’انڈین ریاست گجرات کے علاقے بڑودہ کے واحد ایئرپورٹ پر ایک طیارہ پرواز بھرنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ گذشتہ دو دنوں سے اس رن وے پر سامان سے بھری کاریں آ رہی تھیں اور اس طیارے کے امریکی پائلٹ کو بخوبی اندازہ تھا کہ یہاں کیا چل رہا تھا۔‘
’انڈیا کو آزادی حاصل کیے دو سال ہو چکے تھے۔ امریکی پائلٹ یہ ڈکوٹا طیارہ دو سال قبل ہی برطانوی فوج سے خرید کر ہندوستان لائے تھے اور اس میں تھوڑی بہت ترامیم کر کے وہ اسے سامان اور مسافر بردار پرائیوٹ طیارے کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔‘
’بڑودہ سٹیٹ سے قیمتی سامان لے جانے کی تیاریاں جاری تھیں اور پائلٹ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہا تھا۔‘
’اسی اثنا میں ایئرپورٹ کے رن وے پر ایک رولس رائس کار پہنچی جس میں سے ایک خوبصورت خاتون نمودار ہوئیں۔ تقریباً 30 سال کی یہ جہاز میں سامان لوڈ ہونے کے بعد پائلٹ کے کاک پٹ کی عقبی سیٹ پر براجمان ہو گئیں۔ ان کے ساتھ دو دیگر خواتین بھی موجود تھیں۔‘
جیسے ہی جہاز نے ٹیک آف کیا تو پائلٹ نے خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتا ہے کہ اس طیارے میں لدے سامان میں کیا کچھ ہے چنانچہ وہ اس سامان کو ترسیل کرنے کے پیسے زیادہ لے گا۔
خاتون کو پائلٹ کی یہ بات سُن کر کچھ حیرت نہ ہوئی۔ شاید وہ جانتی تھیں کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے پائلٹ کی بات سُن کر اپنے پرس سے ایک ریوالور نکالا اور پائلٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’تمھیں جیسا کرنے کو کہا گیا تھا ویسا کرو۔‘
اس موقع پر پائلٹ کو احساس ہوا کہ شاید اس نے یہ بات کر کے غلطی کر دی ہے۔
یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ مہارانی سیتا دیوی تھیں۔ بڑودہ کے مہاراجہ پرتاپ سنگھ راؤ گائیکواڑ کی دوسری اہلیہ۔
اس کے ساتھ اس طیارے میں قیمتی سامان کے 56 بکس تھے، جن میں بڑودہ کے شاہی خزانے کا ایک قیمتی حصہ بھی تھا۔
انڈیا سے نکل کر مہارانی پیرس پہنچیں۔ جب مہارانی سیتا دیوی نے پیرس میں رہنا شروع کیا تو انھوں نے یہ کہانی ان الفاظ میں اپنے چند وفاداروں کو سنائی۔ اب یہ اس پر منحصر تھا کہ وہ اس کہانی کو مانتے یا نہیں۔ لیکن اتنی ہمت اور اعتماد کے ساتھ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟
جیولر، فیشن ڈیزائنر اور مصنف میلان ولسن نے اپنی کتاب ‘Van Cleef & Arpels: Treasures and Legends’ میں اس کہانی کا ذکر کیا ہے۔ میلان ولسن نے ونٹیج جیولری پر کافی گہری تحقیق کی ہے اور وہ اس موضوع پر کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
سیتا دیوی کا نام انڈیا کی تاریخ میں ایک خاص حوالہ کیوں؟
بڑودہ کی اس رانی کی محبت کی کہانی تو کافی چرچے میں تھی اور اس وقت اُن کی شادی پر تنازع بھی ہوا تھا۔ سیتا دیوی کو بڑودہ کے مہاراجہ پرتاپ سنگھ راؤ گائیکواڑ سے پیار ہو گیا تھا۔
جب اس محبت کی ابتدا ہوئی تو سیتا دیوی پہلے سے شادی شدہ تھیں اور پہلے شوہر سے ان کا ایک بچہ بھی تھا جبکہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ بھی پہلے سے شادی شدہ اور آٹھ بچوں کے باپ تھے۔ ایسی صورتحال میں اُن کی شادی کی راہ میں کئی رکاوٹیں تھیں۔ تاہم اُس وقت سیتا دیوی نے جو قدم اٹھایا تھا اسے ہندوستانی شاہی خاندانوں کی تاریخ میں منفرد مقام حاصل ہے
جب بھی ہندوستان کے شاہی خاندانوں کی محبت کی بات کی جاتی ہے تو سیتا دیوی کا نام آتا ہے۔
نہ صرف سیتا دیوی کی شخصیت بلکہ اُن کے زیورات اور ملبوسات کا تذکرہ اُس وقت شہر میں زبان زد خاص و عام ہوا کرتا تھا۔ ماہرین کے مطابق وہ اپنے وقت کی سب سے زیادہ ’گلیمرس‘ شخصیت کی مالکہ تھیں اور انھوں نے خوب عیش و عشرت کی زندگی بسر کی۔
انھوں نے اس دور میں بہت سی پرانی روایات کے خلاف بغاوت کی جب شاہی خاندان سے منسلک عورتیں سر ڈھانپتی اور پردہ کرتی تھیں۔
سیتا دیوی کون تھیں اور انھیں بڑودہ کے مہاراجہ سے کیسے پیار ہوا؟
سیتا دیوی 12 مئی 1917 کو اُس وقت کی ریاست مدراس (اب چنئی) میں پیدا ہوئیں۔ وہ سری راج راؤ وینکٹ کمار مہاپتی سوریہ راؤ بہادر گارو اور رانی چنمبا کی بیٹی تھیں۔ پیتھاپورم اس وقت مدراس صوبے کا ایک اہم دارالحکومت تھا۔
سیتا دیوی کی پہلی شادی ویور کے ایک بڑے زمیندار سے ہوئی تھی اور اس شادی سے ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔
گائیکواڑ خاندان کے ایک رکن اور پرتاپ سنگھ راؤ کے بھتیجے جتیندر سنگھ گائیکواڑ نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ’1943 میں سیتا دیوی اور مہاراجہ پرتاپ سنگھ راؤ کی ملاقات مدراس کے ایک ریس کورس میں ہوئی تھی۔ انھیں پہلی ہی نظر میں ایک دوسرے سے پیار ہو گیا تھا۔‘
’سیتا دیوی کی خوبصورتی حیرت انگیز تھی۔ مہاراجہ بھی ان کی خوبصورتی کے سحر میں مبتلا ہو گئے تھے۔ سیتا دیوی مہاراجہ پرتاپ سنگھ راؤ کی شخصیت کی طرف متوجہ ہوئیں اور دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
پی مینن نے اپنی کتاب ’انٹیگریشن آف دی انڈین سٹیٹس‘ میں لکھا ہے کہ ’1939 میں بڑودہ کے تخت پر فائز ہونے کے تین یا چار سال کے اندر انھوں نے مشیروں کے مشوروں پر دوبارہ شادی کر لی۔ اس سے ان کا رتبہ اور وقار متاثر ہوا۔‘
ان کی محبت میں پہلی رکاوٹ سیتا دیوی کے شوہر تھے جو اپنی بیوی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ پرتاپ سنگھ راؤ نے قانونی مشورہ لیا۔ مشیروں نے وہ مشورہ دیا جس نے ہندوستانی اداروں کی تاریخ میں ایک متنازع باب کا اضافہ کیا۔
سیتا دیوی نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لینے کے لیے اسلام قبول کر لیا۔
پی مینن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’پرتاپ سنگھ راؤ نے سنہ 1929 میں پہلی شادی مہارانی شانتا دیوی سے کی تھی۔ شانتا دیوی کا تعلق کولہاپور کے ایک بڑے زمیندار خاندان سے تھا۔ اس شادی سے دونوں کے ہاں 8 بچے ہوئے۔‘
اسلام قبول کرنے کے بعد اکتوبر 1944 میں سیتا دیوی نے خلع کے حصول کے مقدمہ دائر کیا اور عدالت میں حلف نامہ داخل کیا کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہیں۔
کتاب کے مطابق سیتا دیوی نے پہلے اسلام قبول کیا اور پھر اپنے پہلے شوہر سے اسلام قبول کرنے کی درخواست کی، تاہم ان کے شوہر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، اس لیے سیتا دیوی نے اپنے شوہر سے طلاق کے لیے مدراس کی سٹی کورٹ میں درخواست دائر کی جس کے نتیجے میں عدالت نے مسلم قانون کے تحت طلاق کروا دی۔
پہلے شوہر سے طلاق کے بعد سیتا نے دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لیا اور مہاراجہ پرتاپ سنگھ راؤ گائیکواڑ سے شادی کی۔
پی مینن مزید لکھتے ہیں کہ ’26 اور 31 دسمبر کے درمیان انھوں نے آریہ سماج کے نظام کے ذریعے ہندو مذہب اختیار کیا اور پرتاپ سنگھ سے شادی کی۔‘
کتاب ’وین کلیف اینڈ آرپیلز: ٹریژرز اینڈ لیجنڈز‘ میں ان کی شادی کی تاریخ 31 دسمبر بتائی گئی ہے۔
تاہم مہاراجہ سے شادی کرنے کے بعد بھی مشکلات کم نہ ہوئیں۔ مہاراجہ کی بادشاہی میں پہلی بیوی کے زندہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی ممنوع تھی کیونکہ گایکواڑ حکومت نے دوسری شادی پر پابندی کا قانون بنایا تھا۔ تاہم، پرتاپ سنگھ راؤ نے اپنی ہی ریاست کے قانون پر عمل کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’یہ قانون مہاراجہ پر لاگو نہیں ہوتا۔‘
گجرات کے ایک مؤرخ رضوان قادری نے بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ 3 جنوری کو مہاراجہ کی شادی کی خبر اخبار ’سندیش‘ میں شائع ہوئی تھی۔
رضوان قادری نے 15 جنوری 1944 کو شائع ہونے والے ’وندے ماترم‘ اخبار میں ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت خواتین کی تنظیموں نے بھی مہاراجہ کی دوسری شادی کی مخالفت کی تھی۔ پرجا منڈل کے کچھ لیڈروں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ پرجا منڈل کے قائدین نے سوال کیا کہ قانون بنانے والا قانون کیسے توڑ سکتا ہے؟
برطانوی حکام نے شروع میں پرتاپ راؤ کی دوسری شادی کو تسلیم کرنے سے انکارکیا مگر بعد میں اس شرط پر شادی کی منظوری دے دی کہ ان کی بادشاہی کا وارث ان کا بیٹا ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دن پرتاپ سنگھ سیتا دیوی کو اپنے ’نظر باغ محل‘ میں لے گئے اور انھیں شاہی خزانے دکھائے۔ سیتا دیوی دنیا کے بہت سے نایاب قیمتی جواہرات اور ہیروں، موتیوں اور قیمتی پتھروں سے جڑے بہت سے زیورات کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔
سیتا دیوی کو گھومنے پھرنے اور شاپنگ کا شوق تھا
اس وقت گائیکواڑ کی بادشاہی ہندوستان کی تیسری امیر ترین ریاست تھی۔
کتاب ’وان کلیف اینڈ آرپیلز: ٹریژرز اینڈ لیجنڈز‘ میں پرتاپ سنگھ راؤ کو ہندوستان کا دوسرا امیر ترین مہاراجہ بتایا گیا ہے۔
پرتاپ سنگھ مہاراجہ کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ سیتا دیوی کو غیر ملکی سفر، مہنگے سامان کی خریداری اور شاہی پارٹیوں کا شوق تھا۔ وہ ہمیشہ مہنگی برانڈڈ اشیا استعمال کرنے پر اصرار کرتی تھیں۔
تاہم سیتا دیوی کی آمد سے شاہی خاندان میں افراتفری بھی بڑھ گئی۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی پہلی بیوی شانتا دیوی اور سیتا دیوی کے درمیان جھگڑا ہوا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گائیکواڑ خاندان پر تحقیق کرنے والے چندر شیکھر پٹیل نے کہا کہ ’دونوں رانیاں الگ الگ رہتی تھیں۔ لکشمی ولاس پیلس میں شانتا دیوی اور مکر پورہ میں بنے محل میں سیتا دیوی۔‘
جتیندر سنگھ گائیکواڑ کہتے ہیں کہ ’سیتا دیوی کو شکار، گن شوٹنگ، گھڑ سواری کا شوق تھا۔ وہ بہت مہمان نواز تھیں۔ وہ کئی یورپی زبانوں اور فیشن سے واقف تھیں۔‘
سنہ 1946 میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد پرتاپ راؤ اور سیتا دیوی غیر ملکی دورے پر چلے گئے۔ دونوں دو بار امریکہ گئے اور بہت پیسہ خرچ کیا۔ زیادہ تر وقت سیتا دیوی نے پُرتعیش چیزیں خریدنے کے لیے بہت پیسہ خرچ کیا۔
انھیں گاڑیوں کا بھی شوق تھا۔ ان کے پاس مرسڈیز W126 تھی۔ اس کار کو مرسڈیز کمپنی نے خصوصی طور پر سیتا دیوی کے لیے ڈیزائن کیا تھا۔
تاہم جتیندر سنگھ گائیکواڑ کہتے ہیں کہ یہاں پر اچھی چیزیں بیرون ملک سے آتی تھیں اور جدید خیالات کا تبادلہ ہوتا تھا۔ نئی ٹیکنالوجی ہندوستان میں آتی اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے۔
بڑودہ کے خزانے سے قیمتی اشیا غائب
مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے سیتا دیوی کے ساتھ امریکہ اور یورپ کی سیر کے لیے سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے خرچ کیے۔ ریکارڈ کے مطابق انڈین حکومت کو یہ بھی معلوم ہوا کہ انھوں نے شاہی خزانے سے نکال کر قیمتی سامان اور زیورات انگلینڈ بھیجے تھے۔
پی مینن لکھتے ہیں کہ ’انھیں سالانہ ملنے والے 50 لاکھ روپوں کے علاوہ پرتاپ سنگھ راؤ نے ریاستی سرمایہ کاری کے ذخائر، یعنی عوامی فنڈ سے چھ کروڑ روپے نکال کر دیے۔ انھوں نے موتیوں کے سات ہار، قیمتی جواہرات، قیمتی ہیرے اور موتیوں کا قالین خریدا۔ دیگر قیمتی سامان انگلینڈ بھیجا گیا تھا۔‘
رضوان قادری کہتے ہیں کہ ’انھوں نے کروڑوں روپے مالیت کا خزانہ بڑودہ سے منصوبہ بندی کے تحت بیرون ملک بھیجا۔‘
پی مینن لکھتے ہیں کہ بڑودہ میں جواہر خانہ کے کھاتوں میں بھی ڈیڑھ کروڑ روپے کے نئے زیورات کی خریداری ظاہر ہوتی ہے۔ ان میں سے بہت سی چیزیں یا تو کھو گئی تھیں یا ٹوٹ گئیں اور نئے زیورات میں انھیں بدل دیا گیا۔ جواہر خانہ سے کئی غیر قانونی قیمتی سامان بھی برآمد ہوا۔
پی مینن لکھتے ہیں کہ حکومت ہند نے اس پورے معاملے کا آڈٹ کرنے کے لیے ایک خصوصی افسر بھیجا۔ لیکن مہاراجہ پرتاپ سنگھ راؤ نے تحقیقات میں کوئی مدد نہیں کی۔
چندر شیکھر پاٹل کہتے ہیں کہ ’ہندوستانی شاہی خاندان کے افراد اپنے مرتبے کی وجہ سے پاسپورٹ چیک کیے بغیر بیرون ملک سفر کرتے تھے۔ بہت سی مہنگی پینٹنگز، جن میں ایڈگر ڈیگاس اور پکاسو کی پینٹنگز بھی شامل ہیں، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں سوٹ کیسوں میں پیک کر کے بیرون ملک بھیجا گیا تھا۔‘
تاہم گائیکواڑ خاندان کے جتیندر سنگھ گائیکواڑ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے کچھ بھی نہیں چرایا۔ یہ ان کی جائیداد تھی اور یہ ان کا ذاتی معاملہ تھا۔‘
بڑودہ اور دیگر ریاستوں میں یہ رواج تھا کہ سرکاری خزانے کے سامان ذاتی استعمال کے بعد خزانے میں واپس کر دیے جاتے تھے۔ حکومت ہند نے ان تمام اشیا کی گمشدگی کا شک پرتاپ سنگھ راؤ پر کیا۔
اس کے علاوہ حکومت ہند بڑودہ ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے ان کے معاملات پر ان سے ناخوش تھی۔
تاہم مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور اپنے ذریعے کیے گئے اخراجات کی واپسی کا وعدہ کیا۔
پی مینن لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے حکومت ہند نے انھیں سنہ 1951 میں آرٹیکل 366 (22) کے تحت مہاراجہ کے عہدے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ ان کے بڑے بیٹے یوراج فتح سنگھ کو بڑودہ کے تخت پر بٹھا دیا۔
ایک طرف مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی تخت نشینی ہوئی لیکن دوسری طرف سیتا دیوی کے مہنگے شوق کم نہیں ہو رہے تھے۔
فیشن اور جیولری کا شوق
سیتا دیوی کا ریشمی ساڑھیوں اور زیورات کا جنون اس وقت فیشن کی دنیا میں ایک گرما گرم موضوع تھا۔
جیتندر سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مہارانی سیتا دیوی کو ہندوستان کی والس سمپسن کہا جاتا تھا۔ والیس سمپسن ایک امریکی سوشلسٹ تھیں۔ انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کو ان سے پیار ہو گیا تھا۔ لیکن چونکہ وہ طلاق یافتہ تھیں اس لیے ’قدامت پسند برطانوی معاشرہ‘ انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی کنگ ایڈورڈ ہشتم نے والس سمپسن سے شادی کی۔‘
والس سمپسن اور سیتا دیوی کی کہانیاں ایک جیسی تھیں جس کی وجہ سے لوگ سیتا دیوی کو انڈین والس سمپسن کہنے لگے۔
ان کا روبی، ہیرے اور موتیوں کے زیورات کا مجموعہ حیرت انگیز تھا۔ ان کی زندگی ان قیمتی جواہرات پر منحصر تھی۔ ان کے پاس سینکڑوں مہنگی ساڑھیاں، پرس، جوتوں اور زیورات کا مجموعہ تھا۔
سنہ 1949 میں سیتا دیوی کی 78.5 کیرٹ انگلش ڈریسڈن ہیروں کا ہار پہنے ایک تصویر مقبول ہوئی تھی۔ فیشن اور زیورات سے ان کی محبت کا مغربی فیشن میگزین میں کثرت سے چرچا ہوا۔
کتاب ’وان کلیف اینڈ آرپیلز: ٹریژرز اینڈ لیجنڈز‘ میں بتایا گیا ہے کہ سیتا دیوی کے پاس بیش بہا موتیوں کا ہار تھا۔ یہ موتی بسارا موتی تھے جو بحیرہ احمر میں پائے جانے والے نایاب موتی ہیں۔ اس زمانے میں موتیوں کے اس ہار کی قیمت 599,200 ڈالر بنتی تھی۔
ان کے پاس دو اور ہار تھے جن کی مالیت اس وقت کے مطابق 50,400 ڈالر بنتی تھی۔
ان کے مجموعے میں 42,00 ڈالر مالیت کے دو سیاہ موتیوں کے ہار بھی شامل تھے۔ 33,600 ڈالر کی قیمتی موتی کی انگوٹھی بھی تھی۔
اس کے علاوہ ان کے پاس وہ قالین بھی تھا جس پر موتی جڑے ہوئے تھے۔
چندر شیکھر پاٹل کہتے ہیں کہ ’مہاراجہ کھنڈراؤ کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ اس لیے انھیں کچھ مولوی حضرات نے مشورہ دیا کہ اگر آپ مدینہ میں پیغمبر اسلام کے مقدس مقام پر چادر چڑھائیں گے تو آپ کے ہاں بیٹا ہو گا۔ چنانچہ کھنڈراؤ نے چڑھاوے کے لیے ان گنت موتیوں سے بنا قالین تیار کروایا مگر اسی دوران ان کی موت ہو گئی اور وہ قالین کبھی مدینہ نہیں پہنچ سکا۔‘
موتیوں کا یہ قالین انمول تھا۔ آٹھ فٹ لمبے اس قالین پر بے شمار موتی تھے، جن میں یاقوت اور پکھراج، ہیرے اور قیمتی پتھروں جڑے تھے۔
مگر بعدازاں یہ قالین سیتا دیوی تک پہنچ گیا۔ سیتا دیوی کا یہ قالین قطر کے نیشنل میوزیم تک کیسے اور کب پہنچا اس کے بارے میں بہت سی دلچسپ کہانیاں ہیں۔ ان تمام کہانیوں میں ایک سچی کہانی یہ ہے کہ موتیوں کا یہ قالین اب قطر کے نیشنل میوزیم کا حصہ ہے۔
سیتا دیوی کی موت کے بعد موتیوں کا یہ قالین جنیوا کے ایک لاکر سے ملا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سیتا دیوی کے پاس سونے اور چاندی کی پلیٹیں بھی تھیں۔ کتاب ’وین کلیف اینڈ آرپیلز: ٹریژرز اینڈ لیجنڈز‘ کے مطابق سنہ 2009 میں ان کا ایک ہار دو ملین یوروز میں فروخت ہوا تھا۔
’وہ فرانس میں آباد ہونے سے پہلے اکثر سویٹ اور وان کلیف اور آرپلز کے بوتیکوں میں جاتی تھیں۔‘ انھوں نے جیک آرپلز کو بہت سی فیشن ایبل اشیا بنانے کا کام سونپا۔ ان کا ’ہندو ہار‘ ایک شاندار تخلیق تھی۔‘
’یہ ہار بڑودہ کے شاہی خزانے سے لائے گئے قیمتی جواہرات اور 150 قیراط سے زیادہ وزنی 13 کولمبیا کے زمرد سے بنایا گیا تھا۔‘
اس طرح وہ اپنے ہیروں اور موتیوں کے زیورات کی وجہ سے اس زمانے میں ’پیرس کی ملکہ‘ بھی کہلاتی تھیں۔
جتیندر سنگھ گائیکواڑ کا کہنا ہے کہ سیتا دیوی کو زیورات اور اس کے ڈیزائن کی بھی سمجھ تھی۔
سیتا دیوی اور پرتاپ سنگھ راؤ الگ ہو گئے
پرتاپ راؤ اور سیتا دیوی نے یورپ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے انھوں نے موناکو کے قریب مونٹی کارلو میں ایک حویلی خریدی۔
یہ جوڑا اکثر یہاں آیا کرتا تھا۔ اس وقت یہ سیتا دیوی کا مستقل پتہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پرتاپ سنگھ راؤ نے بڑودہ کے خزانے سے کچھ قیمتی چیزیں یہاں منتقل کی تھیں۔
اس کے بعد سیتا دیوی نے پیرس میں گھر بھی لے لیا۔
کتاب ’وان کلیف اینڈ آرپیلز: ٹریژرز اینڈ لیجنڈز‘میں میلان وین سیٹ نے مہارانی سیتا دیوی پر ایک مکمل باب لکھا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ سیتا دیوی اور پرتاپ سنگھ نے اپنے امریکی دورے پر اس دور میں دس ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔
آٹھ مارچ 1945 کو ان کے ہاں ایک بیٹے کی بھی پیدائش ہوئی۔ پرتاپ سنگھ راؤ نے انسکا نام اپنے دادا کے نام پر سیاجی راؤ رکھا اور انھیں پیار سے شہزادہ کہا جاتا تھا۔
لیکن کچھ عرصے بعد دونوں کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے اور دونوں الگ ہو گئے۔ ان کا بیٹا پرنسی سیتا دیوی کے پاس رہا۔
پرتاپ سنگھ راؤ سے علیحدگی کے باوجود انھوں نے مہارانی کا لقب اختیار کیے رکھا۔ ان کے پاس جو رولس رائس کار تھی اس میں بڑودہ کے شاہی خاندان کی علامات بھی موجود تھیں۔
چندر شیکھر پاٹل کہتے ہیں کہ ’سیتا دیوی بہت فضول خرچی کرتی تھیں۔ وہ تفریح پر بہت پیسہ خرچ کرتی تھیں، جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور سنہ 1956 میں ان کی طلاق ہو گئی۔‘
جتیندر سنگھ گائیکواڑ کہتے ہیں کہ ’مہاراج پرتاپ سنگھ راؤ نے انگلینڈ میں گھوڑوں کا فارم بنایا تھا۔ سیتا دیوی سے طلاق کے بعد وہ وہیں رہے اور سنہ 1968 میں ان کی وفات ہوئی۔‘
والس سمپسن کے ساتھ سیتا دیوی کی بحث
پرتاپ سنگھ راؤ سے طلاق کے بعد سیتا دیوی نے بہت سی قیمتی چیزیں فروخت کر دیں۔ چندر شیکھر پاٹل کہتے ہیں کہ انھیں اپنی عیش و عشرت کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ ان کا طرز زندگی بہت پرتعیش تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ قیمتی چیزیں بیچ دیں۔‘
کتاب ’وین کلیف اینڈ آرپیلز: ٹریژرز اینڈ لیجنڈز‘ میں ایک واقعے کا ذکر ہے، جس میں سیتا دیوی اور ڈچز آف ونڈسر والیس سمپسن کے درمیان ایک پارٹی میں زیورات پر جھگڑا ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیتا دیوی نے وہ زیور بیچ دیا تھا جو والس سمپسن نے پہنا ہوا تھا۔ والس سمپسن نے ڈیزائن میں اس کو خرید کر تبدیلی کی تھی اور کچھ نئے ہیرے اور قیمتی پتھر اس شامل کیے تھے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ہار نیا ہے۔
مگر سیتا دیوی نے اس کو پہچان لیا جس پر سمپسن کو غصہ آ گیا۔
اگرچہ اس ہار کو بنانے والے جیولر نے بھی ان الزامات کی تردید کی لیکن سمپسن نے اس واقعے سے ذلت محسوس کی اور زیورات جیولر کو واپس کر دیے۔
اس واقعہ کے بعد سمپسن اور سیتا دیوی نے ایک دوسرے کے سامنے آنے سے گریز کیا۔ اس تقریب سے قبل دونوں کو مغربی فیشن میں دیکھا گیا تھا، پارٹیوں کی میزبانی شاہی اور امیر لوگوں نے کی۔
سیتا دیوی کو سگریٹ نوشی کا بھی شوق تھا۔ وہ دنیا کے مہنگے ترین سگریٹ اور سگار پیتی تھیں۔ ہوانا کے سگار ان کے پسندیدہ سگاروں میں سے تھے۔
ان کا سگریٹ کیس وین کلیف اینڈ آرپلز نے ڈیزائن کیا تھا اور اس میں یاقوت بھی جڑے ہوئے تھے۔
کتاب ’وین کلیف اینڈ آرپیلز: ٹریژرز اینڈ لیجنڈز‘ میں ذکر کیا گیا ہے کہ ’ایک افواہ یہ بھی تھی کہ ان کی خوبصورتی کا راز ہندوستانی شراب میں چھپا ہوا ہے۔ یہ افواہ تھی کہ یہ شراب موروں اور ہرنوں کے خون، سچے موتیوں کے پاؤڈر، زعفران اور شہد کے خمیر سے دریا کنارے تیار کی جاتی ہے۔‘
جتیندر سنگھ گائیکواڑ کہتے ہیں کہ ’ان کے بارے میں بہت سی منفی اور تضحیک آمیز تحریریں لکھی گئی ہیں۔ لیکن وہ ایسی نہیں تھیں۔ وہ پڑھی لکھی اور فیشن آئیکون تھیں۔ ان میں شائستگی، سمجھداری اور بے مثال خوبصورتی بھی تھی۔‘
وہ اپنے بیٹے کی حادثاتی موت کے بعد صدمے میں تھیں اور اس واقعے کے چار سال بعد سنہ 1989 میں فوت ہو گئیں۔