، اور اس کے بعد اس کا بیٹا۔ دنیا میں کرنے کو ہزاروں اور کام بھی ہیں، مگر ان (موروثی سیاستدانوں) کو اپنے خاندان کے افراد کے لیے صرف سیاست کرنے کا کام ہی کیوں سوجھتا ہے؟‘

تاہم پشاور کے رہائشی ظہور الہی بھی ہیں جن کی رائے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو پرانے تجربہ کار لوگ ہیں انہی کو سیاست میں آنا چاہیے۔ نئے لوگ جو ہیں، اُن کا نہ تو تجربہ ہے اور نہ ہی کچھ اور ۔ (نئے لوگوں نے) ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔‘

پنجاب کے شہر ملتان سے تعلق رکھنے والا گیلانی خاندان اور خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں بلور خاندان پاکستان کے بہت سے ایسے سیاسی خاندانوں میں سے ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاست میں حصہ لیتے آ رہے ہیں۔ بی بی سی نے علی حیدر گیلانی، ثمر ہارون بلور اور سیاسی تجزیہ کاروں سے تفصیلی گفتگو کے ذریعے چند اہم سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔

یاد رہے کہ ثمر ہارون پشاور کے صوبائی اسمبلی کے حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی جبکہ علی حیدر گیلانی ملتان کے صوبائی اسمبلی کے حلقے کے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔

،تصویر کا کیپشن’کیا ہم اُن (موروثی سیاستدانوں کو ووٹ دینے والے افراد) کو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کا عقلمندانہ فیصلہ نہیں کر سکتے؟‘ علی حیدر گیلانی

کیا موروثی سیاست کا جمہوریت پر منفی اثر پڑتا ہے؟

علی حیدر گیلانی اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کہنا تو بڑا آسان ہے کہ موروثی سیاست ہے اور یہ بڑی آسان ہے، ان کی اپنی برادری کے ووٹ ہوں گے یا مریدین کے ووٹ ہوں گے یا پھر ان کے حلقے کی عوام ان کی رعایہ ہے وغیرہ۔۔۔ مگر ایسا نہیں اور یہ اتنا آسان نہیں ہے۔‘

علی حیدر کہتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب ’وِل آف دا پیپل‘ یعنی لوگوں کی آزادانہ مرضی ہے اور اگر عوام نسل در نسل کسی ایک خاندان سے آنے والے امیدواروں کو ووٹ دے کر جتاتی ہے تو یہ ان کی اپنا آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے اور اُن کے اس فیصلے پر سوال اٹھانا اُن کے فیصلے کی ’توہین‘ کرنے جیسا ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ ’کیا ہم اُن (موروثی سیاستدانوں کو ووٹ دینے والے افراد) کو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کا عقلمندانہ فیصلہ نہیں کر سکتے؟

علی حیدر کے مطابق ’آج کا ووٹر بہت باشعور ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ میرے والد (یوسف رضا گیلانی) نے حلقے اور سیاست کے لیے کیا کیا، کیا قربانیاں دیں۔ اگر میں امیدوار ہوں تو وہ دیکھتے ہیں کہ میں نے کیا کام کیا، حلقے میں کتنی خدمت کی۔۔۔ ووٹر بہت بہت دیکھتے ہیں۔‘

تاہم دوسری جانب مظہر عباس کے مطابق موروثی سیاست کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے کیونکہ عوام کی نمائندگی کا حق اُن لوگوں اور خاندانوں میں ہی بٹا رہتا ہے جو عرصہ دراز سے ایک مخصوص انداز میں یہ کام کرتے آ رہے ہیں۔

پارٹی ورکرز کے بجائے بڑے خاندان ہی خالی جگہ کیوں پُر کرتے ہیں؟

،تصویر کا کیپشن’میں اُن کے اوپر مسلط نہیں ہوئی تھی بلکہ اُن (پارٹی کارکنوں) کا فیصلہ میرے اوپر مسلط ہوا تھا۔‘ ثمر ہارون بلور

علی حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ وہ آغاز میں سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر 2013 کے ایکشن میں انھیں ’مجبورا‘ سیاست میں آنا پڑا۔

وہ بتاتے ہیں کہ سنہ 2012 میں اُن کے والد سید یوسف رضا گیلانی کی عدالتوں کی جانب سے نااہلی کے بعد اپنے والد کے کہنے پر وہ پارٹی میں پیدا ہونے والی خلا کو کرنے کے لیے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2013 کے الیکشن سے دو دن پہلے القاعدہ کے ہاتھوں ان کا اغوا ہوا اور وہ تین سال بعد 2016 میں بازیاب ہوئے اور یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے بذات خود سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

’تب میں نے یہ سوچا کہ جن لوگوں نے مجھے اغوا کیا انھوں نے اسی مقصد سے کیا تھا کہ میں جمہوریت یقین رکھتا ہوں۔ تو اگر میں سیاست سے دور ہو جاؤں گا تو وہ تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تو میرے خیال سے میرا یہ عزم تھا کہ میں نے ان کو غلط ثابت کرنا تھا۔‘

دوسری جانب ثمر ہارون بلور کا کہنا ہے کہ بلور خاندان میں شادی ہونے سے پہلے بھی انھیں سیاست میں دلچسپی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اُن کی پیدائش ایک سیاسی گھرانے میں ہونے کی وجہ سے کم عمری میں ہی سیاست سے ان کا تعارف ہو گیا تھا تاہم سسر اور شوہر کی وفات کے بعد سیاست میں قدم رکھنا ان کی’مجبوری‘ تھی کیوںکہ اس وقت ان کے گھر میں ’کوئی ایسا مرد نہیں تھا جو عمر اور قابلیت کے لحاظ سے (سیاسی نشست کا) وارث بنتا۔‘

علی حیدر گیلانی اور ثمر ہارون بلور دنوں کے مطابق ان کو ابتدا میں حالتِ مجبوری میں سیاست میں قدم رکھنا پڑا۔ ایسی صورت میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ خالی ہونے والی نشتوں کو خاندان کے اندر سے ہی بھرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟ کیا خاندان سے باہر کوئی شخص یا کوئی پارٹی ورکر ایسا نہیں تھا جو ان کی جگہ لے پاتا۔

ثمر کا کہتی ہیں کہ پشاور شہر میں عوامی نیشنل پارٹی نے نوجوان قابل اور پڑھے لکھے لوگوں کو ٹکٹ دیے ہیں مگر جس حلقے سے اُن کے شوہر کی وفات ہوئی وہاں کے پارٹی ورکرز کا یہ مطالبہ تھا کہ میں انتخابات لڑوں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اُن کے اوپر مسلط نہیں ہوئی تھی بلکہ اُن کا فیصلہ میرے اوپر مسلط ہوا تھا۔‘

اسی طرح علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ دراصل یہ حلقے کے لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ اُن کے امیدوار کھڑے ہوں۔

علی حیدر گیلانی کہتے ہیں کہ ’اگر میرے بیٹے میں سیاسی جذبہ نہیں ہے، وہ محنتی نہیں ہے اور اس سے زیادہ محنت کرنے والے لوگ ہیں جو عوام سے جڑے ہوئے ہیں اور جو عوام کے مسائل سمجھتے ہیں اور ان کو حل کر سکتے ہیں تو میں کبھی اس (اپنے بیٹے) کو نہیں کہوں گا کہ آپ سیاست کریں۔ لیکن اگر اس میں وہی (سیاسی) جذبہ ہے جو میرے میں ہے، تو اگر میں اس کو سیاست کرنے سے روکوں گا تو وہ ایک میری طرف سے زیادتی ہو گی۔‘

کیا کوئی ایسا طریقہ کار ہے جو بتا سکے کہ کون سیاست میں آنے کا اہل ہے؟

سید علی حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر بنا، انجینیئر کا بیٹا انجینیئر بنا، اس نے امتحان پاس کیا۔ سیاستدان کا بیٹا سیاست دان جب بنتا ہے تو اس کے لیے اس سے بھی زیادہ سخت امتحان ہیں۔‘

ان کے مطابق اگر کسی سیاست دان کے بیٹے یا بیٹی میں اچھا سیاست دان بننے کی صلاحیت موجود ہو گی تو اسے روکنا بھی زیادتی ہو گی۔

ان کے مطابق الیکشن کمیشن سے کاغذاتِ نامزدگی پاس کروانا اور پھر مخالفین سے سخت مقابلے کا سامنا کرتے ہوئی عوام کی عدالت میں خود کو ووٹ کا حقدار ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔

’جب ہم کہتے ہیں کہ ہماری سیاست کو اتنے سال ہو گئے ہیں مگر اس کے باوجود ہر الیکشن میں ہم آغاز ایک ووٹ سے ہی کرتے ہیں، ایک سے گننا شروع کرتے ہیں اور پھر اوپر جاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ ہم کہیں کہ ہمارے یہ 50 ہزار ووٹ ہماری جیب میں ہیں۔ ایسے نہیں ہوتا۔ محنت کرنی پڑتی ہے۔ پورے پانچ سال ہم عوام کو وقت دیتے ہیں، عوام کے اندر موجود رہتے ہیں، ان کے مسائل سنتے ہیں اور حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا لمبا پروسیس ہے۔‘

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کے بچوں کی سیاسی ٹرینگ کسی نہ کسی حد تک خود بخود گھر کے سیاسی ماحول میں رہ کر بھی ہو جاتی ہے اور یہ تربیت شاید کسی غیر سیاسی گھرانے میں پلنے والے بچے کو میسر نہ ہو۔

ثمر ہارون بلور کا بھی یہی موقف ہے کہ سیاسی گھرانوں کے بچوں کی سیاسی تربیت گھروں سے ضرور ہو جاتی ہے مگر ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ ’اگر محنت ہو تو لوگ آپ کو قبول کریں گے۔ آپ کی محنت نہ ہو تو آپ جس بھی خاندان سے آ جائیں لوگ آپ کو نہیں قبول کریں گے۔‘

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ہر شخص کو سیاست میں آنے کا حق ہے مگر اس فیلڈ میں کامیاب ہونے کے لیے اس شخص میں سیاسی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔

’(سیاست دان) باپ کو اس لحاظ سے بیٹے پر یا بیٹی پر سختی کرنے کی ضرورت ہے کہ ہاں جاؤ پہلے جا کر اپنے محلے میں سیاست کرو، جاؤ کونسلر بنو، پھر یو سی کا الیکشن لڑو۔ پھر آپ اگر اور کامیاب ہوتے ہو تو اب آپ ڈپٹی میئر، میئر بنتے ہو یا یو سی چیئرمین بنتے ہو تو پھر لوگ خود آ کر کہیں گے آپ سے کہ جی آپ کے بیٹے نے بڑا کام کیا۔ آپ اسے کیوں نہیں اوپر (صوبائی اور قومی سطح کی سیاست میں) لاتے۔ بجائے اس کے کہ آپ اپنے بچوں کو قومی یا صوبائی سطح پر ڈائریکٹ مسلط کریں۔‘

،تصویر کا کیپشنپاکستان مسلم لیگ ن نے بھی بہت سے سیاسی خاندان میں رشتہ داروں کو ٹکٹ تقسیم کیے ہیں

کیا موروثی سیاست نئے آنے والوں کے لیے سیاست میں مواقع پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’مڈل کلاس آدمی کا آج کے حالات بطور امیدوار الیکشن لڑنا لگ بھگ ناممکن ہے۔‘

ان کے مطابق صرف متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور جماعت اسلامی دو ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو کسی حد تک اپنے امیدواروں کو الیکشن لڑنے کے لیے مالی مدد فراہم کرتی ہیں مگر دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو نہ صرف الیکشن لڑنے کے لیے پیسہ خود لگانا پڑتا ہے بلکہ پارٹی کو بھی فنڈز دینے ہوتے ہیں۔

علی حیدر گیلانی کہتے ہیں کہ ایسے نہیں ہے کہ نئے لوگوں کے لیے مواقع نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن کے والد سید یوسف رضا گیلانی بھی ’سیاسی نرسری کی پراڈکٹ ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یوسف رضا گیلانی یونین کونسل کی سطح سے ڈسٹرکٹ چیئرمین بنے۔ پھر وہ ایم این اے بنے، منسٹر بنے، سپیکر بنے، پھر وہ وزیرِ اعظم بنے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ وہ خود بھی پچھلی حکومت میں لوکل گورنمنٹ کی کمیٹی کا حصہ رہے اور انھوں نے سیاسی نرسریوں کو مضبوط بنانے کے لیے بہت کام کیا۔

’یہی ہماری نرسری ہے۔ یہیں سے ہم نے مستقبل کے لیڈرز پیدا کرنے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مسائل 80 فیصد ختم ہو جائیں گے جب ہم ملک میں ایک اچھا لوکل گورنمنٹ سسٹم رائج کریں۔‘

ثمر کہتی ہیں کہ اُن کے سسر کسی سیاسی گھرانے سے نہیں آئے تھے بلکہ وہ’سیلف میڈ‘ انسان تھے۔ ان کے مطابق وہ بھی عوام سے نکل کر سیاست میں آئے تھے۔

Exit mobile version