لاہور کے علاقے اسلام پورہ کے ایک گھر میں اتوار کو عامر سرفراز عرف تانبا پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر سے پاکستان میں ایسے واقعات میں مبینہ طور پر انڈیا کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
یہ قاتلانہ حملہ تھانہ اسلام پورہ کی حدود میں ایک گھر میں نامعلوم افراد کی جانب سے کیا گیا جس کے بعد عامر تانبا کے بڑے بھائی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق انھیں ’زخمی حالت میں برائے علاج معالجہ بذریعہ ایمبولینس شفٹ کیا گیا۔‘
اس پراسرار واقعے کو سنہ 2013 میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید انڈین شہری سربجیت سنگھ کے قتل سے جوڑا جا رہا ہے۔
سربجیت سنگھ سنہ 1990 سے پاکستان میں جاسوسی اور بم دھماکے کرنے کے الزام میں قید تھے جب انھیں جیل میں دو قیدیوں کی جانب سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور ہلاک ہو گئے۔
ان کے قتل کا الزام جیل ہی میں قید اور سزائے موت کے منتظر دو قیدوں عامر سرفراز عرف تانبا اور ان کے ساتھی مدثر منیر پر عائد کیا گیا تھا تاہم لاہور کی مقامی عدالت نے انھیں سنہ 2018 میں عدم گواہی کی بنیاد پر بری کر دیا تھا۔
سربجیت کے قتل کے واقعے نے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں تناؤ میں مزید اضافہ کیا تھا۔
اتوار کو ہونے والے واقعے کے حوالے سے عامر تانبا کے بھائی جنید سرفرار کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’میرے بڑے بھائی عامر سرفراز اپنے گھر میں موجود تھے۔‘
’میں نیچے والے پورشن میں تھا اور باہر سے اوپر والے پورشن کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار ہنڈا 125 پر آئے، ایک نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور دوسرے نے ماسک لگایا ہوا تھا۔ دونوں اوپر والے پورشن گئے اور عامر سرفراز پر تین فائر کیے گئے۔‘
مقدمہ درج کرنے والے پولیس اہلکار سجاد حسین نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ وہ وقوعہ پر موجود نہیں تھے اس لیے انھیں عامر سرفراز کی موجودہ صورتحال کے بارے میں علم نہیں جبکہ تھانہ اسلام پورہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں اس بارے میں مزید معلومات نہیں۔
اس واقعے کے بارے میں جب وزیرِ داخلہ محسن نقوی سے ایک پریس کانفرنس میں سوال پوچھا گیا تو ان کا کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے واقعات میں ماضی میں انڈیا ملوث رہا ہے لیکن فی الحال تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ابتدائی شواہد اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں لیکن میں تحقیقاتی رپورٹ آنے سے پہلے کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘
خیال رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں جب پاکستان میں کسی واردات کا الزام انڈیا پر عائد کیا جا رہا ہے، گذشتہ دو برس کے دوران ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں پاکستان میں قتل ہونے والے ’سابق جہادی کمانڈروں‘ کو پراسرار طور پر ہلاک کیا جاتا رہا اور یہ افراد جن مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی جانب سے اس کا الزام انڈیا پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔
برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا ’غیر ملکی سرزمین پر رہنے والے ریاست مخالف عناصر‘ کو ختم کرنے کی ایک وسیع حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے اور اس ضمن میں اس نے سنہ 2020 سے اب تک پاکستان میں بھی متعدد کارروائیاں کی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی رپورٹ سے متعلق جب انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے مقامی میڈیا میں ایک انٹرویو کے دوران سوال پوچھا گیا تو انھوں نےاس بات کی تصدیق یا تردید تو نہیں کی مگر یہ ضرور کہا کہ ’اگر کسی پڑوسی ملک سے کوئی دہشت گرد انڈیا کو پریشان کرنے یا یہاں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مناسب جواب دیا جائے گا۔‘
عامر سرفراز عرف تانبا کون ہے؟
عامر سرفراز عرف تانبا کا نام اس وقت مقامی میڈیا میں گردش کرنے لگا تھا جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ لاہور کی جیل میں قید انڈین شہری سربجیت سنگھ کو قتل کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے سربجیت سنگھ کو سنہ 1990 میں اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ لاہور اور دیگر علاقوں میں بم دھماکے کرنے کے بعد واہگہ بارڈر کے راستے انڈیا فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
دوران تفتیش انھوں نے ان بم حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا جس پر انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے انھیں 1991 میں موت کی سزا سُنائی تھی۔
اس عدالتی فیصلے کو پہلے لاہور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
سربجیت کے ورثا نے اُن کی معافی کے لیے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو درخواست دی تھی جسے انھوں نے رد کر دیا تھا اور انھیں مئی 2008 میں پھانسی دی جانی تھی تاہم تین مئی کو حکومتِ پاکستان نے اس پھانسی پر عملدرآمد عارضی طور پر روک دیا تھا۔
صحافی ماجد نظامی کے مطابق ’اس وقت عامر سرفراز عرف تانبا اور مدثر منیر کو قتل اور ڈکیتی کے مقدمات میں مقامی عدالت کی جانب سے قید اور سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔‘
’یہ دونوں جیل میں اپنی سزا بھگت رہے تھے او ان کے کیسز اعلیٰ عدالتوں میں اپیلوں پر تھے۔‘
ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ’سربجیت سنگھ کو قتل کرنے کے بارے میں اس وقت کے حکام نے بتایا تھا کہ دو قیدیوں نے کھانا کھاتے ہوئے سربجیت سنگھ کو بلیڈ اور اینٹوں کے وار کر کے زخمی کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں پر وہ دم توڑ گئے تھے۔‘
ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد عامر سرفراز عرف تانبا اور مدثر منیر پر مقدمہ چلا مگر اس کیس میں ان کو اس بنیاد پر بری کر دیا گیا کہ کوئی شہادت موجود نہیں اور استغاثہ آلہ قتل بھی بر آمد نہیں کر سکا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس دوران انڈین جیل میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ دیکھا گیا تھا کہ جس میں ایک پاکستانی ثنا اللہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیالکوٹ کے رہائشی تھے، کو جیل میں قتل کر دیا گیا اور بعد میں اس قتل کا ملزم بھی انڈیا میں بری ہو گیا تھا۔‘
ماجد نظامی کے مطابق ’اس دوران عامر سرفراز عرف تابنا کے دیگر قتل، ڈکیتی، منشیات فروشی کے مقدمات عدالتوں میں چلتے رہے اور اعلیٰ عدالتوں میں ان کی سزائے موت کے خلاف اپیل کے فیصلے ان کے حق میں ہوئے اور یہ کچھ عرصہ پہلے رہا ہو کر جیل سے باہر نکل آئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جیل سے رہائی کے بعد عامر سرفراز عرف تانبا کو علاقے میں زیادہ مضبوط اور بااثر سمجھا جانے لگا۔‘
بی بی سی کی پولیس سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق رہائی کے بعد ان پر چار مختلف مقدمات لاہور کے چار مختلف تھانوں میں درج ہوئے۔ یہ مقدمات اقدامِ قتل، دھمکیوں، پولیس کو دھمکیاں، تشدد وغیرہ شامل تھیں۔
ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رہائی کے بعد عامر سرفراز عرف تانبا سنبھالے نہیں جا رہا تھا جبکہ اس پر جو مقدمات درج ہوتے وہ ان میں گرفتاری کے بعد پہلے ضمانتیں حاصل کر لیتا۔‘
تنازعات پر نظر رکھنے والے صحافی فیض اللہ کے مطابق عامر سرفراز عرف تانبا پر ہونے والا حملہ اس سے پہلے انڈین رابطوں اور کالعدم جماعتوں کے جو ارکان قتل ہوئے، ان سے بہت مختلف ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ان واقعات میں دیکھا گیا کہ وہ قتل محفوظ طریقے سے کیے گئے یعنی زیادہ تر قتل مساجد میں نماز پڑھتے ہوئے کیے گئے تھے یا گھر کے باہر محفوظ طریقے سے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عامر سرفراز عرف تانبا پر گھر میں گھس کر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جو انتہائی بے باک واردات ہے۔‘
’اس واردات کا طریقہ کار گینگ وار کی ہونے والے وارداتوں سے ملتا ہے جس میں ملزم بے پرواہ ہو کر واردات کرتے ہیں اور ہدف پر اس مقام پر حملہ کیا جاتا ہے جہاں پر وہ خود کو بہت محفوظ سمجھ رہا ہوتا ہے۔‘