بہت دنوں سے میں اندرون شہر نہیں گیا تھا نہ میں نے ویگن میں سواری کی تھی اور نہ میں لاہور کی سڑکوں پر پیدل چلا تھا۔چنانچہ مجھے اپنی زندگی میں کوئی کمی سی محسوس ہو رہی تھی میں نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی اور بھاٹی گیٹ جانے کے لئے 27نمبر ویگن کے انتظار میں ویگن سٹاپ پر کھڑا ہو گیا۔کچھ ہی دیر بعد دھوپ کی شدت سے میرا چہرہ جھلسنا شروع ہو گیا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میں پسینے میں شرابور ہو چکا ہوں ، ویگن سٹاپ کے قریب پہنچ کر آہستہ ہوئیں ان میں بیٹھے ہوئے نوجوانوں بلکہ بزرگوں نے بھی سٹاپ پر کھڑی خواتین کو اشارے کئے اور پھر مثبت جواب نہ ملنے پر آگے بڑھ گئے ۔خدا خدا کرکے 27نمبر ویگن آئی یہ ویگن غالباً ’’تازہ دم‘‘ تھی کیونکہ اس میں کوئی مسافر سوار نہ تھا ۔کنڈیکٹر نے ایک ایک کرکے مسافروں کو اس میں بھرنا شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد آٹھ مسافروں کی اس ویگن میں لگی اضافی نشستوں کی بدولت پندرہ مسافر اس میں سما گئے ۔ویگن ابھی چند قدم ہی چلی تھی کہ ڈرائیور نے اچانک بریک لگائی جس کے نتیجے میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے مسافر اس ’’سیفٹی لاک‘‘ کی وجہ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ٹکراتے بچے جو مسافروں کی ٹانگیں ایک دوسری میں پھنسی ہونے کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔ ڈرائیور نے بریک دو اسامیوں یعنی مسافروں کو دیکھ کر لگائی تھی کنڈیکٹر نے آوز لگائی ’’ساتھ ساتھ ہو جائو‘‘ چنانچہ سب مسافر ایک دوسرے کے مزید ساتھ ساتھ ہو گئے وہ اتنے ساتھ ہو چکے تھے کہ اگر اس وقت ان میں سے کسی کو اللہ کی طرف سے بلاوا آجاتا تو بلاوالانے والا غلطی سے کسی دوسرے سے ’’نوٹس‘‘ کی تعمیل کراسکتا تھا ۔بھاٹی دروازے تک پہنچتے پہنچتے مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا چنانچہ میرا خیال تھا کہ اب مجھے کرین ہی سے باہر نکالا جا سکے گا مگر کنڈیکٹر نے مجھے اس ہجوم بلا سے یوں نکال کر باہر پھینکا جیسے دودھ میں سے مکھی نکال کر پھینکی جاتی ہے ویسے بھی اس دوران میں انسان سے مکھی کی جون میں آچکا تھا اور مجھے خود سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔
میں بہت عرصے بعد بھاٹی دروازے آیا تھا پہلے یہاں رونق ہوتی تھی اب رش تھا کاریں، موٹر سائیکلیں، موٹر سائیکل رکشے، گدھا گاڑیاں،پیدل سوار ایک دوسرے میں یوں گڈمڈ تھے جیسے ڈور میں گنجل پڑ گئی ہو ۔اس کے علاوہ چیختے چلاتے ہارن تھے اور لوگوں کے کھچے ہوئے چہرے، بھاٹی دروازے کے صدیوں پرانے مکان یہ منظر اداس نظروں سے دیکھ رہے تھے انہیں اپنے پیدل چلنے والے نظر نہیں آ رہے تھے۔یہ کوئی اور ہی کلچر تھا جس میں ان کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں تھی میں بھی چلتے چلتے ادھر کا رخ کرلیتا تھا جدھر مجھے کوئی خالی جگہ نظر آتی تھی اور یوں زگ زیگ بناتا وہ بھاٹی دروازہ تلاش کر رہا تھا جسے دیکھنے کے لئے میں آیا تھا بس کہیں کہیں اس کی جھلک دکھائی دے جاتی تھی ۔میں نے سڑک پر سے گزرتے ہوئے ایک خمیدہ کمر، سفید ریش بزرگ کو دیکھا جو ہاتھ میں ڈول پکڑے غالباً گھر سے دہی خریدنے نکلا تھا۔اس کی نظر اپنے ایک ہمدم دیرینہ پر پڑی جو اسی کی طرح ضعیف تھا اور اس کے چہرے پر اسی کی طرح سفید داڑھی تھی۔ وہ والہانہ انداز میں اس کی طرف بڑھا اور پھر دونوں نے والہانہ انداز میں ایک دوسرے کو جن ’’خطابات‘‘ سے نوازا اس سے تصنع اور بناوٹ کا وہ ماحول کچھ دیر کے لئے میری نظروں سے اوجھل کر دیا جس نے بھاٹی دروازے کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ایک ریڑھی پر کانجی پینے والوں کا ہجوم تھا اور ایک دکان پر پہلوانوں کی تصویروں والے کیلنڈر بھی نظر آئے جنہوں نے اپنے کاندھوں پر گُرزرکھے ہوئے تھے۔ایک مسجد کے باہر دو تین بچیاں اپنے بھائی بہنوں کو گود میں اٹھائے آ رہی تھیں اور نماز پڑھ کر مسجد سے نکلنے والے نمازیوں سے انہیں ’’دم‘‘ کرا رہی تھیں۔ایک موٹا شخص بکرے کی رسی تھامے چلا جا رہا تھا اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا جو پہلے ’’بھیڈو‘‘ کو اشتعال دلاتا تھا اور پھر اس کے ماتھے پر ماتھا رکھ دیتا تھا تاکہ وہ اسے ٹکر مارے ۔مگر رش کی وجہ سے اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو رہی تھی مگر اس منظر سے میری وہ خواہش ضرور پوری ہو رہی تھی جو مجھے یہاں کھینچ لائی تھی۔
میں ایک پنساری کی دکان سے اندر جانے والی ایک تنگ گلی میں داخل ہو گیا۔یہ گلی اتنی تنگ تھی کہ کہیں کہیں ایک خاص اینگل سے اس میں سے گزرنا پڑتا تھا ۔یہاں مکان ایک دوسرے پر جھکے ہوئے تھے اور ان مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔گلی میں پانی اور گیس کے پائپ ایک دوسرے سے الجھے ہوئے تھے ایک طرف نالی بہہ رہی تھی اور یوں پیدل چلنا یہاں بھی مشکل تھا۔جب سامنے سے کوئی دوسرا شخص آتا نظر آتا تو دیوار کے ساتھ چپک جانا پڑتا تھا تاکہ اسے گزرنے کا رستہ مل سکے ۔یہاں آمنے سامنے والے مکانوں کی کھڑکیوں میں سے لڑکیاں ایک دوسرے سے گپ شپ کر رہی تھیں ۔ان دونوں مکانوں کے درمیان فاصلہ اتنا کم تھا کہ ذراسی کوشش کے نتیجے میں ’’بائی ایئر‘‘ ایک دوسرے کی طرف جایا جاسکتا تھا۔مگر سب گلیاں اتنی تنگ نہیں تھیں کئی ایک قدرے کشادہ بھی تھیں اور دل تو ان لوگوں سے کہیں زیادہ کشادہ تھے جن کے گھروں کے فاصلے اور دلوںکے فاصلے ماپے نہیں جاسکتے۔یہاں لوگ ایک دوسرے کی سات پشتوں سے واقف تھے لہٰذا کوئی چھچھورا شخص زیادہ عرصے تک ان کے درمیان نہیں رہ سکتا تھا۔یہاں کے بدمعاش بھی اپنے محلے میں نظریں نیچی کئے گزرتے تھے۔میں نے محسوس کیا کہ یہ لاہور جو زندگی کے قریب تر ہے اب بھی کافی حد تک اچھی قدروں اور ناکافی سہولتوں کےساتھ اسی لاہور میں رہتا ہے جس میں قدریں کمزور پڑ گئی ہیں اور ان کی جگہ سہولتوں نے لے لی ہے۔ میں ’’آب وہوا کی تبدیلی‘‘ کے لئے اس لاہور میں آیا تھا مگر اب واپس اپنے سہولتوں والے علاقے میں جا رہا تھا کہ قدروں (VALUES)کی اونچ نیچ کے ساتھ تو میں نے سمجھوتا کرلیا ہے مگر سہولتوں کے حوالے سے مجھ سے سمجھوتا نہیں ہوتا۔