پاکستانی اداکارہ شازیل شوکت جنھوں نے بہت ہی کم وقت میں نا صرف پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں جگہ بنائی بلکہ اب وہ اپنی منفرد اداکاری کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں بھی کامیاب ہو گئی ہیں۔
شازیل شوکت کو پاکستانی انڈسڑی میں آئے ہوئے ابھی چار سال ہوئے ہیں۔ اس کم عرصے میں وہ سات سے زیادہ ڈراموں میں کام کر چکی ہیں۔ حال ہی میں نشر ہونے والے ڈارمے عداوت میں اُن کے کردار کو جو پذیرائی ملی ہے وہ شاید باقی ڈراموں سے کئی زیادہ ہے۔
شازیل کی ’بولڈ شخصیت‘ کی وجہ سے اُنھیں سوشل میڈیا پر کافی تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ جس پر شازیل کا کہنا ہے کہ وہ ’جیسی حقیقی زندگی میں ہیں ویسی ہی سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں۔‘ بی بی سی نے ان سے ایک خصوصی نشست میں ان کے ڈرامہ انڈسٹری میں آنے اور اب تک کے سفر سے متعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔
شازیل نے اپنے کریئر کا آغاز پاکیزہ ڈرامے سے کیا تھا۔ جس میں اُنھوں نے ایک مثبت کردار ادا کیا۔ اس کردار کے بعد اُن کے جتنے بھی ڈرامے آئے اُس میں اُنھوں نے ایک منفی رول ادا کیا۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے شازیل نے کہا ’میرا وہ پہلا کردار تھا جس میں صرف رونا دھونا تھا اور صرف ہاں یا ناں کرنا ہوتا تھا۔‘
وہ اپنے اس کردار پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میری معصوم شکل کے مطابق وہ کردار تھا مگر منفی کرداروں میں آپ کے پاس اتنی جگہ ہوتی ہے کہ آپ کچھ مختلف کر کے دکھائیں، کیونکہ اس طرح کے رولز میں آپ وہ بنتے ہیں جو آپ حقیقت میں نہیں ہوتے۔‘
شازیل نے ڈرامہ عداوت میں فاطمہ کا کردار ادا کیا تھا جو کہ بہت معصوم اور سیدھی لڑکی ہے۔ اس میں ان کے شوہر کا کردار سید جبران نے ادا کیا تھا۔
اس ڈرامے کے بارے میں شازیل کا کہنا تھا کہ کیونکہ اُنھوں نے ایسی لڑکی کا کردار پہلی بار کیا تو شائقین کو ان کا کام بہت پسند آیا۔ شازیل کے شوہر کا کردار ادا کرنے والے سید جبران سے متعلق جواب میں اُن کا کہنا تھا ’جبران بھائی بہت سینیئر اداکار ہیں، اُن کے ساتھ کام کر کے بہت مزہ آتا ہے۔‘
شازیل پیدا تو اسلام آباد میں ہوئیں مگر اس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کینیڈا چلی گئیں۔ اُنھوں نے اپنی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ اُنھوں نے یونیورسٹی آف ٹورونٹو سے فیشن میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
اتنا عرصہ کینیڈا میں رہنے کے باعث اُنھیں اُردو زبان پر ابھی عبور حاصل نہیں ہے، شاید اسی وجہ سے اُن کی اُردو کے حوالے سے بھی انھیں کبھی کبھی ٹرول کیا جاتا ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ’آپ گوروں کو بولیں کہ اُردو میں بات کریں وہ نہیں کریں گے، اسی طرح آپ روس چلیں جائیں وہ انگریزی میں جواب نہیں دیں گے، وہ چاہتے ہیں کہ آپ اُن کو اُن کی ہی زبان میں جواب دیں۔
’تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اُردو صرف ایک زبان ہے، جس کو ایک انگریزی بولنے والا آسانی سے بول سکتا۔‘
شازیل نے مزید کہا کہ لوگ اُن کی اُردو کو لے کر مذاق اُڑاتے ہیں ’مگر جب تک اُن کو اُردو ٹھیک سے بولنی نہیں آتی وہ سیکھتی رہیں گی۔‘
شازیل کے والد افغان ہیں جبکہ ان کی والدہ کشمیری ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ’افغان خاندان یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ان کی بیٹی شوبز انڈسٹری کا حصّہ بنے بلکہ تقریباً ہر خاندان میں ہی بیٹیوں کے لیے ایسے ہی خیالات پائے جاتے ہیں۔‘
اپنے پہلے ڈرامہ سائن کرنے کی کہانی سناتے ہوئے شازیل نے بتایا کہ ’میں جب ڈرامہ سائن کر کے گھر آئی تو مجھے یہی ٹینشن تھی کہ گھر میں والد کو کیسے بتاؤں گی اور اُن کا پتا نہیں ردِعمل کیسا ہو گا۔‘
وہ اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میں موقع دیکھ کر اُن کے پاس گئی تو اُنھوں نے مجھ سے پوچھا کر آئی ہو سائن میں نے کہا ہاں، پھر اُنھوں نے مجھے بس یہی کہ کہا کہ تماری جو حدیں ہیں وہ تمھیں پتا ہیں بس اُن کا خیال رکھنا۔‘
کچھ عرصہ قبل شازیل ایک ٹی وی شو پر گئیں جہاں پر میزبان نے اُن سے سوال کیا کہ آپ کو کسی نے انسٹاگرام پر کوئی مزاحیہ پیغام بھیجا ہو جس پر اُنھوں نے ایک قصہ سنایا کہ کسی نے اُن کو میسیج کیا کہ ’مجھ سے شادی کر لو میں تمھیں رینج روور گاڑی دوں گا۔‘
اس قصے پر وضاحت دیتے ہوئے شازیل کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ شوبز میں کام کرنے والی لڑکیوں کو اس طرح کی چیزیں دکھا کر متاثر کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں بچپن سے ایسی چیزیں دیکھتی آئی ہوں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ان سب سے۔‘
پاکستان میں اگر اداکاروں کے سوشل میڈیا کو دیکھیں تو وہ مختلف برانڈز کو پروموٹ کرتے نظر آتے ہیں، مگر شازیل کی اگر انسٹاگرام کو دیکھیں تو وہ کسی برانڈ کو پروموٹ نہیں کرتیں۔
اُنھوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ لوگ جب میری پروفائل کھول کر دیکھیں تو اُن کو میں نظر آؤں جو میں ہوں، تو میں وہ چیز پروموٹ نہیں کر سکتی جو مجھے خود پسند نہیں ہے یا جو مجھے پہننا پسند نہیں ہے۔‘
ڈانس کرنا، ٹک ٹاک بنانا اس طرح کے مخلتف چیزیں شازیل کرتی رہتی ہیں، ان کے انسٹاگرام کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کافی بولڈ ہیں ان کا جو دل کرتا ہے وہ پہنتی ہیں اور کرتی ہیں۔ ایسے میں پرائیوسی رکھنا آسان نہیں ہے۔ شازیل کو اسی وجہ سے اکثر سوشل میڈیا پر ٹرول بھی کیا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں لوگوں کی نہیں سنتی، مجھے فرق نہیں پڑتا کوئی کیا کہتا ہے۔ میں زیادہ اُن لوگوں کے پیغامات پڑھتی ہی نہیں ہوں جو میرے بارے میں منفی باتیں کرتے ہیں۔‘
شازیل کے شوبز انڈسڑی میں زیادہ دوست نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج تک نہ کسی ایوارڈ شو میں نظر آئیں اور نہ ہی کسی پارٹی میں۔ اس پر اُن کا کہنا تھا ’مجھے نہیں پسند کہیں آنا جانا۔ اداکاری میں اپنے شوق کی وجہ سے کر رہی ہوں۔‘
شازیل کی شخصیت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ شاید ہی کبھی اداکاری سے دور ہوں گی مگر اُنھوں نے بتایا کہ وہ ایسا اپنے شوق کی وجہ سے کر رہی ہیں اور ’جس دن شوق ختم ہو گیا بغیر بتائے شوبز انڈسڑی چھوڑ دوں گی۔‘