مشرف:’رِٹ پر سزا ختم نہیں ہوتی،اپیل پر ہی ختم ہو گی‘
سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے گذشتہ برس دسمبر میں آئین شکنی کے مقدمے میں خصوصی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کی طرف سے دائر کی گئی اس اپیل میں وفاق اور خصوصی عدالت کو فریق بنایا گیا ہے۔
اس اپیل میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت نے آئین شکنی کے مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے نہ تو ملزم کے وکیل کو سنا اور نہ ہی اُنھیں شفاف ٹرائل کا موقع دیا گیا۔
اپیل میں یہ موقف بھی اپنایا گیا ہے کہ خصوصی عدالت نے ضابطہ فوجداری کے قواعد کو سامنے نہیں رکھا اور ان کے موکل کو ان کی عدم موجودگی میں موت کی سزا سنائی گئی ہے جو کہ خلافِ قانون ہے لہٰذا خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے گذشتہ سال دسمبر میں آئین شکنی کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو پانچ بار سزائے موت کا حکم دیا تھا۔
اس اپیل میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اس کے علاوہ پرویز مشرف کی طرف سے ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے سنگین غداری کیس کی شکایت داخل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی منظوری نہیں لی گئی۔
عدالت غیر آئینی تو سزا کے خلاف اپیل کیوں؟
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سابق فوجی صدر کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
نتیجتاً یہ سوال موجود ہے کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے اس خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دیا ہے تو کیا اس کی سنائی گئی سزا بھی اس کے ساتھ ختم نہیں ہو گئی؟ اور ایسی صورت میں اس پہلے سے ختم سزا کے خلاف اپیل کیسے دائر کی جا سکتی ہے؟
کچھ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو ہی غیر آئینی قرار دیا ہے تو پھر اس عدالت کے فیصلے بھی غیر قانونی قرار پا کر ختم ہوجائیں گے۔
تاہم کچھ قانونی ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ خصوصی بینچ کی تشکیل سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئی تھی اس لیے سپریم کورٹ کی ایک ماتحت عدالت سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل کردہ عدالت کو کیسے ختم کرسکتی ہے؟
اس حوالے سے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک رٹ پٹیشن پر آیا تھا جو کہ خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو موت کی سزا سنانے کے فیصلے سے پہلے دائر کی گئی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ اگرچہ لاہور ہائی کورٹ میں یہ رٹ گذشتہ تین ماہ سے زیر سماعت تھی لیکن اس کے باوجود خصوصی عدالت نے آئین شکنی کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ رٹ پٹیشن پر سزائیں ختم نہیں ہوتیں اور وہ سزا صرف اپیل کے ذریعے ہی ختم ہوگی۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کے پاس خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے اپیل دائر کرنے کا آج آخری دن تھا۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی فریق وفاقی حکومت ہے تاہم ابھی تک اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی۔
قانونی ماہر اور اسلام آباد کے سابق ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود جہانگیری کا کہنا ہے کہ اگر وفاق اس فیصلے کے خلاف اپیل میں نہیں جاتی تو کوئی بھی شخص لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں یہ موقف لے کر درخواست دائر کرسکتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس درخواست کو از خود نوٹس میں تبدیل کرکے اس کو سماعت کے لیے مقرر کرسکتی ہے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کے روز پاکستان بار کونسل کے اجلاس میں خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دینے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر غور ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا عدالت عالیہ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا یا نہیں۔
بشکریہ بی بی سی اُردو