دنیا بھر میں بالغان کی تقریباً ایک تہائی سے زائد تعداد مسلسل تھکاوٹ محسوس کرتی ہے اور برن آوٹ (شدید تھکن) کے کیسز بھی بڑھ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس سے کیسا بچا جا سکتا ہے؟
ان سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لیے سائنسی مصنف ڈیوڈ روبسن نے ثقافتی تارِیخ اور برن آوٹ کے موضوع پر مہارت رکھنے والی انا کتھرینا سے گفتگو کی ہے۔
ان کی کتاب ’ایگزہوسٹڈ: این اے زی فار دا ویئری‘ برن آوٹ اور سائنس کے تعلق پر ہے اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زندگی میں آنے والے اضطراب سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
مسلسل تھکن اور برن آوٹ میں کیا فرق ہے؟
ہمارے پاس ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ قدیم چین کی تاریخ کے وقت سے مسلسل تھکاوت اور اس کی وجوہات سے پریشان ہیں۔
برن آوٹ (شدید تھکن کا احساس) ایک ایسی بیماری ہے جس کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔ اس سے جسمانی قابلیت میں کمی آتی ہے اور توانائی میں بھی فرق آتا ہے۔
اس کیفیت کا انسانی شخصیت پر بھی اثر پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان چِڑچِڑا ہوجاتا ہے جس سے اس کے اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے تعلقات پر بھِی اثر پڑتا ہے۔
برن آوٹ ایک انتہائی سنجیدہ کیفیت ہے۔ اس کیفیت کا سامنا کرنے والے لوگ اکثر خود کو کچھ بھی کرنے سے قاصر پاتے ہیں۔ انھیں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان کے جسم انھیں بتا رہے ہوں وہ اب کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
اس کیفیت کا شکار لوگوں کو اکثر اپنے پیشے بھی تبدیل کرنے پڑتے ہیں اور ان پریشانیوں سے نکلنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
برن آؤٹ اتنا عام کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ برن آوٹ کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اپنے کام کی جگہوں پر مقابلے کے کلچر کا سامنا ہے اور ہمیں ہر وقت ایک جدوجہد کا سامنا ہے۔
یہ اس لیے بھی ہوتا ہے کیونکہ شاید ہم اپنے کام کو زیادہ اہمیت دیتے اور اسے اپنے احساسات کی دنیا میں مرکزی مقام دے دیتے ہیں۔
ہم توقع کرتے ہیں کہ ہم بہت سارا کام کر سکیں گے، ہمیں صرف ایک مقام یا کمائی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ پیشہ وارانہ تسکین کے لیے ہمیں مرکزیت کی بھی تلاش رہتی ہے۔
ہم اپنے کام سے چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے ہمیں ایک مقصد کا احساس ملتا رہے، مواقع ملتے رہیں اور خود آگاہی بھی آتی رہے۔
ماضی میں کام اور فُرصت کے درمیان حد کافی واضح طور پر کھینچی جا سکتی تھی لیکن اب جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی میں ایسا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
اگر ہم بہت ڈسپلن نہیں تو بہت مشکل ہے کہ ہم اپنا دھیان کام سے ہٹا سکیں، ای میلز یا سلیک یا پیغام چیک کرنے سے خود کو روک سکیں۔ اس کے مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہماری سوچ ہمارے کام کے گرد ہی چکر کاٹ رہی ہوتی ہے۔
برن آوٹ کی وجوہات کیا ہیں؟
تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ برن آوٹ کی چھ بڑی وجوہات ہیں جس میں کام کی زیادتی، ناکافی خودمختاری، کم معاوضہ ملنا، کمیونٹی سے دوری، اقدار میں مماثلت نہ ہونا اور ناانصافی شامل ہیں۔
یہاں ناانصافی ایک سب سے اہم وجہ سے جس کی شکایت اکثر مجھ سے میرے کلائنٹس بھی کرتے ہیں۔ تعریف یا سراہے جانے میں کمی آپ کو اکثر بےتحاشہ تکلیف کا شکار بنا سکتی ہے۔
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کام کو سراہے نہ جانے کے احساس سے برن آؤٹ کا خطر دُگنا ہو جاتا ہے۔ یہ بہت اضطرابی کیفیت ہوتی ہے اور اس کا علاج زیادہ مشکل بھی نہیں لیکن پھر بھی دفاتر میں کام کرنے والے ہمارے منیجر ہمیں سراہنے کی کوشش نہیں کرتے۔
ہماری ذاتی سوچ کیسے ہمارے اضطراب کو بڑھاتی ہے؟
برن آوٹ اور کمال پرستی کا آپس میں گہرا اور ثابت شدہ تعلق ہے۔ اگر ہم اپنے کام سے کامیابی کی غیر حقیقی توقعات رکھتے ہیں تو ہم اپنے کا بھی انتہائی تُرشی سے جانچتے ہیں اور پھر ہم برن آوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بہت سے لوگوں میں ایک ’اندرونی ناقد‘ ہوتا ہے جو ایک سخت منفی آواز بنا رہتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کے بارے میں کوئی چیخ چیخ کر منفی جملے ادا کر رہا ہو اور ہماری توانائی چوس رہا ہو۔
کیا کوئی حکمت عملی لوگوں کو برن آوٹ سے بچا سکتی ہے؟
مسلسل یا شدید تھکن سے بچنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنی ترجیحات کو سمجھیں تاکہ ہم عقلمندی سے اس بات کا جائزہ لے سکیں کہ ہم نے اپنے کمفرٹ زون میں کتنا وقت لگانا ہے اور طبعیت کی بحالی پر کتنا وقت لگے گا۔
ہم یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہمیں اضطراب میں مبتلا کرنے والی بڑی وجوہات کیا ہیں۔ ہمیں ان کی شناخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان پر قابو پا سکیں۔
بطور کوچ کام کے دوران میں ہمیشہ ’ایکسیپٹینس اور کمٹمنٹ تھراپی‘ کے اصولوں کا استعمال کرتی ہوں۔ یہاں ’ایکسیپٹینس‘ یعنی ’توقعات‘ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے بارے میں ’منفی‘ سوچ رکھنا، ڈر، غصے یا دُکھی ہونے جیسے احساسات رکھنا کوئی بڑی بات نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ان تمام احساسات کا سامنا آپ فوری طور پر کریں۔
کسی طریقے کی تھراپی کے ذریعے اپنے اندر کے ناقد کو غلط ثابت کر سکتے ہیں لیکن یہ سب کرنے میں آپ کی کافی توانائی خرچ ہو سکتی ہے۔
ان احساسات سے نکلنے میں لفظوں کا استعمال بھی آپ کی مدد کرتا ہے جیسے کہ ’میں بہت غصے میں ہوں‘ کی جگہ آپ ’مجھے لگتا ہے مجھے غصہ آ رہا ہے‘ جیسے الفاط کا استعمال کریں۔ اس سے آپ کے سوچنے کے نظریے پر واضح فرق پڑے گا اور یہ اکثر آپ کو کنٹرول میں رہنے کے احساس سے بھی متعارف کروائے گا۔
وہ لوگ جو اپنے ناقد ہوتے ہیں ان کے لیے یہ ایک آزمودہ تکنیک ہے اور اُن کے لیے بھی جو خود کو اکثر کسی کام میں اچھا نہ ہونے کے طعنے دیتے ہوئے پاتے ہیں۔
آپ نے ذکر کیا کہ کام نے ہماری زندگیوں میں مرکزیت اختیار کرلی ہے، اس سے بچنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
جب ہم اپنے کام میں مستقل طور پر مصروف ہوتے ہیں تو یہ ہماری شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ اکثر اتنی خطرناک صورتحال اختیار کر جاتا ہے کہ اس سے بچنا یہ اس سے دور رہنا آپ کو ناممکن نظر آتا ہے۔
جتنا زیادہ کام ہم اپنے وقت کو دیں گے اُتنا ہی کم وقت ہم اپنی زندگی کے دیگر معاملات کو دیں گے۔ ہم جیسے ہی اپنے کام سے فارغ ہوتے ہیں اور اردگرد دیکھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اطراف ’کمرے کتنے خالی ہیں۔‘
یہ بہت ضروری ہے کہ کام کے علاوہ بھی ہماری زندگی میں ایسی چیزیں ہوں جو ہمیں لطف کے احساس سے روشناس رکھیں اور ہمیں یہ بھی پتا چلتا رہے کہ صرف کام ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔
آپ کوئی عادت اپنائیں اور ایسی سرگرمیوں کا انتخاب کریں جس میں آپ کو بار بار آگے بڑھنے کی خواہش نہ ہو۔
یہ سب کر کے آپ خود کو کچھ لازمی حاصل کرنے کے دباو سے باہر نکال سکتے ہیں۔ اس عادت کا مقصد صرف اور صرف زندگی کا لطف اٹھانا اور سکون کا حصول ہونا چاہیے۔