منگل کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھتے وقت میں ہرگز آگاہ نہیں تھا کہ عمران خان کس شدت سے اپنے حامیوں کو آنے والے اتوار کے دن ’’سڑکوں پر نکلنے‘‘ کا حکم دے رہے ہیں۔ اسی باعث میں نے مستقبل کے بجائے ماضی سے رجوع کرتے ہوئے جولائی 2018ء کے مہینے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس ماہ نواز شریف اپنی ا ہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر مریم نواز صاحبہ سمیت لندن سے لاہور تشریف لائے تھے۔ ان کی آمد سے قبل ہی احتساب عدالت باپ بیٹی کو بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت طویل سزائیں سناچکی تھی۔ مسلم لیگ (نون) کے سادہ لوح حامی اس گماں میں مبتلا رہے کہ اگر نواز شریف کے ’’تاریخی استقبال‘‘کے لئے لاہور ایئرپورٹ پر لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوگیا تو شاید حکومت باپ بیٹی کو جہاز سے اترتے ہی گرفتار کرنے کی ہمت سے محروم ہوجائے گی۔ یوں جو ’’وقفہ‘‘ میسر ہوگا اس کے دوران غالباََ ضمانتوں کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔ شہباز شریف کی قیادت میں لیکن عوام کی متاثر کن تعداد لاہور ایئرپورٹ تک پہنچ نہیں پائی۔ باپ بیٹی کو جہاز سے اترتے ہی گرفتا ر کرنے کے بعد ایک اور جہاز میں منتقل کرکے راولپنڈی پہنچادیا گیا۔
کئی سادہ لوح افراد کی طرح میں دل ہی دل میں شہباز شریف کو کوسنے کے بجائے اس کالم اور ایک ٹی وی پروگرام میں انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتارہا۔ مجھے شبہ تھا کہ وہ ریاست کے دائمی اداروں سے طویل المدت بنیادوں پر ’’بنائے رکھنے‘‘ کی عادت کی وجہ سے ’’جان بوجھ کر‘‘ اپنے بھائی کی مدد کے لئے جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے ’’اچھے دنوں‘‘ کے منتظر رہے۔ تقریباََ ایک برس گزرنے کے بعد مسلم لیگ (نون) کے انتخابی سیاست سے نسلوں سے آشناایک رہ نما کی بدولت دریافت ہوا کہ فقط شہباز شریف ہی نہیں نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے بیشتر رہ نما بھی نواز شریف کی آمد کے دن حکومت سے ’’پنگا‘ ‘ لینے کو تیار نہیں تھے۔ان کی خاطر خواہ تعداد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے میدان میں اترچکی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پولنگ سے چند ہی دن قبل وہ اپنے حامیوں سمیت گرفتار ہوجائیں۔ یوں ہوجاتا تو پولنگ والے دن انہیں انتخابی عمل پر نگاہ رکھنے کے لئے پولنگ ایجنٹس ہی نہ مل پاتے۔ ان کے مخالفین کو تقریباََ واک اوور مل جاتا۔ نواز شریف کی مریم نواز صاحبہ سمیت گرفتاری نے تاہم انہیں ’’ہمدردی کا ووٹ‘‘ بھی دلوادیا۔ بالآخر مسلم لیگ (نون) قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی صورت پہنچ گئی۔ شہبازشریف قائد حزب اختلاف کی نشست سنبھالنے کے حقدار ہوئے اور بتدریج شہباز شریف ہی اپریل 2022ء میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد 16مہینوں تک ہمارے وزیر اعظم رہے۔
جولائی 2018ء کے واقعات کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد میں نے بدھ کی صبح چھپے کالم کے اختتام پر تحریک انصاف کو مخلصانہ مشورہ دیا کہ جیل میں مقید اس کے بانی کو فی الوقت شہباز شریف جیسا ’’نرم رویہ‘‘ اختیار کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر فروری2024ء کے انتخاب میں حصہ لینے کے خواہشمندوں نے پہلے ہی کافی ’’جی داری‘‘ دکھادی ہے۔ان کی جماعت کو ’’بلا‘‘ بطور انتخابی نشان میسر نہیں۔تحریک انصاف کی جانب سے کھڑا ہر امیدوار’’آزاد‘‘ حیثیت میں مختلف انتخابی نشانوں کیساتھ میدان میں ہے۔پولنگ کے روز اسے اپنے ممکنہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے اور ’’ووٹ کی پرچی‘‘ دینے والے کیمپ لگانے میں بہت دِقت کا سامنا ہوگا۔اپنے قائد کے حکم پر اگر وہ اتوار کے روز حامیوں سمیت سڑکوں پر نکل آئے تو کئی مقامات پر ’’پلس مقابلے‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ان کے نتیجے میں کئی حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدوار اپنے متحرک حامیوں سمیت گرفتا ر ہوجانے کے باعث 8 فروری کے انتخاب کے لئے درکار تیاری کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔
کالم ختم کرنے کے بعد دفتر بھجوادیا تو اپنے کئی نوجوان ساتھیوں سے رابطہ کیا۔ ان سے یہ معلوم کیا کہ منگل کے دن عمران خان کے خلاف چلائے مقدمات کی سماعت کی رپورٹنگ کیلئے اڈیالہ جیل میں کونسے ساتھی موجود ہوں گے۔ ان سب کے نام اور ٹیلی فون نمبرحاصل کرلینے کے بعد میں اڈیالہ میں ہوئی عدالتی کارروائی کے خاتمے کا انتظار کرتا رہا۔ وہ ختم ہوگئی تو اڈیالہ جیل میں عمران خان کی صحافیوں سے ہوئی گفتگو کی تفصیلات مختلف ذرائع سے معلوم کرنے میں مصروف ہوگیا۔
منگل کے روز بھی بانی تحریک انصاف نے اس خواہش کو دہرایا ہے کہ ان کی جماعت کی جانب سے نامزد امیدوار آنے والے اتوار کے دن سڑکوں پر نکل آئیں۔ یہ حکم صادر کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو خبردار بھی کیا کہ جو ’’امیدوار‘‘ اپنے حامیوں سمیت سڑکوں پر آنے سے گھبرایا اس کا ٹکٹ ’’منسوخ‘‘ کردیا جائے گا۔ آئندہ اتوار 28جنوری 2024ء کے دن آئے گی۔ اس کے عین 11دن بعد عام ا نتخاب کے لئے پولنگ کا دن طے ہوچکا ہے۔
پنجاب کی نگران حکومت نے منگل کے دن صوبہ بھر میں دفعہ 144کے نفاد کا اعلان کردیا ہے۔ فرض کیا کہ آئندہ اتوار کے دن تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار جیل میں قید اپنے قائد کی خواہش کا اتباع کرتے ہوئے سڑکوں پر بھاری بھر کم تعداد میں نکل آئے تو مختلف مقامات پر ’’پلس‘‘ مقابلے‘‘ اور گرفتاریاں یقینی ہیں۔ان کے نتیجے میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے بے شمار پولنگ اسٹیشنوں پر ہمیں شاید وہ کیمپ ہی نظر نہ آئیں جہاں تحریک انصاف کے ممکنہ ووٹر اپنے لئے ووٹ کی پرچی حاصل کرنے کو ترجیح دینا چاہیں گے۔ پولنگ اسٹیشن پر پہنچا ووٹر کسی اور جماعت کے کیمپ سے بھی ایسی پرچی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جس جماعت کے کیمپ سے اس نے ’’پرچی‘‘ حاصل کی ہوتی ہے وہ اس کی حمایت میں بیلٹ پیپرمل جانے کے بعد ٹھپہ نہیں لگاتا۔ کسی بھی جماعت کو اپنے ووٹروں کو ان کے لئے مختص پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے کے لئے پولنگ والے دن کم ازکم 500سے 1000کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔مطلوبہ تعداد میں میسر کارکن بھی مگر انتخابی عمل کے دن کائیاں کھلاڑیوں کی نگرانی ہی میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔آئندہ اتوار کے دن سرکار کو للکارنے کی وجہ سے اگر ایسے کارکن جیلوں میں چلے گئے تو تحریک انصاف کیلئے یہ دکھانا تقریباََ ناممکن ہوجائے گا کہ اس کے نامزد کئے ’’کھمبے‘‘ بھی جیت رہے ہیں۔