Site icon DUNYA PAKISTAN

ہیرا منڈی: سنجے لیلا بھنسالی کی نئی سیریز پر اہل لاہور کو اتنا غصہ کیوں ہے؟

Share

بالی وڈ کے مشہور ہدایتکار سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز ’ہیرا منڈی- دی ڈائمنڈ بازار‘ رواں ہفتے ویب سٹریمنگ سروس نیٹ فلکس پر ریلیز کی گئی ہے۔ آٹھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کی کہانی 1910-1940 کی دہائی میں برطانوی راج کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے پس منظر میں فلمائی گئی ہے۔

اس سیریز کی کہانی تقسیم سے قبل اور تحریکِ آزادی کے وقت لاہور کے شاہی محلے ہیرا منڈی میں بسنے والی ایک طوائف ’ملکہ جان‘ اور ان کے کوٹھے کے اردگرد گھومتی ہے۔

عالی شان محلوں، بیش قیمت فانوسوں سے بھرے دلکش سیٹ، سونے، چاندی اور نوادرات سے لدی قیمتی لباسوں میں ملبوس ہیروئنز اور بے مثال کیمرہ ورک اور منیشا کوئرالا کی شاندار اداکاری۔۔۔ مگر اس سب کے باوجود یہ سیریز 1940 میں لاہور کی ہیرا منڈی کی درست شبیہ پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔

جس سیریز میں ایک ساتھ اتنی پیچیدگیاں یکجا ہو جائیں، وہاں انسانی جذبات کی عکاسی کرنے والی کہانی دکھانا مشکل ہو جاتا ہے اور بھنسالی پوری سیریز میں اسی جدوجہد میں نظر آتے ہیں۔

آٹھ گھنٹے ضائع کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ’مصنوعیت‘ سے بھرپور اس سیریز میں پلاٹ، سکرپٹ اور ڈائیلاگز کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ اداکاراؤں کا لہجہ اتنا مصنوعی ہے کہ اس میں تقسیم سے قبل والی ان طوائفوں کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی جن کے پاس اشرافیہ اپنے بچوں کو آداب، معاشرتی ثقافت اور اردو زبان کا لب و لہجہ سکھانے بھیجتے تھے۔

ادھر اہلِ لاہور کو غصہ ہے کہ ہیرامنڈی کے مکانات میں آپ کوایسا ایک بھی صحن نہیں ملے گا جیسا بھنسالی کے سیٹ پر دکھایا گیا ہے۔۔۔ ان صارفین کے مطابق اس محلے میں کثیر المنزلہ پانچ پانچ، دس دس مرلے کے کوٹھے یا مکانات تھے اور جیسی امارت سیریز میں ظاہر کی گئی ہے اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس کے علاوہ اس سیریز میں کچھ ایسے بلوپرز (غَلطیاں) ہیں جنھیں دیکھ کر آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اتنے بڑے بجٹ کی سیریز میں تحقیق پر کچھ خرچہ کر لیتے تو شاید ایسی خفت نہ اٹھانا پڑتی۔

یاد رہے تقریباً دو سو کروڑ روپے کے بجٹ (انڈین میڈیا کے مطابق) سے بننے والی اس سیریز کو سنجے لیلا بھنسالی اپنا ’ڈریم پراجیکٹ‘ کہتے ہیں اور اس مضمون کی اشاعت تک یہ سٹریمنگ سائٹ نیٹ فلکس پر اول نمبر پر ہے۔

اس سیریز میں ملکہ جان شاہی محل (ہیرا منڈی) کی سب سے خوبصورت اور بڑی حویلی کی مالکن ہیں اور ہیرا منڈی کی تمام طوائفیں انھیں آپا بلاتی ہے۔ شاہی محل کی مالک بننے کے لیے ملکہ جان نے برسوں پہلے اپنی ہی بڑی بہن (ریحانہ جس کا کردار سنہا کشی نبھا رہی ہیں) کو قتل کر دیا تھا۔

سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ برسوں بعد ریحانہ کی بیٹی فریدن (اس کردار کو بھی سنہا کشی سنھا ہی نبھا رہی ہیں) اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لینے اور شہاہی محل کی چابیاں ہتھیانے پہنچ جاتی ہے اور بس یہی سے ان دونوں کے بیچ ایک ایک ایسی لڑائی شروع ہو جاتی ہے جس کی لپیٹ میں ان دونوں سے جڑے کئی مہرے پٹتے ہیں۔

اس ان دیکھی جنگ میں سب سے زیادہ فائدہ انگریز سرکار کا ہوتا ہے جو تحریکِ آزادی کی جدوجہد کے لیے سرگرم مظاہرین سے نمٹنے میں مصروف ہوتی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب ہندوستان میں تحریکِ آزادی زوروں پر ہے اور شاہی محلے کی طوائفیں بھی اس میں سرگرم ہیں۔

بھنسالی کے اس ڈریم پروجیکٹ میں منیشا کوئرالہ، سوناکشی سنہا، ادیتی راؤ حیدری، فردین خان، فریدہ جلال، شرمین سیگل اور طہٰ شاہ وغیرہ شامل ہیں۔

اس سیریز کو معین بیگ نے تحریر کیا اور اس کا سکرین پلے اور ہدایات کاری سنجے لیلا بھنسالی نے دی ہے۔

پیرِ کامل ناول سے کورونا وائرس کی خبروں تک والے مناظر

اب بات کرتے ہیں سیریز کے بلوپرز (غَلطیاں) کی۔۔۔ مثلاً سیریز کی چوتھی قسط میں جب ادتی راؤ حیدری (ببوجان) اپنی بہن عالم زیب کا تاجدار کے نام لکھا گیا خط لے کر نواز کو دینے لائبرییری جاتی ہے تو وہاں ان کے پیچھے الماری میں پڑھی کتابوں میں مصنفہ عمیرہ احمد کا لکھا گیا ناول ’پیرِ کامل‘ بھی موجود ہے۔۔ یاد رہے سیریز کے مطابق یہ سین تقسیم سے قبل کا ہے اور پیرِ کامل سنہ 2004 میں پبلش ہوا تھا۔

ایسے ہی ایک اور سین میں سنہاکشی سنہا (فریدین) جو اخبار پڑھ رہی ہیں، وہ سنہ 2022 میں شروع ہوا اور سنہاکشی نے اخبار کا جو صفحہ پکڑ رکھا ہے اس پر کورونا وائرس کی خبریں بھی شائع ہیں کہ خود اعتمادی کیسے آپ کو کوورنا سے لڑنے میں مدد دے سکتی ہے۔

اخبار کے نام کو لے کر میمز کا الگ سلسلہ جاری ہے۔

اس سیریز پر سب سے زیادہ غصہ اہلِ لاہور کو ہے۔۔۔ صحافی و تجزیہ کار صباحت ذکریا نے لکھا کہ سیریز کی پہلی قسط آدھی دیکھ کر ان کی والدہ کی بس ہو گئی۔۔ انھیں شکایت ہے کہ کہ وہ ہیرا منڈی میں رہنے والے کئی ڈاکٹروں، کالج پرنسل کو جانتی تھیں اور انھیں ہیرا منڈی کو محض ایسی جگہ کے طور دکھانے پر اعتراض ہے جہاں صرف طوائفیں رہتی تھیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی حمد نواز نے سیریز دیکھنے کے بعد ایک تھریڈ کے ذریعے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہیرا منڈی میں ہیرا منڈی کے علاوہ سب کچھ ہے۔

وہ ایک سیٹ کی تصویر کا موازنہ حقیقی شاہی محلے سے کرتے ہوئے پوچھتی ہیں کہ یہ سیٹ کہاں لگایا گیا تھا؟ اٹلی میں لیک کومو پر یا املفئی کوسٹ میں؟ آج بھی لاہور کی بچی کچی ہر عمارت سے سب سے واضح جو نشان نظر آتا ہے وہ ہے شاہی قلعہ، اس کے ساتھ عظیم الشان مسجد اور اس کے مینار۔

ان کا ماننا ہے کہ یہ محلہ گلیمر سے بھرپور نہیں تھا، بلکہ یہاں استحصال، غلامی اور غربت تھی اور وہاں رہنے والوں کو کم از کم ویسا ہی دکھایا جانا تھا جسے وہ حقیقی زندگی میں تھے۔

رفیع کہتے ہیں جیسے فلم کلنک میں لاہور کو وینس بنا دیا تھا ویسے ہی ’ہیرا منڈی‘ میں سنجے لیلا نے اس گلی میں بگھیاں چلوا دیں جہاں درمیانے سائز کی کار آجائے تو پیدل چلنے والے دیواروں سے چپک جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی افسانوی مقام پر فلم بنائی جائے تو آپ کے پاس لائسنس ہے کہ آپ جو چاہے دکھا دیں لیکن اگر دعویٰ یہ ہو کہ یہ ایک حقیقی مقام پر مبنی کہانی ہے تو حقیقت سے اتنی رخصتی جائز نہیں۔ لاہور کی ہیرا منڈی میں حویلیاں؟ اتنے چھوٹے سے محلے میں حویلیاں جن میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور ان میں وسیع و عریض باغ ہیں ؟

ناقدین اس سیریز میں طوائفوں سے لے کر دیگر اداکاروں کے لب و لہجے پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔

اسی حوالے سے وقاص علوی کہتے ہیں کہ لاہور کے بازار حسن، ہیرا منڈی میں ساری طوائفوں کا تعلق لکھنؤ سے ہے کیا؟ پنجابی لہجے یا زبان میں بات نہیں کر رہی ہیں؟ اتنا شست اردو لہجہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ پوچھتے ہیں کہ اتنا بڑا فرق نہیں بتایا کسی نے سنجے لیلا بھنسالی کو؟

بیشتر ناقدین کو شرمین سیگل کو مرکزی اداکارہ رکھنے پر بھی اعتراض ہے۔

بھنسالی تصوراتی دنیا تخلیق کرتے ہیں

تاہم کچھ ناظرین بھنسالی کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی پروڈکشن کا تعلق کبھی بھی حقیقت سے نہیں رہا ہے، وہ تصوراتی دنیا تخلیق کرتے ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتی بے شک وہ حقیقی واقعات سے متاثر ہوں۔

وہ موسیقی کے ساتھ دیدہ زیب مناظر تخلیق کرتے ہیں اور حقیقت کے لیے تو ہمارے پاس کتابیں اور دستاویزی فلمیں موجود ہیں۔

جن ناظرین کو یہ سیریز بہت پسند آئی وہ ناقدین کو نصحیت کر رہے ہیں کہ سنیما سے لطف اندوز ہونا سیکھیں۔۔ تفریح، فن اور تاجدار اور عالم زیب کی محبت کی کہانی انجوائے کریں۔

Exit mobile version