Site icon DUNYA PAKISTAN

ارشد ندیم کی اکلوتی ’خراب‘ جیولن اور پاکستان کے لیے 32 برس بعد اولمپکس میڈل جیتنے کا خواب

Share

رواں سال پیرس اولمپکس میں ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے میڈل کی واحد امید سمجھے جانے والے جیولن تھروئر ارشد ندیم کو اپنے پاس موجود واحد بین الاقوامی معیار کی جیولن کے حوالے سے مشکلات درپیش ہیں۔

ارشد ندیم 32 برس میں پاکستان کے لیے اولمپکس میں پہلا تمغہ حاصل کرنے کی امید ہیں تاہم ان کے پاس موجود اکلوتی جیولن بھی خراب ہو چکی ہے۔ دوسری جانب ان کے حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا کے لیے حکومت نے ٹوکیو اولمپکس سے پہلے 177 جیولن خریدے تھے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ارشد نے اپنی جیولن سے متعلق درپیش مشکلات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی جیولن کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہو سکا لیکن اس کے لیے ’بٹ صاحب (کوچ)، فیڈریشن والے کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ایک جگہ بات ہوئی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اس جیولن کی قیمت سات سے آٹھ لاکھ کے قریب ہے جس کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘

پیرس اولمپکس میں ارشد ندیم کا جیولن تھرو کا ایونٹ اگست میں منعقد ہو گا جس سے قبل وہ جنوبی افریقہ میں پانچ ہفتے کے پریکٹس کیمپ کے لیے جائیں گے اور پیرس اولمپکس کے لیے تیاری کریں گے۔

ارشد ندیم کے مطابق ان کی پاس ایک ہی بین الاقوامی معیار کی جیولن ہے جو اس وقت خراب حالت میں ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان نے سنہ 1992 کے بعد سے اولمپکس میں کوئی بھی میڈل نہیں جیتا ہے، تب پاکستان ہاکی ٹیم نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ اب لگ بھگ 32 برس بعد ارشد ندیم کی شکل میں پاکستان کے لیے اس حوالے سے امید پیدا ہوئی ہے۔

ارشد پہلے ہی پاکستان کے لیے کامن ویلتھ گیمز میں سونے اور عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیت چکے ہیں، یوں وہ پاکستان کی تاریخ کے اب تک کے عظیم ترین ایتھلیٹ بن چکے ہیں۔

پاکستانی حکام ماضی میں بھی ارشد ندیم کو وہ تمام سہولیات دینے میں ناکام رہے ہیں جو ان کے پائے کے دنیا کے دیگر ایتھلیٹس کو ملتی ہیں۔

مثال کے طور پر جیولن تھرو ایونٹ میں ارشد کے حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا جنھوں نے عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں طلائی تمغہ حاصل کیا گذشتہ برس دسمبر سے اس سال فروری تک جنوبی افریقہ میں ٹریننھگ کرتے رہے اور پھر اب مارچ کے بعد سے انڈیا کی وزارتِ یوتھ افیئرز اور سپورٹس کے مشن اولمپکس سیل کی جانب سے انھیں ترکی میں مارچ سے مئی تک ٹریننگ کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

اس سے پہلے نیرج فن لینڈ، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جمہوریہ چیک، پولینڈ اور سویڈن میں بھی حکومتی خرچے پر ٹریننگ کے لیے جاتے رہے ہیں۔

انڈیا کی سپورٹس اتھارٹی کی جانب سے جاری ایک دستاویز کے مطابق سنہ 2021 کے اولمپکس سے قبل تقریباً سوا ایک سال کے لیے نیرج چوپڑا کی ٹریننگ پر حکومت کی جانب سے لگ بھگ سات کروڑ انڈین روپے لگائے گئے تھے۔

ان میں بین الاقوامی ٹریننگ کیمپس کے علاوہ 177 نئے جیولنز کی خریداری کے علاوہ 74 لاکھ کی ایک جیولن تھرو مشین بھی خریدی تھی۔

اس دوران ایک اچھی خبر یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ٹویوٹا پاکستان کی جانب سے ارشد ندیم کو پیرس اولمپکس تک سپانسر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فیس بک اور انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ میں ٹویوٹا پاکستان کا کہنا تھا کہ ’ارشد ندیم کی اپنے کھیل کے لیے انتھک لگن ہم سب سے کے لیے مشعلِ راہ ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی کہ اگر آپ اپنے خوابوں کو پانے کی کوشش کریں تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔

ارشد نے رواں سال فروری میں برطانیہ سے گھٹنے کی سرجری کروائی تھی اور فروری کے اواخر میں ہی پاکستان واپس پہنچے ہیں۔

ارشد کے مطابق انھوں نے اپنی لیزر سرجری کے چند روز بعد ہی فزیو شروع کر دی تھی اور اب باقاعدہ پریکٹس میں آہستہ آہستہ واپسی کر رہے ہیں اور اب بہت بہتر محسوس کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ایتھلیٹس کی انجریز ان کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں اور ہمیں اس حوالے سے خود کو تیار کرنا ہوتا ہے اور اگلے ایونٹ پر نظریں رکھنی ہوتی ہیں۔ میں نے اس سے پہلے بھی (زخمی ہونے کے باوجود) کھیل چکا ہوں۔‘

خیال رہے کہ ارشد اپنے کریئر کے دوران اس سے پہلے بھی متعدد انجریز کا شکار رہے ہیں۔ گذشتہ سال عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں وہ پاکستان کی تاریخ میں اس ایونٹ میں تمغہ جیتنے والے واحد ایتھلیٹ بن گئے تھے۔ انھوں نے جیولن تھرو ایونٹ میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا اور وہ اس ایونٹ میں بھی انجرڈ تھے۔

تاہم اس ایونٹ سے پہلے انھوں نے کہنی کی سرجری کروائی تھی جبکہ اس ایونٹ کے بعد گذشتہ برس اکتوبر میں انھیں گھٹنے کی انجری کے باعث ایشیئن گیمز سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔

گذشتہ ہفتے ارشد ندیم کی جیولن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک صحافی کی جانب سے ان کی جیولن کی شکل تبدیل ہونے اور اس کے باعث انھیں پریکٹس میں مشکلات کا سامنا کرنے کے حوالے سے بتایا گیا تھا اور اس حوالے سے رقم اکٹھی کرنے کی بات کی گئی تھی۔

تاہم ارشد ندیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انھوں نے کسی کو بھی ایسا کرنے کا نہیں کہا اور اس حوالے سے ان کے کوچ سلمان بٹ اور کچھ دیگر افراد کوشاں ہیں۔

خیال رہے کہ جیولن کی ساخت اور اس کا معیار عالمی معیار سے مطابقت رکھنے پر ہی ایک ایتھلیٹ اچھی پریکٹس کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

جیولن کی ساخت اور اس کا معیار اس لیے بھی اہم ہوتا ہے کیونکہ جیولن تھروئر کی جانب سے اسے فضا میں پوری طاقت سے ایک مخصوص سمت میں پھینکا جاتا ہے اور اگر اس کا توازن خراب ہو جائے یا شکل تبدیل یا ٹوٹی ہوئی ہو تو یہ مختلف سمت میں جا سکتی ہے جس سے تھرو کا فاصلہ کم ہو سکتا ہے۔

ایتھلیٹ کے لیے بین الاقوامی معیار کی جیولن کا پریکٹس میں استعمال اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان ایونٹس میں چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اور تھوڑی سی اونچ نیچ بھی تمغے کا فرق ڈال سکتی ہے۔

میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم کون ہیں؟

ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں کے نواحی گاؤں چک نمبر 101-15 ایل سے ہے۔

ان کے والد راج مستری ہیں لیکن اُنھوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ ارشد ندیم کے کریئر میں دو کوچز رشید احمد ساقی اور فیاض حسین بخاری کا اہم کردار رہا ہے۔

رشید احمد ساقی ڈسٹرکٹ خانیوال ایتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کے علاوہ خود ایتھلیٹ رہے ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں باصلاحیت ایتھلیٹس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے ہیں۔

سنہ 2021 میں رشید احمد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد ندیم جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے، اُنھیں وہ اس وقت سے جانتے ہیں۔ ’اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔

اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘

رشید احمد ساقی کہتے ہیں ‘میرے ارشد ندیم کی فیملی سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔ ارشد نے پنجاب یوتھ فیسٹیول اور دیگر صوبائی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔’

وہ کہتے ہیں ʹیوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔’

رشید احمد ساقی بتاتے ہیں ʹمیں نے ارشد ندیم کو ٹریننگ کے لیے پاکستان ایئر فورس بھیجا لیکن ایک ہفتے بعد ہی واپس بلا لیا۔ اس دوران پاکستان آرمی نے بھی ارشد ندیم میں دلچسپی لی بلکہ ایک دن آرمی کی گاڑی آئی اور اس میں موجود ایک کرنل صاحب میرا پوچھ رہے تھے۔

‘میں گھبرا گیا کہ کیا ماجرا ہے؟ لیکن جب اُنھوں نے ارشد ندیم کی بات کی تو میری جان میں جان آئی۔ کرنل صاحب بولے ارشد ندیم کو آرمی میں دے دیں، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ کرنل صاحب نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ آپ لوگ اس کی ٹریننگ ملٹری انداز میں کریں گے۔ بہرحال اس کے بعد میں نے ارشد ندیم کو واپڈا کے ٹرائلز میں بھیجا جہاں وہ سلیکٹ ہو گئے۔‘

ارشد ندیم شادی شدہ ہیں ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

رشید احمد ساقی نے بتایا تھا کہ ’میں ارشد ندیم کو مذاقاً کہتا تھا کہ اولمپکس میں شرکت کا خواب پورا ہو جائے تو پھر شادی کرنا، لیکن آپ کو پتہ ہی ہے کہ گاؤں میں شادیاں کم عمری اور جلدی ہو جایا کرتی ہیں۔‘

ارشد ندیم کا سفر میاں چنوں کے گھاس والے میدان سے شروع ہوا جو اُنھیں انٹرنیشنل مقابلوں میں لے گیا۔

ارشد ندیم کے کوچ فیاض حسین بخاری ہیں جن کا تعلق پاکستان واپڈا سے ہے۔ وہ خود بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

فیاض حسین بخاری نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد ندیم ایک سمجھدار ایتھلیٹ ہیں جو بہت جلدی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کام ایک عام ایتھلیٹ چھ ماہ میں کرتا ہے ارشد وہ کام ایک ماہ میں کر لیتے ہیں۔‘

اُن کے مطابق دو سال قبل ہونے والی ساؤتھ ایشین گیمز سے قبل اُن دونوں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اولمپکس میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے نہیں جانا بلکہ کارکردگی کے ذریعے کوالیفائی کریں گے۔

Exit mobile version